مشکوک مواصلاتی آلات کس نے بنائے،کہاں سے آئے؟
پیجر واقعہ جنگی جرم شمار ہوسکتا ہے۔ ماہرینِ انسانی حقوق
اقوام متحدہ میں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کی قرارداد منظور
شمالی غزہ کے مکمل محاصرے کی تیاریاں
نسل کشی کے خلاف مظاہروں پر پابندی نہ لگانے والی جامعات کو ٹرمپ کی دھمکی
17 اور 18 ستمبر، انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ایام ہیں جب سارے جنوبی لبنان اور شام میں بارودی مواد سے بھرے مواصلاتی آلات پھٹ گئے۔ اس وحشیانہ کارروائی میں 40 افراد جاں بحق اور 3 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ منگل 17 ستمبر کو پیجر (pager) یاbeepers پھٹنے سے تباہی مچی، اور دوسرے دن دہشت گرد سرگرمی کے لیے واکی ٹاکی (Walkie Talkie) استعمال ہوا۔
جن قارئین نے کبھی پیجر استعمال نہیں کیا، ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ پیجر کو انتہائی ابتدائی نوعیت کا موبائل فون کہا جاسکتا ہے جو صرف چند الفاظ پر مشتمل SMSبھیجنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ آلہ بنا تو 1949ء میں تھا لیکن اس کا بڑے پیمانے پر استعمال 1980ء کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں صرف گھنٹی یا beep ہی کی سہولت موجود تھی، اور beepکے ساتھ پیغام کنندہ کا فون نمبر اسکرین پر آجاتا، جس کا مطلب ہے کہ اس نمبر پر فون کرلو۔ کچھ اور آلات میں ایک انتہائی مختصر پیغام جیسے ’’براہ کرم زید کو فون کرلیجیے‘‘ لکھا آجاتا، کہ کیلکیولیٹر جیسی اسکرین پر اس سے زیادہ گنجائش نہیں۔ بعد میں OK کا بٹن آگیا جس سے پیغام مل جانے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔
اب بھی پیجر متروک تو نہیں ہوا لیکن موبائل فون آنے کے بعد اس کا استعمال کم ہوگیا ہے۔ چونکہ موبائل فون استعمال کرنے والے کی حرکت و مقام پر نظر رکھی جاسکتی ہے اس لیے میدانِ جنگ اور حساس مقامات پر پیغام رسانی کے لیے موبائل فون کے بجائے پیجر یا بیپر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ پیجر ہی کے ساتھ واکی ٹاکی بھی باہمی رابطے کا بڑا محفوظ ذریعہ ہے۔ اس متحرک ٹیلی فون کا نیٹ ورک محدود اور محفوظ ہے، اور نیٹ ورک سے باہر اس کا کوئی رابطہ نہیں، لہٰذا واکی ٹاکی استعمال کرنے والوں کے مقام کا اندازہ ممکن ہے اور نہ باہمی گفتگو پر نقب لگائی جاسکتی ہے۔
واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ 17 ستمبر کو لبنانی وقت کے مطابق دوپہر ساڑھے تین بجے جنوبی لبنان اور شام میں پیجروں پر پیغام آئے۔ جیسے ہی وصول کنندہ نے جیب یا کمر میں لگے تھیلے (Pouch) سے پیجر نکال کر بٹن دبایا، یہ دھماکے سے پھٹ گیا۔ چونکہ گھنٹی بجنے پر پیجر چہرے کے قریب کرکے نمبر پڑھا جاتا ہے لہٰذا پھٹنے پر ہاتھ اُڑجانے کے ساتھ چہرے جھلسے اور سیکڑوں افراد کی آنکھیں ضایع ہوگئیں۔
شروع میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ اسرائیلی ماہرین نے کوئی ایسا پروگرام تیار کیا جس کی وجہ سے جنوبی لبنان میں پیغام وصول کرنے والے کا ہر پیجر شارٹ سرکٹ ہوا اور آلہ پھٹ گیا۔ لیکن تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ یہ سائنسی مہارت کے بجائے اسرائیل کے سرپرستوں کی مکارانہ شرارت ہے۔
