اخلاقیات اور حقیقی اخلاقیات

تبدیلی اور حقیقی انقلاب کا اصل ’’مرکز‘‘

زندگی میں اخلاقیات کی اہمیت بنیادی ہے، لیکن اخلاقیات صرف طاقتور کی ہوتی ہے۔ کمزور کی اخلاقیات بیشتر صورتوں میں اس کی مجبوری ہے، اور مجبوری کو اخلاقیات نہیں کہا جا سکتا۔

متوسط طبقے میں ’’سادگی‘‘ اب بھی بڑی پسندیدہ چیز سمجھی جاتی ہے۔ شادی بیاہ یا اسی طرح کے معاملات میں کوئی نہ کوئی سادگی کا درس دے ہی دیتا ہے، لیکن جہاں وسائل کی قلّت ہو وہاں سادگی اختیار کرنے کے کوئی معنی نہیں، کیوں کہ وہاں تو سادگی ایک ضرورت، ایک ناگزیر کثافت بلکہ ایک مجبوری ہے۔ اخلاقیات کا معاملہ بھی یہی ہے۔ کمزور آدمی کے پاس ردعمل ظاہر کرنے والے ’’وسائل‘‘ کی قلّت ہوتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ردعمل ظاہر کیا تو نقصان میںرہے گا، چنانچہ وہ خاموشی اختیار کرلیتا ہے اور اسے اخلاقیات سمجھ لیتا ہے، اگر نہ سمجھے تو اندر ہی اندر ابلتا اور کڑھتا رہتا ہے۔ اس صورت میں صبر اور اس کے ثمرات بھی اس کے ہاتھ نہیں آتے۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو طاقت انسانی نفس کی تربیت کا ایک بڑا وسیلہ ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے اسے اخلاق اور اخلاقیات ’’کمزوری‘‘ نظر آتی ہے، اور طاقت اور کمزوری ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ انسان کی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ تصور کی سطح پر سہی، اجتماعِ ضدین کو پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ طاقت اور کمزوری کا اجتماع یا امتزاج اسے پسند نہیں آتا اور وہ اخلاقیات کے مظاہرے پر مائل نہیں ہوتا۔ ہوتا بھی ہے تو بات ’’مظاہرے‘‘ تک محدود رہ جاتی ہے اور اس کی ذات میں اخلاقیات جڑ نہیں پکڑ پاتی۔

دیکھا جائے تو مصنوعی اخلاق بداخلاقی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، اس لیے کہ بداخلاقی کرنے والے کو کچھ نہ کچھ اپنی بداخلاقی کا احساس رہتا ہے، لیکن مصنوعی اخلاق کے حامل شخص کو اپنی بداخلاقی کا احساس ہی نہیں ہوپاتا۔ وہ ہمیشہ خود کو اخلاقیات کے زیر اثر سمجھتا رہتا ہے۔ یہاں کمزور کے مصنوعی اخلاق اور طاقت ور کے مصنوعی اخلاق کا موازنہ دل چسپ ہے۔ کمزور سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور کا کچھ بگاڑ نہیںسکتا اس لیے وہ اخلاق کی راہ اختیار کرتا ہے۔ طاقتور سمجھتا ہے کہ اخلاق بھی اس کی طاقت کا ایک حصہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ دونوں اخلاق بے کار ہیں۔ لیکن کمزور کا اخلاق اس اعتبار سے بہتر ہوتا ہے کہ اسے اپنی کمزوری کے حوالے اور وسیلے سے خدا یاد آتا رہتا ہے، لیکن طاقتور کے لیے اس کا امکان کم ہی پیدا ہوتا ہے۔

طاقتور کا اخلاق خواہ مخواہ بامعنی نہیں ہوتا۔ طاقت اظہار چاہتی ہے۔ وہ اپنے پھیلائو، شدت اور اثرات سے خود کو پہچانتی ہے۔ دوسری جانب ضمیر بھی اظہار پر مائل ہوتا ہے۔ اس طرح ان کے مابین مقابلے و مسابقے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن طاقت ’’انسانی شے‘‘ ہے اور ضمیر غیر انسانی شے۔ اس طرح مقابلہ انسانی اور ماورائے انسانی حقائق کے درمیان ہوتا ہے۔ اس صورت میں ضمیر کی آواز پر لبیک کا مفہوم یہ ہے کہ انسان نے اپنے وجود میں موجود انسانی تقاضے پر ماورائے انسانی تقاضے کو فوقیت دی۔ یہی مطلوبِ حیات ہے۔

انسان اتنی بڑی حقیقت ہے کہ یہ ساری کائنات اور اس کی ایک ایک شے کسی نہ کسی طرح انسان کے لیے صرف ہورہی ہے۔ لازم ہے کہ انسان بھی کسی کے لیے صرف ہو۔ لیکن انسان اپنے سے کم تر کسی شے کے لیے صرف نہیں ہوسکتا۔ یہ اس کے شرف کے خلاف ہے کہ وہ اپنے سے کم تر شے کے لیے صرف ہو۔ چونکہ کائنات کی ایک ایک شے انسان سے کم تر ہے، اس لیے انسان کائنات اور اس کی کسی بھی شے پر تو صرف نہیں ہوسکتا چنانچہ صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ انسان ماورائے انسان حقیقت کے لیے صرف ہو، اور یہ حقیقت یقینا کائنات سے باہر ہوگی۔ ضمیر اور اخلاق اسی قوت کی علامت ہیں۔ اسی لیے طاقت رکھنے کے باوجود اخلاق کی پاسداری ایک بہت بڑی ریاضت ہی نہیں ایک بہت بڑا شرف بھی ہے۔

