برصغیر کے چوٹی کے ایک محقق و دانشور نے اردو میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”عرب ممالک میں سیرت النبی پر یقیناً بہت قابلِ ذکر کام ہوا ہے۔ سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، لیکن یہ بات میں پھر دہراؤں گا کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے وہ کام کم از کم میری ناچیز رائے میں برصغیر میں ہونے والے کام کے برابر نہیں ہے۔ جتنی جدت اور تنوع یہاں کے کام میں ہے اتنی جدت اور تنوع وہاں نہیں ہے“۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازی، محاضراتِ سیرت ص: 686)
ڈاکٹر غازی مرحوم کی یہ رائے حقیقت اور گہرے مشاہدے پر مبنی ہے۔ لیکن یہ بات کتنے تعجب کی ہے کہ برصغیر میں اسلام کو داخل ہوئے چودہ سو سال کا عرصہ گزرگیا،لیکن یہاں پر خاص طور پر شمالی ہند میں سیرت النبی ﷺ پر پہلی کتاب اسلام کی آمد کے ایک ہزار سال بعد یعنی آج سے کوئی ساڑھے تین سو سال قبل فارسی زبان میں لکھی گئی۔
جب ہم برصغیر کی اسلامی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو اسے علمی اور فکری اعتبار سے دورِ جدید کو نکالنے کے بعد تین حصوں یا ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ یہ تین حصے وہ ہیں جن میں سے پہلا حصہ دورِ سندھ کو قرار دیا جا سکتا ہے جب مسلمانوں نے سندھ میں دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ پھر محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ کا بڑا حصہ فتح ہوا اور موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں کے مسلمانوں کے علمی روابط دنیائے عرب کے بڑے بڑے علمی مراکز مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بغداد، دمشق، کوفہ اور بصرہ سے قائم تھے۔ یہاں کے اہلِ علم وہاں جاتے تھے اور وہاں کے اہلِ علم یہاں آتے تھے۔ عربی زبان برصغیر یعنی سندھ اور موجودہ پنجاب، صوبہ سرحد اور بلوچستان کی علمی زبان تھی۔ یہاں جو لوگ لکھ رہے تھے وہ عربی میں لکھ رہے تھے۔ کچھ کام فارسی میں ہورہا تھا۔ اس دور میں یہاں کے سیرت نگاروں میں کئی نام نمایاں طور پر سامنے آئے جن میں سے ایک نام ابومعشر نجیح السندی کا ہے جو سندھ کے رہنے والے تھے۔ ان میں ایک دوسرا نام امام اہل الشام عبدالرحمٰن الاوزاعی کا ہے، جن کا سیرت کے اس شعبے یا علم کے باب میں نمایاں کام تھا جس کا تعلق جنگ اور مغازی سے تھا۔
جب سندھ کا دور ختم ہوگیا اور محمود غزنوی کے حملوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے سیاسی اور انتظامی روابط افغانستان اور وسط ایشیا سے قائم ہوگئے تو برصغیر کی علمی و فکری تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوا۔ اس دور میں یہاں کے مسلمانوں اور حکمرانوں کے سیاسی روابط عرب دنیا سے پہلے کمزور ہوئے اور پھر ہوتے ہوتے بالکل ہی کٹ گئے۔ اس کے باوجود سندھ کے بعض علاقوں اور خاص طور پر ٹھٹہ میں، اور ہندوستان کے مغربی صوبہ گجرات میں عرب دنیا میں جاکر کسبِ فیض کرنے کی روایت قائم رہی۔ لیکن ان علمی کاموں سے پورا ہندوستان ناواقف رہا، کیونکہ ابو معشر نجیح سندی، اور امام اوزاعی کے علمی کام برصغیر سے باہر عرب دنیا میں معروف ہوئے۔ ٹھٹہ اور سندھ کے علماء کی کتابیں بھی حرمین شریف اور عرب دنیا میں متعارف رہیں، کیونکہ ہندوستان کے دیگر علاقوں سے ان کا ربط نہ ہونے کے برابر تھا۔
