اگر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے ہی باہم دست و گریباں نظر آئیں گے اور منافرت کی سیاست میں ملکی اور قومی مفادات کی بھی پروا نہیں کی جائے گی تو یہاں مہذب معاشرے والی اقدار کہاں پنپ پائیں گی!
گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا وہ کسی مضحکہ خیز المیے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کی سیاست شاذ و نادر ہی اتنی زیادہ پستی میں گری ہے۔ دونوں ایوانوں کے تقریباً 400 اراکین عملی طور پر کئی دنوں تک اسیر رہے، جبکہ حکمران اتحاد کی اعلیٰ قیادت نے متنازع آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے درکار تعداد حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ لیکن ووٹ پورے نہ ہونے پر اس کھیل میں ناکامی نے شاید حکومت کو پسپائی پر مجبور کیا۔ لیکن ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بل کی منظوری میں ناکامی حکومت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے دھچکا تھا، کیونکہ اس اقدام کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ عدلیہ کا کنٹرول حاصل کرنا، فوج کے حمایت یافتہ اس نظام کو درپیش کسی بھی چیلنج کو دور کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔ بظاہر اس بل میں جو ترامیم تجویز کی گئیں ان سے نہ صرف عدلیہ مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت ہوجائے گی بلکہ آئین کی اُس بنیاد کو ہی ختم کردیا جائے گا جو ریاست کے تینوں ستونوں کے علیحدہ علیحدہ اختیارات کا تعین کرتی ہے۔
’’عدالتی اصلاحات‘‘ پر اُس وقت سے کام ہورہا ہے جب سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے۔ اس کے باوجود اب تک اس قانون کا کوئی واضح فریم ورک منظرعام پر نہیں آسکا ہے۔ جس معاملے نے حکومت اور سیکیرٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی گھبراہٹ میں مبتلا کیا وہ 12 جولائی کو عدالتِ عظمیٰ کا اکثریتی حکم تھا کہ جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ دیا گیا۔ اس فیصلے نے قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کو تبدیل کردیا جس کی وجہ سے حکمران اتحاد نے آئینی ترامیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کھو دی۔
ایک اور اہم عنصر موجودہ چیف جسٹس کی عنقریب ریٹائرمنٹ ہے۔ اُن کے جانے کے بعد حکمرانوں کو ڈر ہے کہ عدالتی بینچ سے ایک ایسا جج چلا جائے گا جس کا بظاہر ان کی جانب جھکاؤ ہے۔ یوں یہ ترامیم ان کے خیال میں عدالتِ عظمیٰ میں توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس بل کو منظور کرنے کے حوالے سے پیش رفت ہوئی، جس میں اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز پیش کی گئی، یعنی چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں 3 سال تک توسیع ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کا مکمل مسودہ کابینہ یا اتحادی جماعتوں کے اراکین کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیا گیا لیکن ارکان سے کہا گیا کہ وہ ایوان کے سیشن میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں۔ ان مجوزہ آئینی ترامیم کا سب سے تشویش ناک پہلو وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے جوکہ سینئر ترین ججوں کی خودبخود بطور چیف جسٹس تقرری کے بجائے ججوں کے پینل میں سے چیف جسٹس تعینات کرے گی، جبکہ یہ آئینی عدالت ہائی کورٹس کے ججوں کے تبادلوں کا بھی فیصلہ کرے گی۔ یہ تو واضح ہے کہ ان تمام ترامیم کے پیچھے سیاسی مقاصد موجود ہیں اور ان کا عدلیہ کی اصلاحات کے دعووں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسودے کے مطابق تمام سیاسی مقدمات کو تجویز کردہ 7 رکنی آئینی عدالت میں منتقل کیا جائے گا، جبکہ وزیراعظم اس عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر کریں گے۔ اس اقدام سے سپریم کورٹ اپنے تمام اختیارات سے محروم ہوجائے گی۔ حکمران اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے آئینی عدالت کے قیام کو چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ قرار دیا جس کی توثیق تقریباً دو دہائی قبل مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں نے کی تھی۔ یہ آئینی جمہوریت کی بنیاد کو ختم کرنے والے ایک غیر جمہوری اقدام کو درست قرار دینے کی انتہائی ناقابلِِ یقین دلیل ہے۔ چارٹر میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، لیکن یہ بالکل ایک مختلف تناظر میں ہے۔ درحقیقت اس دستاویز میں تو عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان طاقت کا توازن قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کو محدود کیا جائے اور وہ بھی اس مقصد کے تحت کہ غیر جمہوری قوتیں مضبوط ہوسکیں۔