یہاں سے بات عقیدے کی جانب چلی جاتی ہے۔ یعنی اخلاقیات عقیدے کے سوا کہیں سے آ ہی نہیں سکتی، اور عقیدے سے عاری اخلاقیات حقیقی اخلاقیات ہو ہی نہیں سکتی۔ تاہم مغربی فکر میں اس امر پر اصرار کیا گیا ہے کہ اخلاقیات عقیدے سے بے نیاز ہوسکتی ہے بلکہ ہوتی ہے۔ مغرب عقیدے سے بے نیاز ہوچکا ہے مگر وہ اخلاقیات سے یکسر بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ سچ کی مذمت اور جھوٹ کی حمایت کے لیے فضا ابھی تک سازگار نہیں ہوسکی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ چوری کرنا اچھی بات ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی برائی نہیں؟ معروف شکل میں انسان کے قتل کو آج بھی مغرب میں غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عقیدے کے استرداد کے بعد یہ تصورات کہاں سے آسکتے ہیں؟ تجزیہ کیا جائے تو اس سوال کے صرف دو جوابات سامنے آتے ہیں، ایک یہ کہ عقیدے سے جان چھڑا کر بھی اس سے جان چھڑانا ممکن نہیں۔ یعنی یہ تصورات مذہب کے استرداد کے باوجود مذہب ہی سے آتے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مذکورہ تصورات ’’مجبوری‘‘ سے پیدا ہوتے ہیں۔ جھوٹ کو جائز قرار دے کر زندگی کا نظام نہیں چلایا جاسکتا، اور قتل کو اخلاقی اور جائز قرار دینے سے انسانی بقا ناممکن ہوجائے گی۔ جس شخص کو موقع ملے گا، وہ دوسرے کو مار ڈالے گا۔ لیکن انسانی جان کی حرمت کا قائل ہوکر کسی کو قتل نہ کرنے اور اس خوف سے کسی کو قتل نہ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے کہ ہم نے کسی کو مارا تو کوئی ہمیں بھی مار ڈالے گا۔ یہاں خیال اور عمل تو بظاہر یکساں ہیں مگر ان کے محرکات بہت مختلف ہیں، اور یہ محرکات ہی ہیں جن سے کسی عمل کے حسن اور قدر و قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی اخلاقیات ایک مشینی اخلاقیات ہے جو ’’سماجی فائدے‘‘ کے تصور سے بندھی ہوئی ہے، اور اس کے ذریعے عقیدے کی بازیافت شاذ و نادر ہی ممکن ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس اخلاقیات پر یقین رکھنے والا کبھی بھی سماج کے سطحی تصور سے بلند نہیں ہوپاتا۔

زندگی میں انسان کی پوزیشن بدلتی رہتی ہے۔ طاقتور اچانک کمزور بن جاتا ہے اور کمزور کو طاقت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے مؤقف بھی بدل جاتے ہیں۔ وہ طاقتور جو کل تک اخلاقیات کو غیر ضروری سمجھتا تھا اچانک اخلاقیات کا قائل ہو جاتا ہے، اور وہ کمزور جو کل تک اس بات پر ماتم کیا کرتا تھا کہ دنیا سے اخلاق جیسے اٹھ گیا ہے، اچانک اخلاق کو غیر ضروری تصور کرتے ہوئے پرانے حساب بے باق کرنے لگتا ہے۔ فرانس، سوویت یونین اور چین کے انقلابات اس کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔ ان مثالوں میں اخلاقیات ’’صورتِ حال‘‘ کی اسیر نظر آتی ہے۔ انفرادی نوعیت کی مثالوں سے بھی یہی منظر ابھرتا ہے۔ لیکن جہاں حقیقی اخلاقیات موجود ہوتی ہے وہاں طاقت بجائے خود اخلاقیات کی قوت کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو علاقوں کے بجائے دلوں کو فتح کرتی ہے۔

کہنے والوں نے کہا ہے کہ بڑے آدمی دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن کو دیکھ کر آپ کو اپنے چھوٹے پن کا احساس ہو اور بات اس سے آگے نہ بڑھے، دوسرے بڑے آدمی وہ ہیں جنہیں دیکھ کر آپ میں اُن جیسا بننے کی خواہش پیدا ہو اور آپ خود کو اپنے چھوٹے پن کے احساس میں مقید نہ پائیں۔ انسانوں کا یہ فرق اور یہ امتیاز اور چیزوں کے علاوہ حقیقی اور غیر حقیقی اخلاقیات سے بھی پیدا ہوتا ہے، اس لیے کہ ایک بڑا پن صرف دوسرے کے ذہن کو متاثر کرتاہے، اور ایک بڑا پن پورے وجود کو متاثر کرتا ہے۔ تبدیلی یہیں سے آتی ہے، حقیقی انقلاب یہیں سے جنم لیتا ہے۔