اس کے بعد قطب الدین ایبک نے دہلی میں ایک خودمختار حکومت قائم کی۔ وہاں ایک نیا نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم سامنے آیا۔ یہ نظام اور نصاب افغانستان اور وسطی ایشیا کی روایات سے مستفید تھا۔ اس نصاب کی جو تفصیلات ملتی ہیں ان میں یہ بات بڑی حیرت انگیز اور افسوس ناک ہے کہ اس نصاب میں نہ صرف سیرت پر کوئی کتاب شامل نہیں تھی بلکہ علمِ حدیث اور علومِ نبوت کا حصہ بھی اس میں بہت کم بلکہ برائے نام تھا۔ تفسیر قرآن کا حصہ بھی بہت کم تھا اور علوم نبوت کا حصہ بھی بہت کم۔ حدیث پر ایک آدھ اور جزوی کتاب کے سوا جو علمِ حدیث کے ذخائر میں قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی تھی، علمِ حدیث کا مطالعہ براہِ راست اور علومِ حدیث میں تخصص اس نصاب کا حصہ نہیں تھا۔ (محاضرات سیرت 592)
شمالی ہند میں پہلی بار علمِ حدیث اور علمِ سیرت کو متعارف کرانے کا سہرا گیارہویں صدی ہجری کے شیخ عبدالحق محدث دہلوی (وفات 1052ھ/1642م) کو جاتا ہے، آپ نے شمالی ہندوستان میں پہلی بار علم حدیث اور علم سیرت کو متعارف کرایا اور اس طرح متعارف کرایا کہ اگر ان کو ہندوستان میں علم سیرت کا جد امجد قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ حضرت شیخ عبدالحق برصغیر اور شمالی ہندوستان کے پہلے سیرت نگار ہیں۔
مغلیہ دور کے آخری دنوں میں جب بول چال میں اردو کا رواج ہونے لگا، تو دوسری زبانوں کی طرح اس میں پہلے شعری ادب اور نظمیں تخلیق پاتی رہیں، جس میں میلاد کا لٹریچر شامل ہے، لیکن 1857ء کے انقلاب کے دنوں میں ہمارے بعض علماء کو خیال آیا کہ میلاد کے لٹریچر کے علاوہ اردو نثر میں بھی سیرت پر کتابیں آنی چاہئیں۔ اور اس سلسلے میں اردو نثر میں سیرت النبیﷺ کی جو پہلی کتاب منظرعام پر آئی وہ قاضی بدرالدولہ مولانا محمد صبغۃ اللہ مدراسی نائطی کی ”فوائد بدریہ“ تھی، مطبع نجیبیہ مدراس سے 1263ھ/1846ء میں 379 صفحات پر یہ کتاب شائع ہوئی، مصنف کا تعلق جنوبی ہند کے قدیم ترین نوائط علمی گھرانے سے تھا جس میں 22 پشتوں سے منصبِ قضاء چل رہا تھا، اور یہ خانوادہ ارضِ حرمین سے قلمی کتابوں کے ذخیروں کی خریداری اور درآمد میں ممتاز تھا، اور جس کا شمار برصغیر کے سب سے بڑے علمی ذخیروں میں ہوتا تھا۔ قاضی بدرالدولہ خود بہت بڑے فقیہ تھے۔ ریاست کرناٹک کے قاضی القضاۃ تھے۔ مستند ترین مصادر سے کام لے کر انہوں نے کتاب لکھی ہے۔ اس زمانے میں زاد المعاد، فتح الباری، عیون الاثر اور المواہب الدنیہ جیسی بڑی کتابیں ان کے سامنے تھیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان میں لکھی گئی یہ کتاب پہلی سب سے مستند کتابِ سیرت ہے۔ فارسی میں برصغیر میں سیرت پر پہلی کتاب شیخ عبدالحق نے لکھی تھی۔ اردو میں قاضی بدر الدولہ نے لکھی۔
