نئی سازشیں، نیا کھیل تماشا

پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈیننس کا سہارا

پاکستان میں سیاسی بحران اور حکمرانوں کا تماشا بدستور جاری ہے اور کوئی بھی فریق ماضی کی سیاسی اور قانونی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی بنیادپرپاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا ایک مصنوعی کھیل تماشا سجایا جاتا ہے، یا اس کو بنیاد بناکر سیاسی بندوبست کا دربار سجایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاست اور جمہوریت کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے عملاً ملک کے سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو فارغ کرلیا ہے، اور ان کی توجہ کا مرکز جمہوری یا عوامی مفادات پر مبنی سیاست نہیں بلکہ طاقت کے مراکز کے درمیان کھیلا جانے والا آنکھ مچولی کا کھیل ہے، اور اسی کھیل میں وہ اپنے اقتدار کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ حالیہ ریاستی اور سیاسی بحران کو بھی اسی تناظر میں جوڑ کر دیکھا جائے تو جو سیاسی سرکس دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا پس منظر یا پیش منظر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آئین، قانون، سیاسی اور جمہوری حکمرانی کو ہم نے اپنی ترجیحات میں بہت پیچھے کردیا ہے اور ایک ایسے سفر کو جاری رکھا ہے جس میں ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنا سیاسی تماشا بنارہے ہیں۔ لوگوں کو ملک کے مستقبل کے تناظر میں امید کے پہلو کم اور غیر یقینی کا ماحول زیادہ غالب نظر آتا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ سب ایک دائرے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہم اس منفی دائرے سے باہر نکلنا بھی چاہتے ہیں تو ہمارا طرزِعمل یا اختیار کیے جانے والے فیصلے ہمیں دلدل سے باہر نکالنے کے بجائے اس میں اور زیادہ پھنسا رہے ہیں، کیونکہ ہم نے مجموعی طور پر طے کرلیا ہے کہ اپنی ذات اور سیاسی مفادات سے باہر نہیں نکلنا، اور اس سوچ نے پورے ملک کی سیاسی بقا اور سلامتی کو دائو پر لگایا ہوا ہے۔
حالیہ دنوں کے سیاسی تماشے کو سمجھنے کے لیے دو خبریں اہم ہیں:

(1) قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کے بقول الیکشن ایکٹ میں ترمیم لاگو ہوچکی ہے، اور اس روشنی میں مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ بقول اسپیکر، نئی قانون سازی کے بعد مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ اس ایکٹ کے تحت وہ آزاد ارکان جو سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے ہیں پارٹی تبدیل نہیں کرسکتے اور جس نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا وہ آزاد رکن تصور ہوگا۔ الیکشن ایکٹ کی اس ترمیم کے بعد قومی وصوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز نے فوری طور پر الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے کہ بغیر تاخیر کے ان دفعات کو لاگو کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے ان خطوط کا قانونی جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اور اس کے بقول ہم ایک آئینی اور خودمختارادارہ ہیں اور ہمیں کسی بھی ادارے کا فیصلہ ڈکٹیٹ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ بیان اُس بیان کی روشنی میں دیکھا جائے جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر کوئی ادارہ ہمارا فیصلہ نہیں مانے گا تو وہ جہاں عملاً توہینِ عدالت کا مرتکب ہوگا وہیں اسے اس فیصلے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ طرزعمل ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر حکومت اور الیکشن کمیشن ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور سپریم کورٹ کو واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ ہمیں بڑی عدالت کا فیصلہ قبول نہیں۔ اسی فیصلے کے تحت قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن بھی تبدیل کردی گئی ہے، اور اب سنی اتحاد کونسل کو پارٹی تسلیم کرکے پی ٹی آئی کا پارلیمانی وجود ہی ختم کردیا گیا ہے۔

