مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر یہی تفصیلی فیصلہ متوقع تھا۔ اس فیصلے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، حکومت اور پی ٹی آئی کے مخالفین کو شدید دھچکا لگا ہے،کیونکہ اس فیصلے کے تحت نہ صرف مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کا حق ہیں اور الیکشن کمیشن فوری طور پر ان نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کرے بلکہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارے کی حیثیت سے 8 فروری کو ملک بھر میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کروانے میں ناکام رہا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لینا اور اس کو بطور جماعت انتخابات میں حصہ نہ لینے دینا بھی آئین کے خلاف ہے۔

اس تفصیلی فیصلے کے بعد حکومت کا دو تہائی کا دعویٰ بھی ختم ہوا اور مجوزہ آئینی ترامیم کروانے کے فیصلے کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ اس تفصیلی فیصلے نے عملاً حکومتی عزائم کے سامنے ایک دیوار کھڑی کردی ہے، اور اب حکومت کے لیے آگے بڑی مشکلات ہیں۔ حکومت اور الیکشن کمیشن نے فوری طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے عدالت کے خلاف جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جو بڑے ٹکرائو کا سبب بنے گا۔ اسی طرح جسٹس منصور علی شاہ نے عملاً نئے چیف جسٹس کے طور پر کام شروع کردیا ہے اور انہوں نے ایک خط کی مدد سے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس پر بھی اپنے تحفظات پیش کردیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس اپنی ہی عدالت میں تنہا ہوگئے ہیں اور حکومتی آپشن بھی اس تفصیلی فیصلے سے محدود ہوگئے ہیں، اور حکومت کو اس وقت ہر محاذ پر اپنی سیاسی بقا کا سوال درپیش ہے۔ عدالت میں جو تقسیم ہے وہ بھی موجودہ چیف جسٹس کے حق میں نہیں، اور حکومت کو لگتا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے بعد اس کی سیاسی مشکلات بڑھیں گی اور مستقبل بھی دائو پر لگے گا۔

اس فیصلے نے پورے انتخابی نظام، الیکشن اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی ساکھ کو بھی ننگا کردیا ہے، اور اب ملک میں نئے انتخابات کی بحث شروع ہوگی اور بحران کا حل بھی نئے انتخابات ہی ہوں گے۔