لبنان نے تائیوان کے ادارے Global Apoloسے AR-924 ماڈل کے پانچ ہزار پیجر خریدنے کا معاہدہ کیا۔ کمپنی نے پیجر خود فراہم کرنے کے بجائے ہنگری میں اپنے ذیلی ادارے BAC Consulting KFTسے پیجر تیار کرنے کو کہا، جس کا دفتر ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ (Budapest) میں ہے۔ بیک کے افسران نے 19 ستمبر کو بتایا کہ صوفیہ (بلغاریہ) میں Norta Global Ltdنے مال تیار کیا۔ ہنگری کا ادارہ سودے میں شامل تو تھا لیکن پیجر کی تیاری اور روانگی میں اس کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ تائیوانی کمپنی گلوبل اپولو کے سربراہ Hsu Ching-kuang نے 18 ستمبر کو امریکی ریڈیو NPRسے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ پیجر کا یہ ماڈل نہیں بناتا اور لبنان کے لیے ہم نے ہنگری کی بیک کمپنی سے مال فراہم کرنے کو کہا تھا۔ یہ ماڈل نہ بنانے کی بات سفید جھوٹ ہے، اس لیے کہ گلوبل اپولو کی ویب سائٹ پر AR-924کا اشتہار اس واقعے سے پہلے تک موجود تھا جس میں بڑی صراحت اور فخر کے ساتھ کہا گیا کہ اس نئے ماڈل میں لیتھیم بیٹری کے استعمال نے اس کی پائیداری کو دوچند کردیا ہے۔ پانچ دن پہلے AR-924پیجر کا اشتہار کمپنی کی ویب سائٹ سے ہٹالیا گیا۔
گلوبل اپولو کے CEOنے یہ انکشاف بھی کیا کہ لبنان بھیجے جانے والے پیجروں میں جو پتری یا Chip استعمال ہوئی ہے وہ ہمارے ماڈل میں نہیں لگائی جاتی۔ تائیوان کے وزیر معاشیات Kuo Jyh-Hueiنے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ لبنان بھیجے جانے والے پیجر نہ تائیوان میں بنے اور نہ یہاں سے بھیجے گئے۔ تائیوانی وزارتِ تجارت کا کہنا ہے کہ اِس سال اگست تک اپولو نے 40 ہزار پیجر یورپ برآمد کیے ہیں لیکن BAC ہماری براست گاہک نہیں۔ اس سودے کے مشکوک ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ BAC نے فروخت کی رقم جس بنک سے اپولو کو بھیجی اُس بنک کو اپولو کا تائیوانی بنک ماضی میں ناپسندیدہ قرار دے چکا ہے۔ وزیراعظم ہنگری کے ترجمانZoltan Kovács نے سوشل میڈیا پر اس بات کی وضاحت کی کہ BAC کنسلٹنگ کاروباری ادارہ ہے اور اس کا ہنگری یا کسی اور جگہ پیجر بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں۔ بیک کی سربراہ Cristiana Barsony-Arcidiacono صاحبہ یورپی یونین کمیشن، بین الاقوامی جوہری کمیشن (IAE) اور اقوام متحدہ کے ادارے UNESCOکے لیے بھی کام کرتی ہیں۔ 49 سالہ اطالوی نواز کرسٹینا اس واقعے کے بعد سے منظرعام پر نہیں آئیں اور بڈاپسٹ میں ان کے اپارٹمنٹ پر کوئی موجود نہیں۔ ان کے پڑوسیوں نے بتایا کہ محترمہ یہاں کبھی دکھائی نہیں دیں۔ 18 ستمبر کو CNNکا نمائندہ بڈاپسٹ میں BACکے دفتر پہنچا جو ایک رہائشی عمارت میں ہے۔ وہاں استقبالیہ کلرک نے بتایا کہ BAC نے دفتر کرائے پر لیا ہوا تو ہے لیکن یہاں کبھی کسی کو نہیں دیکھا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اتفاق ہو لیکن عین اُس وقت جب CNNکے نمائندے BACکے دفتر پہنچے، ہنگری پولیس کے چند افسران سادہ لباس میں وہاں موجود تھے۔ اس سے پہلے کسی نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے کرسٹینا صاحبہ نے امریکہ کے NBC ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ’’میں پیجر نہیں بناتی، میں صرف الیکٹرانک کا سامان بیچتی ہوں‘‘۔ ایک معنی خیز بات کہ اِس سال اپریل میں اسرائیلی قانون سازوں کے ایک وفد نے تائیوان کا دورہ کیا اور اس دوران وہ لوگ مبینہ طور پر گلوبل اپولو کے کارخانے بھی گئے تھے۔
جہاں تک پیجر بنانے اور روانہ کرنے والے بلغاروی ادارے Norta Globalکا تعلق ہے تو یہ کمپنی اپریل 2022ء میں رجسٹر ہوئی، جس کے مالک ناروے کے ایک شہری رنسن ہوزے(Rinson Jose) ہیں۔ اس ادارے کا بھی اپنا کوئی کارخانہ نہیں اور دستاویز کے مطابق کمپنی خرید و فروخت (outsourcing)، تیکینکی مشاورت اور فروغِ کاروبار کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ (حوالہ: CBS، NBC، NPR، CNN، نیویارک ٹائمز)۔ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ Nortaنے پیجر کہاں بنائے یا کس سے خریدے؟ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیجر آسٹریا میں بنے اور وہیں سے روانہ کیے گئے۔ دروغ بر گردنِ راوی، امریکہ کے نجی سراغ رساں حلقوں کا کہنا ہے کہ بارود سے بھرے ان پیجروں کی ڈیزائننگ میں سائنسی تحقیق کے کسی امریکی ادارے نے معاونت فراہم کی۔ آسٹریا میں پیجروں کی یہ کھیپ موساد کے حوالے کی گئی جو آسٹریا سے براستہ بلغاریہ، لبنان پہنچی۔