ترامیم کو منظور کروانے کی ناکام کوشش کے باوجود حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنا منصوبہ ترک نہیں کیا ہے۔ چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے سے قبل ترامیم منظور کروانے کی ایک اور کوشش کی جائے گی۔ یہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے امتحان ہوگا کہ وہ اپنے پیچھے کیا میراث چھوڑ کر جاتے ہیں۔ صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اگلے ماہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گے۔
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جس میں کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا 70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ آئین اور جمہوریت کی بنیاد عوام کی رائے اور مرضی ہے، جمہوریت کی بنیاد صاف اور شفاف انتخابات پر ہے، پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا ہے، الیکشن میں بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے 13 میں سے 8 ججوں نے اکثریتی فیصلہ 12 جولائی کو دیا تھا، 39ارکان کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیا گیا تھا اور 41 ارکان کو کسی بھی جماعت میں شمولیت کے لیے پندرہ روز دیے تھے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے 41 ارکان نے الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی سے وابستگی کے حلف نامے جمع کروا دیے تھے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔ الیکشن کمیشن نے 41 ارکان کی پارٹی وابستگی سے متعلق سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگ رکھی ہے۔ آئین صرف ایک حکومتی بلیو پرنٹ نہیں بلکہ عوام کی حاکمیت یقینی بنانے پر مبنی دستاویز ہے۔ آئین سیاسی جماعت بنانے اور عوام کو اس میں شمولیت کا حق دیتا ہے۔ عوام کی نمائندگی ہی دراصل جمہوریت ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر 8 ججز 41 ارکان کی پارٹی وابستگی پر ان کے پی ٹی آئی ارکان ہونے کی وضاحت کرچکے ہیں، الیکشن کمیشن نے 41 ارکان کے پی ٹی آئی کے سرٹیفکیٹ تاحال جاری نہیں کیے ہیں، الیکشن کمیشن نے اسپیکر کے خط کی بنیاد پر پی ٹی آئی ارکان کو پارٹی سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے گریز کیا ہے۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے ووٹرز نے اس کے آزاد ارکان کو بھی ووٹ پارٹی کی وجہ سے دیا تھا، جو سیاسی جماعت ایک مرتبہ رجسٹر ہوجائے اسے ڈی لسٹ کرنے کا الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہیں۔ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ پارلیمانی جمہوریت میں اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، آئین میں دیے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دانستہ طور پر مخصوص ایجنڈے کے تحت پروان چڑھائی جانے والی منافرت کی سیاست نے باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو ہی بے توقیر نہیں کیا بلکہ منافرت کی اس سیاست کے منفی اثرات ریاستی انتظامی اداروں کے اندر تک بھی جا گھسے ہیں، اور اس صورت حال میں اداروں کے مابین اختیارات کی جنگ کا ممکنہ طور پر آغاز ہوگا تو مہذب انسانی معاشرے والے تصورات بھی ماند پڑنا شروع ہوجائیں گے۔ ریاستی انتظامی اداروں کو اپنی اپنی متعینہ آئینی حدود کے اندر ہی فرائضِ منصبی ادا کرنے چاہئیں اور ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ ماضی میں ایسی مہم جوئیوں کا انجام ہم ماورائے آئین اقدامات کی صورت میں بھگت چکے ہیں، اس لیے ہمیں ماضی کے تلخ تجربات سے اب تو سبق حاصل کرلینا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی معاشرہ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف و میرٹ کی عمل داری کی بنیاد پر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے ہی باہم دست و گریباں نظر آئیں گے اور منافرت کی سیاست میں ملکی اور قومی مفادات کی بھی پروا نہیں کی جائے گی تو یہاں مہذب معاشرے والی اقدار کہاں پنپ پائیں گی! اس حوالے سے یہ لمحہ ہماری قومی سیاسی، دینی اور ادارہ جاتی قیادتوں سے سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے۔ آج ہمیں بطور معاشرہ اور بطور ترقی پذیر ملک جن اندرونی و بیرونی گمبھیر چیلنجوں کا سامنا ہے، ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے تو ادارہ جاتی اور قومی سیاسی قیادتوں کی سطح پر معاملہ فہمی کی زیادہ ضرورت ہے چہ جائیکہ باہمی ٹکرائو کا راستہ اختیار کرکے ملک کی معیشت و معاشرت کو ترقیِ معکوس کی جانب دھکیل دیا جائے! خدارا ہوش کے ناخن لیجیے اور گھات میں بیٹھے ملک کے بدخواہوں کو ملک کی ترقی و سلامتی کے خلاف سازشی منصوبوں کی تکمیل کا موقع مت فراہم کیجیے، ورنہ ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔
سات عشرے گزر گئے، آٹھواں عشرہ چل رہا ہے، آج تک پاکستان میں یہی طے نہیں ہوسکا کہ کون سا ادارہ بالاتر ہے۔ سیاسی لحاظ سے ایک جمہوری ملک ہونے کے ناتے یہی کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، لیکن یہ ادارہ ماضی میں ’’دو جیپوں‘‘ کی مدد سے متعدد بار گھر بھیجا جاچکا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ حتمی ہے اور اس پر عمل درآمد انتظامیہ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ماضیِ قریب میں ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کرانے کا حکم دیا لیکن مقننہ نے اس فیصلے کی راہ میں ایسا پتھر رکھ دیا کہ دو صوبوں میں انتخابات نہیں ہوسکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن بااختیار ہونا چاہیے، لیکن مجال ہے کہ اس کا کوئی اختیار کسی نے صدقِ دل سے تسلیم کیا ہو۔ آئینی اداروں میں اختیارات کی کشمکش سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور قومی معیشت بیٹھ رہی ہے، کسی کو اس بات کی فکر اور پروا نہیں کہ ہر روز کیوں اور کتنے تعلیم یافتہ نوجوان بیرونِ ملک جارہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گزشتہ دو ہفتوں سے ملک میں ایک بار پھر سے یہ بحث جاری ہے کہ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ میں سے کون بالاتر اور سپریم ادارہ ہے؟ اس کا سادہ الفاظ میں یہی جواب ہے کہ جب تک پارلیمنٹ اس خوف میں رہے گی کہ آج گئی یا کل، اُس وقت تک ملک میں سیاسی استحکام آئے گا نہ یہ فیصلہ ہوسکے گا کہ بالاتر کون ہے؟ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے، یہ بات سن سن کر کان پک گئے ہیں، لیکن ملک کی داخلی صورتِ حال، ہمارے متعلق سرحدوں کے پار عزائم ہم سے یکسو، متحد اور ایک بینر تلے اکٹھے ہونے کا تقاضا کررہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ذاتی انا کے اندھے کنویں سے باہر نکل نہیں رہے۔ ملک کا دانش ور اور حالات پر گہری نظر رکھنے والا طبقہ کہتا ہے کہ پاکستان کی مستقبل کی ترقی کا دارومدار ایک ایسی واضح سمت متعین کرنے پر ہے جس کے ہر پالیسی ساز فیصلے میں قوم سازی کا عنصر مثبت طریقے سے مربوط ہو، ایسی سمت کا تعین ملک کے گورننس کے بحران کو حل کرنے، نظریاتی اتحاد کو فروغ دینے اور سیاحت اور ٹیکنالوجی جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں ملک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو گزشتہ سات دہائیوں سے پیش آنے والے پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پالیسی فیصلوں اور اصلاحات میں یکجہتی اور قومی سطح پر ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس طبقے کی رائے ہے کہ کمروں میں بیٹھ کر بنائی گئی ’’پالیسیاں‘‘ کمزور ہم آہنگی اور غیر مؤثر نفاذ کا باعث بنتی ہیں۔ اختیارات کی جنگ اور رسّا کشی پاکستان کے پالیسی سازی کے فریم ورک کے اندر ایک گہرے بحران کی عکاسی کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مربوط اسٹرے ٹیجک پالیسیوں کی کمی اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور ہم سی پیک جیسے منصوبے سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ اگر اس معاملے پر توجہ اور تندہی سے کام نہ کیا گیا تو یہ بہترین موقع ضائع بھی ہو سکتا ہے، جو کہ وسیع سطح پر پالیسی کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جو کاروبار، اور بالخصوص چینی سرمایہ داروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے، سول سوسائٹی، خاص طور پر ریسرچ کمیونٹی بھی اپنا کام کرے، وہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ زیادہ فعال طریقے سے منسلک رہیں تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ اس طرح کی رابطہ کاری بہتر پالیسی سازی کی رہنمائی میں مدد دے سکتی ہے، جو بالآخر ایک زیادہ مربوط اور مؤثر گورننس سسٹم کی طرف لے جائے گی۔ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر توجہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ قومی اتحاد اور تشخص مضبوط بنانے کے لیے قومی سیرت سازی اور کردار سازی ترجیح اول بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک نظریاتی ریاست کے طور پر پاکستان کو اپنے بنیادی اصولوں پر اعتماد کے ساتھ عمل پیرا ہونا چاہیے۔