ایک سرکاری اخباری اشتہار میں ’گُل بانی‘ اور ’چمن آرائی‘ کی تراکیب پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ ادارے کا نام بھی۔۔۔واہ واہ ۔۔۔کیا شُستہ اور شائستہ اُردو میں تحریر کیا گیاہے’’نظامتِ گُل بانی و چمن آرائی، حکومتِ پنجاب، لاہور‘‘۔ صاحبو! انصاف سے کہوکہ اس ادارے کا ثقیل برطانوی نام ’’ڈائریکٹریٹ آف فلوریکلچر اینڈ لینڈ اسکیپنگ، گورنمنٹ آف پنجاب، لاہور‘‘ روا اور رواں ہے یا اپنی زبان میں ادا کیا جانے والا سہل وسلیس نام؟ ہر صاحبِ دل یقیناً یہی کہے گا کہ قومی زبان میں رکھا ہوا نام اِس پاکستانی ادارے کے وظائف کا دل کش ترجمان ہے اور قوم کے شایانِ شان ہے۔ ہم محترمہ ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ کے شکرگزار ہیں کہ اُنھوں نے اس اشتہار کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ ساتھ ہی محترم منورحسین الماس، ’ناظم ادارۂ گل بانی و چمن آرائی‘کا بھی پوری قوم کی طرف سے شکریہ کہ انھوں نے قوم کے لیے قومی زبان میں اشتہار دے کر محبانِ قوم کو ایک خوش کُن احساس سے سرشار کیا۔ اگر سرکار کی طرف سے آنے والا ہر اشتہار ایسا ہی ہوا کرے تونہ صرف ارضِ پاک پر وہ فصلِ گُل اُتر آئے، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو، بلکہ گُل بانی و چمن آرائی جیسی شائستہ اصطلاحات بھی خواص و عوام کی زبان پر رواں ہوجائیں۔ اشتہار کی رُو سے ادارے کا دفتر’باغِ جناح لاہور‘ میں ہے، جسے انگریزی گفتار لوگ ’لارنس گارڈن‘ کہا کرتے ہیں۔ پس اگر اس کالم کے قارئین میں سے کوئی قاری صاحب باغِ جناح میں چہل قدمی کرنے جائیں تو لگے ہاتھوں (بلکہ گئے قدموں) کالم نگار کی جانب سے جناب منور حسین الماس کا شکریہ بھی ادا کرتے آئیں۔ جو صاحب شکریہ پیش کرنے کی زحمت فرمائیں گے، اُن کا پیشگی شکریہ۔
شکر، صد شکر کہ ’کم کم سہی، بہار کا ساماں ہوا تو ہے‘۔ چمن آرائی ہوتی رہے تو ان شاء اللہ بہار بھی آجائے گی۔ ’چمن‘ کے معنی اس چمن کا ہر فرد ضرورجانتا ہوگا۔ وہ جگہ جہاں سبزہ یا پھول اُگایا جائے۔ پھلواری، گلزار اور چھوٹا باغ یعنی باغیچہ جو فارسی میں ’باغچہ‘ کہلاتا ہے۔ ’آرائش‘ بھی سب کو (اور اگر سب کو نہیں تو کم ازکم خواتین کوتو) معلوم ہی ہے کہ سجانے، بنانے، سنوارنے اور ’’سنگھارنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ ’آرائش‘ فارسی مصدر ’آراستن‘ سے حاصل مصدر ہے اور اسی مصدر سے فارسی لاحقہ ’آرا‘ بھی حاصل ہوا ہے جو دراصل ’صیغۂ امر‘ ہے اور مرکبات میں فاعل کے معنی دیتا ہے، یعنی آراستہ کرنے والا، سجانے بنانے اور سنوارنے والا، یا سجانے بنانے اور سنوارنے والی۔ ’شمیم آرا‘ شاید خوشبوئیں آراستہ کیا کرتی تھیں، ’جہاں آرا‘ دنیا بھر کو سنوارنے پر تُلی ہوئی ہیں اور ’چمن آرا‘ اپنے گُل و گلزار سجانے بنانے میں مگن ہیں۔ گویا ’چمن آرائی‘ کا مطلب ہے پھلواری سجانا، گلزار سنوارنا یا باغیچہ بنانا۔ بھئی اُردو میں ’باغیچہ‘ ہی کہلاتا ہے، نوراللغات اور فرہنگِ آصفیہ میں بھی ’باغیچہ‘ موجود ہے، جب کہ ’باغچہ ‘ اردو میں نامانوس ہے۔ تو صاحب! یہ ہے چمن آرائی۔ اطہرنفیس کہ بے حد نفیس شاعر تھے، فرماتے ہیں:
وہ اگلا موڑ جدائی کا، اُسے آنا ہے، وہ تو آئے گا
پر آج تو اپنی راہوں میں بے مثل چمن آرائی ہے
چمن آرائی کی ترکیب تو سنی سنائی ہے۔ مگر”Floriculture” کے لیے’گُل بانی‘ کی ترکیب غالباً اختراعی ہے۔ یہ ترکیب ہمیں ہی نہیں، ہمارے بہت سے احباب کو بھی خوش آئی۔ مارے خوشی کے ایک محب پوچھ بیٹھے : ’’کیا گُلبانی، باغبانی سے مختلف مفہوم رکھتی ہے؟‘‘
جنابِ من! گُل اور باغ میں فرق توجنابِ میرؔؔ نے بھی کیا ہے۔ ’’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔ باغبانی میں گو کہ ’گُل بانی‘ بھی شامل ہی ہوگی، لیکن اگر پھولوں پر خصوصی توجہ دینا مقصود ہو تو اس کے لیے گُل بانی‘ یقیناً ایک بلیغ اصطلاح ہے۔