ابتدائی تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لبنان روانہ کیے جانے والے پیجرز کی لیتھیم بیٹریوں پر سریع الاشتعال لیس دارکیمیکل pentaerythritol tetranitrate (PETN) لیپ دیا گیا۔ پیجر کو کچھ اس طرح پروگرام کیا گیا تھا کہ ایک مخصوص نمبر سے کال موصول ہونے پر لیتھیم بیٹری گرم ہوکر PETNکو مشتعل کردے اور دھماکے کے ساتھ پیجر پھٹ جائے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے پیجر میں بارودی مواد رکھ ایک بٹن نصب کردیا جسے ضبطِ بعید (Remote Control) سے دباکر دھماکہ کردیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ درآمد شدہ پیجر مزاحمت کاروں کے علاوہ عام لوگوں کے پاس بھی تھے۔ جیسا کہ ذرائع ابلاغ کے سمعی و بصری تراشوں میں دیکھا جاسکتا ہے بہت سے پھل فروش اور ٹھیلے والے بھی اس کا شکار ہوئے۔ کئی جگہوں پر متاثرہ شخص کے کپڑوں نے آگ پکڑ لی اور اس کے قریب موجود کئی لوگ آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ اگر ڈرائیونگ کے دوران پیجر پھٹا تو گاڑی بلکہ قریب گزرتی دوسری گاڑیوں میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔
ان ساری تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلیوں کی مافوق الفطرت ذہانت اور ٹیکنالوجی کا اظہار نہیں بلکہ فلسطینیوں کے خلاف بدترین شیطانی اتحاد کا کارنامہ ہے جو ان کی نسل کُشی کے لیے ہرحد تک جانے کو تیار ہے۔ بے گناہوں کے قتلِ عام کے لیے امریکہ اور یورپی یونین کے تجارتی اور کسٹم ضابطوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں لیکن اس کی مذمت تو دور کی بات، سوشل میڈیا پر اسے فلسطینیوں کے خلاف مضحکہ اور تضحیک کا استعارہ بنالیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک (Volker Turk) نے اس بہیمانہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی قانون، عام استعمال کی اشیا میں دھماکہ خیز مواد بھرکر عام لوگوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ قدم جنگی جرم شمار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب لاقانونیت ہی قانون بن جائے تو پھر تہذیب و انصاف کی بات تقریرو تحریر سے آگے نہیں بڑھتی۔
اس واقعے کے دوسرے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 کے مقابلے میں 124 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’’مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو بلا تاخیر ختم کرے اور یہ کام 12 ماہ کے اندر مکمل ہوجانا چاہیے‘‘۔ یہ قرارداد جولائی میں عالمی عدالتِ انصاف (ICJ)کے اس فیصلے کے نفاذ کی طرف ایک قدم تھا جس کے مطابق ’’فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے‘‘۔
برما سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک نے قرارداد کی پُرجوش حمایت کی، تاہم ہندوستان نے اُن 43 ممالک کا ساتھ دیا جو رائے شماری کے دوران غیر جانب دار رہے۔ اس بھاری اکثریت سے منظور ہونے والی قرارداد کا اسرائیل کی جانب سے مسترد کیا جانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن امریکی ریپبلکن پارٹی کے 30 سینیٹروں نے اس قرارداد کو دہشت گردوں کو انعام سے نوازنے کے مترادف قرار دیا۔ دوسرے دن اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوقِ اطفال (CRC)کے نائب سربراہ Bragi Gudbrandsson نے جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بچوں کی ہولناک موت تاریخی اعتبار سے منفرد اور تاریک ترین ہے۔ اس سے پہلے (بچوں کے حقوق سے متعلق چارٹر) کی اتنی بڑی خلاف ورزی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ایسی سنگین خلاف ورزیوں کا تصور بھی محال ہے۔ یہ تبصرہ بھی اخبارات کی زینت سے آگے نہ بڑھ سکا۔