(2) حکومت نے فوری طور پر پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جاری کردیا ہے جس پر فوری طور پر صدرِ مملکت نے دستخط بھی کردیے ہیں۔ اس فیصلے کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں پہلے دائر ہونے والے مقدمات پہلے سنے جائیں گے، اور بینچ نے باری سے ہٹ کر کسی مقدمے کو سنا تو اُسے اس کی وجوہات دینی ہوں گی۔ ہر مقدمے اور اپیل کا ٹرانسکرپٹ عوام کے لیے دستیاب ہوگا، سیکشن 7-B کے تحت ہر عدالتی کیس کی اپیل تک ریکارڈنگ بھی ہوگی۔کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ ایک سینئر ترین جج اور ایک چیف جسٹس پاکستان کا نامزد کردہ ہوگا۔ اس فیصلے کی بنیاد پر ججز کمیٹی کا نظام تبدیل ہوگیا ہے اور اب اس کمیٹی میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کرلیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کا پس منظر یہ ہے کہ پچھلے دنوں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں آئینی ترامیم کا جو پیکیج لانا چاہتی تھیں اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے عدالتی نظام کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانے کے لیے مخالف ججوں کو سائڈ لائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل یہی ماضی کی حکومت تھی اور اُس وقت کے چیف جسٹس نے خود یہ فیصلہ کیا تھا کہ فردِ واحد کے مقابلے میں چیف جسٹس کے ساتھ دو سینئر ترین جج کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ اب خود ہی اس فیصلے کی نفی کرکے چیف جسٹس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کمیٹی میں اپنی مرضی کا جج لگاکر اپنی سیاسی حمایت کو مستحکم کرسکے۔ اس آرڈیننس سے چیف جسٹس کو مزید طاقت ور بنادیا گیا ہے، اور وہ اپنی مرضی کے بینچ بناسکیں گے۔ ماضی میں آج کی ہی حکومت اور ججوں اور موجودہ چیف جسٹس کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ہماری عدلیہ بینچ فکسنگ میں ملوث ہے۔ اب جو فیصلہ کیا گیا ہے کیا یہ بینچ فکسنگ نہیں؟ اور کیا حکومت اور چیف جسٹس خود کو طاقت ور بناکر عدالتی نظام پرکنٹرول حاصل کرنا نہیں چاہتے؟ اصل میں مخصوص نشستوں کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیٹی کے اندر اقلیت میں رہ گئے تھے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ چیف جسٹس نواز لیگ کی نظرثانی اپیل اور ارشد شریف قتل کیس کی سماعت چاہتے تھے، اور حکومت بھی اپنے کچھ فیصلے اسی چیف جسٹس اور کمیٹی کی حدود میں رہ کر کرنا چاہتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں حکومت کو فوری یا ہنگامی طور پر اس آرڈیننس کاسہارا کیوں لینا پڑا، اور حکومت کے ساتھ ساتھ صدرِ مملکت اور چیف جسٹس کو اس آرڈیننس کی حمایت کیوں کرنا پڑی ہے؟بنیادی بات سیاست ہے، اور حکومت سمجھتی ہے کہ اس آرڈیننس کو بنیاد بنا کر ہم اپنے سیاسی مخالفین پر بڑا دبائو ڈال سکتے ہیں۔اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے الزا م لگایا ہے کہ حکومت الیکشن میں ہونے والے فراڈ اور چاروں چیفس کو بچانے کے لیے آئینی ترامیم لانا چاہ رہی تھی اور اس کا مقصد پی ٹی آئی اور عمران خان کا راستہ روکنا تھا، مگر اس میں ناکامی کے بعد اب اس صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا گیا ہے تاکہ چیف جسٹس کو بااختیار کرکے ہمارے خلاف فیصلے لیے جائیں۔ماضی میں موجودہ چیف جسٹس کہتے تھے کہ اس طرز کے آرڈیننس ہنگامی حالات میں لائے جاسکتے ہیں۔ لیکن اب کیا ہنگامی حالات ہیں؟ اس کا بہتر فیصلہ تو چیف جسٹس ہی کرسکتے ہیں۔ کہا یہ بھی جارہا ہے کہ چیف جسٹس یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں حکومتی کھیل ختم نہیں ہو ا، بلکہ اسے ہر صورت دوبارہ لانا ہے، اور اس کا نیا ٹاسک پیپلزپارٹی کو دیا گیا ہے جو حکومت کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی نئے کھیل کا حصہ بنائے گی، کیونکہ اگر حکومت آئینی ترامیم میں ناکام ہوتی ہے تو اس کی سیاسی بقا مشکل ہوجائے گی اور اسے لانے والے بھی اس حکومتی کھیل سے مایوس ہوکر نیا کھیل شروع کردیں گے۔ جے یو آئی کے سینیٹرکامران مرتضیٰ کے بقول جب انہوں نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں بلاول بھٹو سے پوچھا کہ آپ آئین کی شق 8 میں بھی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، کیا آپ نے اس شق کو دیکھا ہے؟ تو اُن کا جواب تھا ’’ہم مجبور ہیں اور ہمیں ہر صورت ان ترامیم کو منظور کروانا ہے‘‘۔ اب پیپلزپارٹی آئینی ترامیم نہ ہونے کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ ن پر ڈالتی ہے حالانکہ وہ بھی اس جمہوری تماشے میں برابر کی حصے دار ہے اور اب اپنی سیاسی پوزیشن کو بچانے کے لیے سیاسی محاذ پر یوٹرن لے رہی ہے تاکہ اس کی سیاسی پوزیشن پر حرف نہ آسکے۔ اس کھیل میں پیپلزپارٹی نے بھی اپنا جمہوری مقدمہ ہار دیا ہے اور خود کو طاقت ور حلقوں کے سامنے بطور قربانی پیش کردیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے پہلی قسط میں آئینی ترامیم کے کھیل میں جو ناکامی حاصل کی ہے جس میں بنیادی کردار مولانا فضل الرحمٰن کا ہے، وہ دوسری قسط میں کیا کردار ادا کرتی ہے، اور ہونے والے ان تمام فیصلوں میں وہ کس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کے بقول وہ آئینی عدالت کی تشکیل کے حامی ہیں البتہ ان کو بعض ترامیم پر اختلاف ہے جو بنیادی سیاسی حقوق کو محدود اور فوج کے کردار کو بڑھا رہی تھیں۔ اسی وجہ سے نیا سیاسی رومانس اب ہمیں مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو کے درمیان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس لیے مولانا فضل الرحمٰن نے طاقت کی حکمرانی کے دروازے بند نہیں کیے بلکہ اس میں محفوظ راستہ اور اقتدار کے کھیل میں کسی بڑے حصے کو تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کی پانچ برس کی مدت ختم ہونے میں چار ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ان آئینی ترامیم کی مدد سے دوبارہ ان کو نئی مدت کے لیے اس نشست پر برقرار رکھا جائے، کیونکہ حکومت کو ڈر ہے کہ نئے کھیل میں الیکشن میں ہونے والے فراڈ کا معاملہ بے نقاب ہوتا ہے تو اُس کا بنایا گیا نظام بھی ختم ہوگا،اس لیے حکومت کسی بھی صورت میں الیکشن ٹریبونلز کے معاملات میں نہیں جانا چاہتی کیونکہ اس سے حکومت کی سیاسی بقا مزید خطرے میں پڑ جائے گی۔ ویسے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے مخصوص نشستوں کے معاملے میں تفصیلی فیصلے میں تاخیر سے بھی خرابیوں نے جنم لیا، اور یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کیوں تاخیر کی، اور کیوں حکومت کو موقع دیا کہ وہ اس پر سیاست کرے؟