لفظ ’بان‘ عربی میں بھی استعمال ہوا اور سنسکرت میں بھی۔ مگر فی الحال ہم صرف فارسی اور اُردوکے ’بان‘ پر بات کریں گے۔ فارسی میں ’بان‘ لاحقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے’ مالک، صاحب، انتظام کرنے والا، محافظ، نگران اور چلانے والا‘۔ چلانے والے کے معنوں میں اُردو والوں نے اِس فارسی لفظ کو ہندی الفاظ سے جوڑجوڑ کر خوب استعمال کیا، جیسے گاڑی بان، تانگے بان اور ریڑھی بان وغیرہ۔ یہ اصول فارسی تراکیب سے لیا گیا ہے۔ مثلاً ’فیل بان‘ ہاتھی چلانے والا، شتر بان اونٹ چلانے والا، ’گَلّہ بان مویشیوں کا ریوڑ ہانکنے والا۔ کشتی کو ہوا کے رُخ پر چلانے والا پردہ ’بادبان‘کہلاتا ہے۔ محشرؔ بدایونی نے ہم جیسے کاہل الوجود لوگوں کے جذبات و احساسات کی کیا خوب ترجمانی و بادبانی کی:
ہم آج تھک گئے کل بادبان کھولیں گے
کچھ اس طرف سے یہ دریا چلا نہ جائے گا
مالک، محافظ، صاحب، انتظام چلانے اور نگرانی کرنے والے کے معنوں میں ’بان‘ کے استعمال کی مثالیں بہت ہیں۔ مثلاً باغبان باغ کی دیکھ بھال کرنے والا، ساربان اونٹ کی رکھوالی کرنے والا، اور دربان دروازے پر داروغہ بن کرکھڑا ہونے والا، یعنی در پر نظر رکھنے والا۔ ویسے نظر رکھنے والے کو ’نگہبان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ’دربان‘ رکھنے کے لیے ’در‘ رکھنا ضروری ہے، میرؔصاحب کے دل میں دونوں نہ تھے:
گھر ہے درویش کا، یاں در نہیں، دربان نہیں
درویش کے ذکر پر ایک قصہ یاد آگیا۔ یہ قصہ لاہور کے حضرت میاں میرؒ سے منسوب ہے۔ دربانی تو کتا بھی کرلیتا ہے کہ کسی کو اندر نہیں آنے دیتا۔ لیکن انسان کہیں دربان بن کر کھڑا ہوجائے تو کتے کو بھی اندر نہیں آنے دیتا۔کہتے ہیں کہ مغل حکمران شاہ جہاں ایک روز حضرت میاں میرؒ کے آستانے پر حاضری دینے پہنچا۔ دربان نے باہر ہی روک دیا کہ بغیر اجازت آپ اندرنہیں جاسکتے۔ حضرتؒ سے اجازت ملی۔ بادشاہ اندر پہنچا تو اُس نے اپنی توہین پر ناراضی کا اظہار اس مصرعے سے کیا:
درِ درویش را درباں نہ باید
’’درویش کے در پر تو دربان نہیں ہوناچاہیے‘‘۔ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے برجستہ جواب دیا:
بباید تا سگِ دُنیا نہ آید
’’ہونا چاہیے، تاکہ دنیا کا کتا اندر نہ گھس آئے‘‘۔ باذوق حکمران تھے۔آج کاحاکم ہوتا تودرویش ’گمشدہ افراد‘ میںشامل ہو جاتا۔
’بان‘ بامعنی ہونے کے باوجود تابعِ مہمل کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’تابع مُہمل‘ وہ مُہمل، بے معنی لفظ ہے جو کسی بامعنی لفظ کے ساتھ ’پخ‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً دانہ دُنکا، شور شرابا،کھانا وانا۔ یہاں دُنکا، شرابا اور وانا بے معنی الفاظ ہیں۔ کبھی تنہا استعمال نہیں ہوتے۔ ’بان‘ تابع مہمل کے طور پر ہمیشہ ’آن‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے’آن بان‘۔ مراد شان و شوکت۔ جون ایلیا اقرار فرماتے ہیں کہ
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم فقیروں کی آن بان میں کیا؟
’میز‘ کا لفظ اُردو میں پُرتگالی زبان سے آیا۔ اہلِ پُرتگال اسے ’میزا‘ بولتے ہیں اور اس پر کتابیں وغیرہ رکھتے ہیں۔ ہم اس پرچائے کی پیالی اور کاغذ دھر کر کالم لکھتے ہیں۔ مگرفارسی زبان میں ’میز‘ اُس تخت یا چوکی کو کہتے ہیں جس پر اسبابِ ضیافت سجاکر مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ یعنی ’میزبان‘ ہمارے ہاں مُلکِ فارس سے آکر مہمان نوازی کررہا ہے۔ میزبان کا ’بان‘ صاحب یا مالک کا مفہوم دیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص شفقت ومحبت اورمہر و مروّت کا مالک ہو اُسے ’مہربان‘ کہتے ہیں۔ مغل بادشاہ اکبرؔکی نسبت لطیفہ مشہور ہے کہ ایک روز بادشاہ نے اپنے فیل بان پر عتاب کیا۔ بھرے دربار میںکہاکہ جتنے لوگوں کے القاب کے ساتھ ’بان‘ آتا ہے سب حقیر اور کمتر لوگ ہیں جیسے دربان، شتربان، گلہ بان اورفیل بان وغیرہ۔ اس پر مسخروں کے مرشد ملّا دوپیازہ نے اُٹھ کر فوراً تائید کی: ’’بجا فرمایا مہربان!‘‘