خیبرپختون خوا کا آتش فشاں

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ قوم کی عظیم قربانیوں سے حاصل کیا گیا امن ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے گا۔ شہدا کی قربانیاں، قربانی کے جذبے کے ساتھ لڑنے کے ہمارے عزم کو مضبوط کرتی ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے ضلع اورکرزئی کا دورہ کیا اور وادیِ تیراہ اور گردو نواح میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات کی۔ آرمی چیف کو سیکورٹی کی مجموعی صورتِ حال اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے جاری کارروائیوں پر جامع بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف کو ضم شدہ اضلاع میں استحکام یقینی بنانے کے کثیر جہتی اقدامات پر بھی بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے خیبر پختون خوا میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون کو سراہا۔ اس موقع پر انہوں نے افسران اور جوانوں کے ساتھ بات چیت کی۔ آرمی چیف نے جوانوں کے بلند حوصلے اور ہر قسم کے خطرے کے خلاف مؤثر جواب دینے کی تیاری کو سراہا اور دشمن دہشت گرد گٹھ جوڑ کو شکست دینے اور غیر قانونی اسپیکٹرم میں سرگرمیاں ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ آرمی چیف نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاک فوج خیبر پختون خوا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرتی رہے گی۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ضم شدہ قبائلی ضلع اورکزئی کا دورہ ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب ایک جانب صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے، بدانتظامی عروج پر ہے، دہشت گردی نے سارے صوبے کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، پولیو ورکرز، پولیس، سرکاری اہلکاروں اور سیکورٹی فورسز پر قاتلانہ حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان سے ہر شہری پریشان اور مایوسی کا شکار ہے۔ پاک افغان سرحد پر متعدد بار ایسی خونریز جھڑپیں ہوچکی ہیں جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ پاک افغان شاہراہ کے عین وسط میں بھگیاڑی کے مقام پر مقامی کوکی خیل قبائل نے پچھلے چالیس دنوں سے یہ بین الاقوامی شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کررکھی ہے جس سے دونوں جانب ہزاروں گاڑیاں جن میں زیادہ تر سامان سے لدے بڑے بڑے کنٹینر ہیں، سڑک کھلنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے ان کنٹینروں اور گاڑیوں میں زیادہ تر سبزیاں اور تازہ میوہ جات ہیں جو گل سڑ رہے ہیں جس سے دونوں جانب کے تاجروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

صوبے میں لا اینڈ آرڈر کی بدحالی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مقامات پر سرِ شام تھانے بند ہوجاتے ہیں اور پولیس کا دہشت گردوں کے حملوں کے باعث تھانوں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے عام لوگ دہشت گردوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، اس کی ایک تازہ مثال لکی مروت میں پولیس کے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر دور دراز علاقے برگئی پولیس اسٹیشن کو ختم کرکے اسے تحصیل احمد زئی پولیس چوکی منتقل کیا جانا ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ تھانے پر دہشت گردوں کی طرف سے کئی بار حملے کیے گئے ہیں جن میں 6 پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ کئی حملے چغہ پارٹی کی مدد سے پولیس نے ناکام بنائے تھے۔ اس کے علاوہ تھانہ برگئی میں تعینات پولیس اہلکاروں نے پولیس لائن دربار میں عدم تحفظ کا اظہار کیا تھا کہ ان زندگی کو خطرہ ہے، جس پر ڈی پی او نے اعلیٰ حکام کے مشورے سے مذکورہ تھانے کی منتقلی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

ایسے میں رہی سہی کسر لوگوں کے جان ومال کے تحفظ پر مامور پولیس اہلکاروں کی جانب سے اپنی وردیاں اتارکر اور اپنے تھانے اور چوکیاں خالی کرکے کئی روز تک احتجاجی دھرنے نے پوری کردی ہے۔ پولیس میں اس بغاوت نما کیفیت کا آغاز گزشتہ ہفتے شمالی اور جنوبی وزیرستان سے ملحقہ بندوبستی ضلع لکی مروت میں اپنے ساتھیوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کے خلاف احتجاجی دھرنے سے ہوا تھا۔ سڑکوں کی بندش سے خیبر پختون خوا اور دیگر تین صوبوں کے درمیان سفر کرنے والے ٹرانسپورٹرز اور مسافروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ مال بردار گاڑیاں کئی دنوں سے احتجاجی کیمپ کے مقام کے دونوں اطراف ہائی وے پر پھنسی رہیں۔ گوکہ کامیاب مذاکرات کے بعد اب لکی مروت پولیس نے اپنا چار روزہ احتجاجی دھرنا ختم کرکے پشاور کراچی ہائی وے اور دیگر سڑکوں کو گاڑیوں کی آمد ورفت کے لیے کھول دیا ہے، لیکن یہ احتجاج اپنے پیچھے کئی اہم سوالات چھوڑ گیا ہے۔

