بدلتی سیاسی حرکیات اور مسلمان ووٹ کی تقسیم
کشمیر اسمبلی کے انتخابات کی گرماگرمی میں عوامی سطح پر پاکستان اور الیکشن بائیکاٹ یعنی آزادی پسند فیکٹر معدوم بنادیا گیا ہے، شاید اسی لیے یہ عنصر منظر پرکہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست2019ء کے بعد کشمیر کو جذبات کے ایک بحرِ بے کراں سے خالی کردیا ہے۔ کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت یعنی آزادی اور حقِ خودارادیت کا خیمہ اکھاڑ پھینکا گیا ہے۔ حد تو یہ کہ اس کی باقیات کا بھی’’کریا کرم‘‘ کردیا گیا ہے۔ اس خیمے کے مکینوں کو ہزاروں کی تعداد میں اُٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے ہمدرد عناصر کو دباکر اور خوف زدہ کرکے خاموش کردیا گیا ہے۔ اسرائیل طرز کی نگرانی اور چوکسی کا نظام، اور وہی سافٹ وئیر کشمیر میں استعمال میں لاکر ماحول کو خوفناک اور پراسرار بنادیا گیا ہے۔ ہر شخص یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ وہ ریاست کی نظر میں ہے اور کہیں نہ کہیں سے اس پر نظر رکھی جارہی ہے۔ آزادی پسند کیمپ کی واحد نشانی میرواعظ عمر فاروق جیل میں نہ ہوتے ہوئے بھی قیدی کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے ساتھ سید علی گیلانی والا کھیل کھیلا جارہا ہے جنہیں برسوں گھر میں نظربند رکھ کر عوامی رابطے سے محروم رکھا گیا۔ میرواعظ عمر فاروق آزادی پسند خیمے کے عام رکن نہیں بلکہ اس اتحاد کے سربراہ بھی تھے، مگر وہ قطعی غیر مؤثر بنادیے گئے ہیں۔ انہیں سری نگر کی جامع مسجد میں خطبہ ٔ جمعہ دینے کی اجازت بھی نہیں ملتی۔ کشمیر اسمبلی کے انتخابات سے پہلے ایک بار پھر وہ نظربندی کی سی کیفیت کا شکار ہیں۔ ان حالات میں کون الیکشن کے بائیکاٹ کی کال دے گا اور کون اس پر عمل کرے گا؟
کشمیر کے عوام اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کا راستہ روک کر اپنے جذبات کا اظہارکرنا چاہتے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمان ووٹ کئی بڑی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوجانے سے یہ عمل خاصا مشکل ہورہا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی ایک دوسرے کے مدمقابل آکر مسلم ووٹ کو تو تقسیم کرہی رہی ہیں مگر کانگریس بھی ہندو بیلٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کرنے سے زیادہ وادیِ کشمیر کے مسلمان ووٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے، اور اس طرح کانگریس بھی مسلمان ووٹ کو تقسیم کرنے کے عمل میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ سیاسی مبصرین تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کانگریس ہندوبیلٹ پر اپنی توجہ مرکوز کرے تو بی جے پی کی کامیابی کو محدودکیا جاسکتا ہے۔
آزادی پسند کیمپ سے خالی منظر میں پاکستان فیکٹر بھی عوامی اور انتخابی میدان میں بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے باوجود کشمیر کی سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ خود بھارتی حکومت پاکستان کو کسی نہ کسی طور پر زیر بحث لارہی ہے۔ وادیِ کشمیر کی دوبڑی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے منشور میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا نکتہ شامل کیا ہے اور یہ جماعتیں اس نکتے پر بات بھی کررہی ہیں۔ یہ جماعتیں کشمیریوں کے دلوں میں دبی ہوئی جذبات کی چنگاریوں کو پوری طرح سمجھ کر پاکستان کو کسی نہ کسی انداز سے زیر بحث لارہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے منشور کا یہی نکتہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی بار بار اس موضوع پر اپنا مؤقف بیان کرنے پر مجبور کررہا ہے، جس کا ثبوت بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا جموں کے ایک انتخابی جلسے میں یہ کہنا ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے معاملے پر بات چیت کرسکتی ہے۔ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کریں، میں ان سے کہتا ہوں کہ اس کے لیے پاکستان کو دہشت گردی کی مدد روکنا ہوگی۔ کون پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں بنانا چاہتا؟ میں یہ حقیقت جانتا ہوں آپ دوست بدل سکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے پاکستان کو دہشت گردی روکنا ہوگی‘‘۔ راج ناتھ سنگھ نے اس موقع پر مسلمانوں کے حالات پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ ’’جموں وکشمیر میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے 85 فیصد مسلمان ہیں، گزشتہ کئی دہائیوں میں دہشت گردی کے واقعات میں چالیس ہزار جانیں چلی گئیں‘‘۔ راج ناتھ سنگھ نے آزادکشمیر کے عوام کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’آپ ہندوستان میں شامل ہوں، ہم آپ کو اپنا سمجھتے ہیں جبکہ پاکستان آپ کے ساتھ پرایوں جیسا سلوک کررہا ہے‘‘۔
راج ناتھ سنگھ کے اس لب و لہجے میں ایک غیر محسوس سی ملائمت اور نرمی جھلک رہی ہے جو کشمیر کے زمینی حالات کے ساتھ اپنے مؤقف کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کررہے اور پڑوسی کی اہمیت کو سمجھنے کا اشارہ بھی دے رہے ہیں۔ یہ ’’اگر مگر‘‘کا انداز انتخابی ضرورت ہے، اور اس مقام تک کشمیری عوام کے جذبات نے ہی بی جے پی کو وقتی طور پر سہی، لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت نے کشمیر کے سیاسی منظر سے جس پاکستان کو نکال باہر کیا تھا، اب اس کے حکمران خود ہی کشمیر کی زمین پر کھڑے ہوکر اسی پاکستان کو زیرِ بحث لارہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور آزادی پسندوں کو اپنے طور پر غیر متعلق بنانے کے باوجود غیر متعلق نہیں بنایا جا سکا، اور یہ خود بی جے پی قیادت اپنے طرزعمل سے ثابت کررہی ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے ایک اور نکتہ یہ بھی اُٹھایا کہ جب تک بی جے پی ہے کوئی پانچ اگست کے فیصلے کو واپس نہیں لے سکتا۔ کشمیر کی بڑی جماعتوں نے اپنے منشور میں آرٹیکل 370کی بحالی کا نکتہ بھی شامل کیا ہے۔ گویا کہ بی جے پی کو خدشہ ہے کہ اس کی حکومت ختم ہونے کے بعد آرٹیکل 370کی بحالی کی مہم زورپکڑ سکتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کا اثر بھارت کی دوسری ریاستوں پر بھی پڑ سکتا ہے، اور یوں کشمیر کے انتخابات نریندرمودی کی حکومت کو کمزورکرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
ہندو بیلٹ کے انتخابی سروے بتا رہے ہیں کہ بی جے پی کا ووٹ بنک کم ہوگیا ہے اور کانگریس 20 سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے آگے نکل سکتی ہے۔ دس سال قبل کے انتخابات میں جب بی جے پی پورے بھارت میں لہر کی صورت آگے بڑھ رہی تھی جموں وکشمیر کے ہندو بیلٹ سے کانگریس ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی تھی اور بی جے پی نے سوفیصد سیٹیں حاصل کرلی تھیں۔ اب دس سال میں پلوں تلے بہت پانی بہہ گیا ہے اور جموں کے ہندو بیلٹ نے بھی پانچ اگست کے بعد دودھ اور شہد کی نہروں میں غوطے لگا لیے ہیں، اس لیے اُن پر بھی مودی حکومت کے وعدوں اور دعووں کی حقیقت آشکار ہوچکی ہے، اس لیے کانگریس کو ان علاقوں میں اسپیس حاصل ہونے لگی ہے۔ غیر ریاستی افراد کو کشمیر پر مسلط کرنے کی پہلی زد جموں پر ہی پڑنے لگی ہے اور جموں ہی اسٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کا اصل وارث ہے، کیونکہ جموں کے ڈوگرہ حکمران مہاراجا نے پنجاب اور دوسرے علاقوں سے آبادی کا دبائو کشمیر کی طرف روکنے کے لیے یہ قانون نافذ کیا تھا۔ اب بھی بیرونِ کشمیر سے آنے والوں کا پہلا پڑائو جموں ہی بنتا ہے، اور یہ احساس جموں کی ہندو بیلٹ میں بھی پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اس طرح کشمیر اسمبلی کے انتخابات جموں وکشمیر کی بدلی ہوئی سیاسی حرکیات پر مزید کیا اثر ڈالتے ہیں، اس کا اندازہ انتخابات کے نتائج سے ہوجائے گا۔