قاضی بدرالدولہ کی اس کتاب کے علاوہ جو کتاب عین 1857 ء اور 1858ء کے معرکے میں شریک عالم مجاہد کے قلم سے 1858ء اور 1859ء کے سالوں میں لکھی گئی وہ ایک مشہور مجاہد، فقیہ اور عالم مفتی عنایت اللہ کاکوروی کی تھی۔ مفتی عنایت احمد کاکوروی شمالی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کاکوری کے باشندے تھے۔ وہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں شریک تھے۔ پہلی مرتبہ جہاد کے وجوب کا فتویٰ جن لوگوں نے دیا اُن میں مفتی عنایت احمد کاکوروی بھی شامل ہیں اور جہاد کے اس تاریخی فتوے پر ان کے دستخط بھی ہیں۔ انہوں نے فتویٰ بھی دیا۔ رائے عامہ کو بھی ہموار کیا اور عملاً جہاد میں حصہ بھی لیا۔ چنانچہ جب انگریزوں کو کامیابی ہوئی اور مجاہدین کو شکست ہوئی تو بہت سے لوگوں کو سزائے موت دی گئی۔ کچھ لوگوں کو کالا پانی جزائر انڈیمان بھیج دیا گیا۔ مفتی عنایت احمد کاکوروی بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کو جزائر انڈیمان بھیج دیا گیا تھا۔ مفتی عنایت احمد کاکوروی بڑے عالم فاضل انسان تھے۔ لیکن جزائر انڈیمان میں قید بامشقت کے دوران میں جو کام ان کے سپرد کیا گیا وہ یہ تھا کہ جزائر میں جتنی گندگی لوگوں کے گھروں میں جمع ہو اس کو اٹھاکر آبادی سے باہر پھینکا کریں۔ اُس زمانے میں غسل خانوں وغیرہ کا ایسا نظام نہیں تھا۔ مفتی صاحب لوگوں کے گھروں میں جاکر گندگی صاف کرتے اور اس کو ایک بڑے ٹوکرے میں ڈال کر کندھے پر اٹھاتے اور آبادی سے باہر پھینک آتے۔ ظاہر ہے اُس زمانے میں ان کے پاس نہ وقت ہوتا تھا نہ مطالعے کے مواقع، اور نہ ہی مصادر اور مآخذ کی کتابیں۔ اس کے باوجود اس تکلیف دہ اسیری میں انہوں نے تین کتابیں لکھیں۔ ان میں سے ایک کتاب سیرت پر ہے۔ یہ کتاب ”تواریخ حبیب اللہ“ کے تاریخی نام سے معروف ہے۔ یہ ساری کتاب انہوں نے جزائر انڈیمان میں بیٹھ کر محض یادداشت کی بنیاد پر لکھی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ جب تک ان معلومات کو دوبارہ چیک نہ کیا جائے اس کتاب کو شائع کرنا ٹھیک نہیں۔ اس لیے مسودہ اپنے پاس رکھ چھوڑا۔ اتفاق کی بات کہ ان کی ملاقات کسی شریف انگریز سے ہوگئی۔ یہ انگریز ان کے علم وفضل سے بہت متاثر ہوا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ مولانا سابق قاضی اور جج رہے ہیں اور یہاں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں تو اس نے سفارش کرکے مفتی صاحب کو رہائی دلائی۔ مفتی صاحب تینوں مسودے لے کر ہندوستان واپس آئے۔ یہاں انہوں نے تواریخ حبیب اللہ کے مندرجات کو مصادر و ماخذ سے چیک کیا اور کہیں ایک حوالہ بھی غلط نہیں پایا تو اس کو شائع کردیا۔ تواریخ حبیب اللہ مطبع نامہ منشی نول کشور لکھنؤ سے 1871ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔
اردو میں سیرت نویسی کا اصل دور جس پر اردو زبان کو ناز ہے، اور جس کی وجہ سے اردو زبان دوسری زبانوں پر فائق ہے، اس کا آغاز سرسید احمد خان کی ”خطباتِ احمدیہ“ اور سید امیر علی کی ”اسپرٹ آف اسلام“ سے ہوتا ہے، یہ دراصل روایتی سیرت نویسی سے ہٹ کر سیرت النبی کی شمولیت اور مستشرقین کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر اعتراضات کے دفاع کی راہ میں سنگِ میل ہیں، ان دونوں مصنفین کے بہت سے افکار وخیالات سے اختلاف کے باوجود اس میں شک نہیں کہ انیسویں صدی کے اواخر میں ان دونوں نے ہمارے سامنے سیرت نگاری کا ایک نیا اسلوب رکھا جو زبان وبیان کے اعتبار سے سادہ، اسلوب کے اعتبار سے دلنشین، دلائل کے اعتبار سے مؤثر اور اپنی پیشکش کے اعتبار سے انتہائی عالمانہ اور ادیبانہ تھا۔ یہ اسلوب جب متعارف ہوا تو پھر شبلی اور سلیمان سلمان منصورپوری نے اس اسلوب کو غیر معمولی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اور اس سے وہ قدیم اسلوب متروک ہوگیا جس پر لوگ پہلے سیرت لکھا کرتے تھے جس میں زیادہ بیان معجزات کا اور اُن امور کا ہوتا تھا جن کا تعلق روحانیاتِ سیرت سے ہے، جس کا سیرت اور تاریخی واقعات سے نسبتاً کم تعلق ہوتا تھا۔ برصغیر میں سیرت پر بیسویں صدی میں جن حضرات نے قلم اٹھایا، انہوں نے سیرتِ پاک کے ایسے ایسے نئے پہلو روشن کیے ہیں جو صرف برصغیر کے اہلِ علم ہی کا خاصہ تھا۔ دنیائے اسلام کے دوسرے علاقوں میں سیرتِ پاک کے اتنے عمیق، گہرے اور وسیع مطالعے کی مثالیں نہیں ملتیں۔ شاید ابتدائی صدیوں میں برصغیر کے مسلمانوں سے جو تقصیر سرزد ہوئی تھی، اللہ کی مشیت نے اس کی تلافی کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور برصغیر کے لوگوں نے انیسویں صدی میں، اور اس سے کہیں زیادہ بیسویں صدی میں اس تقصیر کی تلافی کی، اور سیرتِ پاک کے ایسے ایسے پہلو قارئین کے سامنے رکھے جن کی طرف گزشتہ تیرہ سو سال میں محققین اور سیرت نگاروں کی توجہ نہیں ہوئی تھی۔ دورِ جدید میں مطالعہ سیرت کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آئے جن کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ دراصل سیرت پر کام کا آغاز تو اب ہوا ہے۔ اور اب تحقیق کی ایک نئی دنیا، تحقیق کا ایک نیا سمندر اور تحقیق کا ایک نیا عالم دریافت ہوا ہے (محاضراتِ سیرت)۔ بیسویں صدی کے اس دور میں عسکریات ِسیرت پر، یعنی سیرت النبی کے عسکری پہلو پر، رسول اللہﷺ کی حکمتِ حربی پر اور مختلف جنگوں میں استعمال کیے گئے طریقوں پر جو وسیع تحقیق ہوئی ہے وہ ماضی میں نہیں ہوئی تھی۔ پھر ایک خاص بات یہ ہے کہ عسکریاتِ سیرت پر جن حضرات نے قلم اٹھایا ہے وہ عسکریات کے میدان کے شہسوار ہیں۔ جن کی پوری زندگی اسی میدان میں گزری ہے، اور جس مہارت اور بصیرت کے ساتھ وہ عسکریاتِ سیرت کا اندازہ کرسکتے ہیں، وہ اوروں کے لیے بڑا دشوار ہے۔ اسی طرح سے اداریاتِ سیرت، یعنی سیرت کے ادارتی اور انتظامی پہلوؤں پر ماضی کے محققین نے یقیناً قابلِ قدر کام کیا ہے۔
ڈاکٹر محمود غازی کے بقول سیرت نگاری میں بیسویں صدی کا نصف آخر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا زمانہ ہے، جو اس دور کے مجدد علومِ سیرت کہے جاسکتے ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ علم سیرت کا جب آغاز ہوا تو جلد ہی اس کے تین حصے یا شعبے ہوگئے۔ ایک حصہ خاص سیرت کے واقعات یا حوادث پر مبنی تھا۔ دوسرا حصہ غزوات کی تحقیق پر، اور تیسرا حصہ اسلام کے بین الاقوامی قانون پر مبنی تھا۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے ان تینوں موضوعات پر بہت تفصیل سے نہایت محققانہ انداز میں لکھا ہے اور ان تینوں موضوعات پر ان کی کتابیں بڑی خاصے کی چیزیں ہیں۔
یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ اردو میں مستند سیرت نویسی کا آغاز قاضی بدر الدولہ مدراسی نائطی سے ہوا، اور اس میدان میں بیسویں صدی کا اختتام آپ کے پوتے ڈاکٹر محمد حمیداللہ پر ہوا۔
1846ء میں جب اردو میں سیرت کی پہلی کتاب چھپی تھی، تو اس پر اب پونے دو سو سال گزر رہے ہیں۔ یہ عرصہ زبانوں کی تاریخ میں کوئی اتنا بڑا عرصہ شمار نہیں ہوتا، اگر عربی و فارسی زبان سمیت آپ دوسری زبانوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے اردو زبان سیرت نگاری میں دنیا کی تمام زبانوں سے آگے ہے، جو اس کے بولنے والوں کے لیے بڑے شرف کی بات ہے۔ اس عرصے میں جن بزرگوں نے اس زبان کو علم وادب کی دنیا میں اتنی بلندی تک لے جانے کے لیے اپنی عمریں صرف کیں تو سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا عمومی انداز سے اُن کے کاموں پر صرف چند جملوں میں فخریہ کلمات کہنا کیوں کر کافی ہوگا؟ اور دوچار کتابوں کا تذکرہ کرنے سے اُن کا حق کیسے ادا ہوگا؟ ہمارے دوست ڈاکٹر سید عزیزالرحمٰن صاحب نے ان سیرت نگاروں سے احسان مندی کے ثبوت میں برسوں کی محنت سے اردو میں کتابیاتِ سیرت کا جامع ترین اشاریہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے، جس پر وہ تمام اردو داں اہلِ قلم و قارئین کے شکریے کے مستحق ہیں۔
اردو میں اشاریہ سازی کوئی نئی بات نہیں ہے، اس روایت کا آغاز سر عبدالقادر کے مجلے ”مخزن“ سے 1906ء میں ہوا تھا، پھر ”زمانہ“ کانپور، ”الہلال“ کلکتہ اور ”معارف“ اعظم گڑھ سے ہوتے ہوئے یہ روایت اردو میں بہت مستحکم ہوگئی۔ لاہور سے جناب محمد شاہد حنیف کا 54 مجلات کا اشاریہ جو ایک لاکھ پندرہ ہزار تراسی )115083) عناوین پر مشتمل ہے، اس صنف کا نقطہ عروج ہے۔
ڈاکٹر سید عزیزالرحمٰن صاحب کا تیار کردہ اشاریہ اردو دنیا میں کوئی نیا کام نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی ایک اشاریے اس نوعیت کے شائع ہوکر اہلِ علم سے داد و تحسین لے چکے ہیں۔ لیکن ان ضخیم سے ضخیم اشاریوں میں اندراجات کبھی تین ساڑھے تین ہزار سے زائد کتب سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اب جو اشاریہ اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ اُن اشاریوں سے کئی گنا بڑا ہے، اس کی دو جلدوں میں دس ہزار پینتالیس (10045) کتابوں کا اندراج ہے، جو گزشتہ تیار شدہ اشاریوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔
مرتب نے اپنے اس اشاریے میں صرف مطبوع کتابوں ہی کا احاطہ کیا ہے۔ اتنی محنت اور جفاکشی کے باوجود مرتب کا کہنا ہے کہ ”پاکستان سے باہر دنیائے اردو کے کام سے ہماری کم واقفیت اور نارسائی ہے، اس لیے اس قدر اہتمام کے باوجود ہم گزارش کریں گے کہ اس فہرست کے نام ”جامع اردو کتابیاتِ سیرت” میں ”جامع“ کو محض اسم تصور کیجیے“۔
اس اشاریے کی تیاری میں مرتب نے پاکستان کے 9 اہم کتب خانے اور لائبریریاں چھان ماری ہیں، اور سیرت کے موضوع پر17 اشاریوں کا ورق در ورق کھولا ہے۔