اس وقت مجموعی طورپرہمارا پورا سیاسی و ریاستی نظام سیاسی ایڈونچرز کا حصہ بنا ہوا ہے اور سبھی فریق طاقت کی لڑائی کے ساتھ جڑگئے ہیں۔ ایسے میں آئین و قانون کی حکمرانی کا کھیل بہت پیچھے چلاگیا ہے، اور اس کھیل نے سبھی فریقوں چاہے وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی سب کو بے نقاب کردیا ہے۔یہ جو دونوں حوالے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت ور طبقات آج بھی آئین اور قانون کی حکمرانی کے سامنے سرنڈر کرنے کے لیے تیار نہیں، او رنہ ہی سیاسی جماعتیں جو اقتدار میں حصے دار ہیں وہ جمہوریت کو بچانا چاہتی ہیں۔ اس پورے کھیل میں پاکستان کے سیاسی اورمعاشی نظام سمیت سیکورٹی کے نظام اور عوام کے حقیقی مسائل کے حل کو دائو پر لگادیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں جاری طاقت ور طبقات کے اس کھیل سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔ دوسری جانب حکومتی آرڈیننس، بشمول مخصوص نشستوں کے فیصلے پر پی ٹی آئی نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا حکومت نئے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے معاملے میں اپنی شکست تسلیم کرچکی ہے اور اُن کے آنے میں اب کوئی نئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی؟ یا اس کھیل میں آئینی عدالت کے قیام کو یقینی بنا کرنئے چیف جسٹس کو کمزور یا محدود کرنا اور موجودہ چیف جسٹس کو آئینی عدالت کا سربراہ بناکر اُن سے سیاسی مخالفین کودبانا مقصود ہے؟ کیونکہ یہ حکومت سیاسی ایڈونچر کی بنیاد پر سامنے آئی ہے اور اس کی مجبور ی ہے کہ اسے اس سیاسی تماشے کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنا ہے، اور حکومت کی سیاسی بقا بھی اسی کھیل پر منحصر ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے طاقت ور حلقے یا دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس کھیل سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں، اور سبھی اپنی اپنی جگہ اس مہم جوئی میں حصے دار بن گئے ہیں۔ اس سارے کھیل میں نقصان ملک کا ہورہا ہے اور ہم پاکستانی اس کھیل میں بس ایک تماشائی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ہمیں زور اور جبر کی بنیاد پر ایک ایسے کھیل میں دھکیلا جارہا ہے جو ہمارے مفاد کے خلاف ہے۔