لبنان میں پیجر کے ذریعے مزاحمت کاروں کے بھاری نقصان اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہوجانے کے بعد اسرائیل نے سارے لبنان پر زبردست بمباری کی اور اسی دوران زمینی کارروائی کے لیے ٹینک اور توپ خانہ بھی لبنانی سرحد پر پہنچادیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے کہا ہے کہ اب ہماری توجہ کا مرکز لبنان ہے۔ زبردست نقصان کے باوجود جنوبی لبنان سے راکٹ حملے جاری ہیں اور 19 ستمبر کو ڈرون حملے میں کمپنی کمانڈر سمیت اسرائیل کے دوفوجی ہلاک ہوگئے۔
لبنان میں مزاحمت کاروں کے بھاری نقصان اور کئی قائدین کے خاتمے سے اسرائیلی وزیراعظم کا لہجہ مزید رعونت آمیز ہوگیا ہے۔ پیر (23) ستمبر کو کنیسہ (اسرائیلی پارلیمان) کی دفاعی و خارجہ امور کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کو وزیراعظم نیتن یاہو نے بتایا کہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے مکمل محاصرے پر غور کررہی ہے اور اس دوران پانی کا ایک قطرہ، اناج کا ایک ذرہ اور پیٹرول کی ایک بوند بھی وہاں لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
مغرب کی جانب سے اسرائیل کی پشت پناہی میں کمی نہیں آئی لیکن عالمی عدالت کی کارروائی نے اسرائیل کے سرپرستوں کو مدافعت پر مجبور کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر جزوی پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا، اور اب جرمنی نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی کا عندیہ دیا ہے۔ جرمن اٹارنی جنرل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف میں جاری مقدمات کی زد غزہ خونریزی میں اسرائیل کی معاونت کرنے والے ممالک پر بھی پڑسکتی ہے۔گزشتہ برس جرمنی نے 36 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا اسلحہ اسرائیل کو فراہم کیا تھا۔ اِس سال عسکری برآمدات کا حجم ایک کروڑ 45 لاکھ ڈالر ہے۔ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اسرائیل کو حال ہی میں منظور کیے جانے والے 20 ارب ڈالر مالیت اسلحے کی فراہمی روکنے کے لیے سینیٹ میں قرارداد پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھی سینیٹروں کے نام خط میں انھوں نے لکھا کہ ’’غزہ میں زیادہ تر قتلِ عام امریکی اسلحے سے کیا گیا ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر قانونی جنگ میں اپنی سہولت کاری ختم کرنی ہوگی۔‘‘
سخت پابندیوں کے باوجود امریکی جامعات میں نسل کُشی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں جن میں طلبہ کے ساتھ اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ شریک ہورہا ہے۔ اس رجحان پر ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سخت غصے میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میری حکومت آنے پر اگر کسی جامعہ میں یہودی طلبہ کو ہراساں کیا گیا یاAntisemitic مظاہرے ہوئے، ان اداروں کی انتظامیہ کو ذمہ درا ٹھیرایا جائے گا، مقدمات چلیں گے، اہلکاروں کو سزا بھگتنی ہوگی۔ صداقت نامے (Accreditation) کی چھان بین ہوگی اور وفاقی مدد بند کردی جائے گی۔‘‘
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