مرتب نے براہِ راست سیرت کے موضوع سے تعلق رکھنے والے مواد کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل مواد کو بھی اس اشاریے میں شامل کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
اہلِ بیت اطہار کے حوالے سے موجود کتب کے نام جس قدر بھی فہرستوں میں موجود تھے، انہیں شامل کیا گیا ہے کیوںکہ آل و اولاد سیرت کا ایک اہم عنوان ہے۔
سیرت نگاری کے حوالے سے تحریر ہونے والی کتب بھی اس فہرست کا حصہ بنی ہیں۔ ان میں کتبِ سیرت کی مطبوع فہرستیں بھی شامل ہیں۔ نیز ان میں شخصی حوالے سے جائزے بھی شامل ہیں، یعنی کسی ایک شخصیت کی سیرتی خدمات کا جائزہ۔
حرمین کے سفرنامے بھی اس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں اور انہیں سیرت ہی کا ایک موضوع تصور کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے تحت عازمین حج کی رہنمائی کے لیے تحریر ہونے والی کتب اور کتابچے شامل نہیں ہیں۔
کہنا چاہیے کہ اس اشاریے نے اردو داں اہلِ علم اور محبانِ رسول اکرمﷺ کی ذمہ داریاں بہت بڑھا دی ہیں۔ یہ مصنف کے لیے بڑی خوش بختی کی بات ہے کہ آپ خود سیرت النبیﷺ کے موضوع پر ایک جامع اور نادر کتب خانہ رکھتے ہیں، اِن شاء اللہ اگر جدوجہد کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر آپ کا کتب خانہ اپنے موضوع پر سیرت النبیﷺ سے مختص عظیم ترین کتب خانوں میں سے ایک ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ اگر کتابیں دستیاب نہ ہوں تو پھر اشاریہ کتابوں کے ناموں کی صرف ایک فہرست بن کر رہ جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کتابیں بھی فراہم ہوجائیں تو پھر ہم خرما ہم ثواب کی مانند ہے، اس سے اشاریے کی افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ چند سال قبل تک شاید یہ کام مشکل محسوس ہورہا تھا، لیکن آج کے ڈیجیٹل دور میں ایسا کوئی کتب خانہ بنانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے، جس میں اردو میں سیرت پر لکھی گئی اسکین شدہ کتابیں محفوظ کی جائیں، اس کے بعد ایک اہم کام باقی رہتا ہے الف بائی ترتیب پر ان کتابوں کا موضوعاتی اشاریہ، اگر اس کی نیو ابھی سے ڈالی جائے، اور اس کے لیے اسکالرز کو مشغول کیا جائے، تو اس سے اتنا تو فائدہ ہوگا کہ کسی متعینہ مقصد و ہدف کے ساتھ کتابیں ان کے مطالعے میں آجائیں گی، ورنہ بلاکسی ہدف کے کتابوں کا مطالعہ زیادہ فائدہ مند نہیں ہوا کرتا۔ ہمیں امید ہے کہ اس اشاریے کے بعد ان دو اہم منصوبوں کے بارے میں بھی سوچا جاسکے گا۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ بابرکت کام پورا ہونے کے لیے صرف ارادے اور ایک علمی منصوبے کی دیر ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان منصوبوں کی تکمیل میں کتنے سال لگتے ہیں، منصوبہ پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ نسلوں کو بھی کام کرنا پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ زوار اکیڈمی کی اس انمول پیش کش پر دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