احتجاجی دھرنے کے خاتمے کا اعلان گزشتہ روز مقامی عمائدین کی موجودگی میں کیا گیا۔ اس موقع پر سابق وفاقی سیکرٹری اور مروت قومی جرگہ کے رہنما اختر منیر مروت، سابق ایم این اے نصیر محمد، سابق ضلع ناظم اشفاق مینا خیل، سابق نائب ضلع ناظم عرب خان، سابق تحصیل ناظم فرید اللہ خان مینا خیل اور ہدایت اللہ خان کی تحصیل کونسل کے چیئرمین شفقت اللہ خان اور نورنگ تحصیل کونسل کے چیئرمین عزیز اللہ خان، ملک ریاض، مولانا سمیع اللہ مجاہد، انجینئر امیر نواز خان، ڈاکٹر گل رحمان، یعقوب خان، ملک علی سرور خان، نواب زادہ عبدالرحیم خان اور دیگر مشران موجود تھے۔ انہوں نے پشاور کے سی سی پی او قاسم علی خان، ایف آر پی کمانڈنٹ اشفاق انور، آرپی او بنوں عمران شاہد اور دیگر حکام کے ہمراہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز کمپلیکس تاجہ زئی میں واقع پولیس لائنز میں مظاہرین کے نمائندوں سے مذاکرات کیے اور انہیں احتجاجی کیمپ ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ ہمارے مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں، حکام نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی میں پولیس مکمل طور پر آزاد ہوگی، پولیس کو مزید بکتربند گاڑیاں اور وسائل فراہم کیے جائیں گے، پولیس میں بیرونی مداخلت ختم کی جائے گی، پولیس کے زخمیوں کا خصوصی خیال رکھا جائے گا، سیکورٹی فورسز کو ایک ہفتے کے اندر واپس بلایا جائے گا یا کیمپوں تک محدود رکھا جائے گا۔ اہلکار نے کہا کہ حکام احتجاجی دھرنے میں حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں یا سویلین کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کریں گے۔

یہاں اس امر کی نشاندہی قابلِ توجہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے پے در پے واقعات کے خلاف لکی مروت کے بعد بنوں اور باجوڑ میں بھی پولیس اہلکار اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں۔ باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں پولیو ٹیم پر حملے میں سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکار کی شہادت کے بعد ساتھی اہلکاروں نے پولیو ڈیوٹی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ پولیس اہلکاروں نے ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہیڈ کوارٹر خار میں دھرنا دیا۔ پولیس اہلکاروں نے سوال کیا کہ دن دہاڑے پولیس اہلکار کوکس نے شہید کیا؟ دن دہاڑے سڑک پر پولیس اہلکار کو ٹارگٹ کرنے والا کہاں سے آیا؟ اسی طرح بنوں میں پولیو ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار نور عالم خان کے قتل کے خلاف تمام پولیس اہلکاروں نے پولیو مہم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے عبدالستار شاہ بخاری چوک میں احتجاج کیا، ساتھیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے تھانوں اور چوکیوں سے بھی پولیس اہلکار اس احتجاجی دھرنے میں شریک ہوئے۔ ڈی پی او ضیاء احمد پولیس اہلکاروں سے مذاکرات کے لیے پہنچے لیکن مظاہرین اپنے ساتھی کا بدلہ لینے پر بضد تھے، انہوں نے روڈ بدستور بند رکھا اور شدید نعرے بازی کی۔ اس موقع پر تاجر برادری، بلدیاتی نمائندے اور عام شہری بھی کثیر تعداد میں اظہارِ یکجہتی کے لیے پہنچ گئے۔ ڈی پی او نے پولیس اہلکار کا بدلہ لینے کے لیے مظاہرین سے ایک گھنٹے کا وقت مانگا اور احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی، تاہم مظاہرین کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں تھے اور مقتول پولیس اہلکار کی نعش بھی دھرنے کے مقام پر رکھی ہوئی تھی۔ دو گھنٹے بعد قاتل کی مقابلے میں مارے جانے کی اطلاع آئی جسے بکتربندگاڑی میں مظاہرین کے پاس لایا گیا اور انہیں دکھایا گیا، لیکن مظاہرین پھر بھی مطمئن نہیں تھے، ڈی پی او کے سامنے مظاہرین نے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو پولیوڈ یوٹی سے مستثنیٰ کیا جائے۔

واضح رہے کہ صوبے میں پولیو ورکرز پر قاتلانہ حملوں میں اضافے کے بعد گزشتہ کچھ عرصے سے پولیو ٹیموں کی نگرانی اور حفاظت کے لیے پولیس کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے جس کے دوران کئی پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں، جس پر پولیس فورس میں سخت ردعمل اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ اسی نوعیت کے دو تازہ واقعات لکی مروت اور باجوڑ میں رونما ہوچکے ہیں جس کا ردعمل لکی مروت اور باجوڑ پولیس کی جانب سے احتجاجی دھرنے کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ یہ بات لائقِ اطمینان ہے کہ پولیس کے یہ احتجاجی دھرنے ختم ہوگئے ہیں لیکن ان سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ صوبے میں امن وامان اور نظم ونسق کی کیا صورت حال ہے۔ ایسے میں جلتی پر تیل کا کام وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے آئے روز ماری جانے والی بڑھکیں کررہی ہیں جن میں وہ کبھی وفاق کو اور کبھی مسلح افواج کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اُن کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اعلان نے بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ وفاق اور مقتدر قوتوں کو نظرانداز کرکے ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کسی دوسرے ملک کی ایسی حکومت سے کیوں کر مذاکرات کرسکتے ہیں جسے اب تک پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ صوبے پر طاری جمود اور بے یقینی کی صورتِ حال میں کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیراعلیٰ اپنا گنڈاسا اِدھر اُدھر لہرانے کے بجائے صوبے کے عوام کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنی توانائی اور وسائل بروئے کار لاتے، جس سے آتش فشاں کے کنارے کھڑے اس بدقسمت صوبے کاکچھ تو بھلا ہوتا۔