شیخ حسینہ کے بعد مسلمانانِ مشرقی بنگال میں پاکستان، قائدِ اعظم اور اردو کو نئی زندگی مل گئی
طلبہ تحریک کے نتیجے میں گزشتہ ماہ بنگلادیش میں عوامی لیگ کا پندرہ سالہ اقتدار اختتام کو پہنچا۔ شیخ حسینہ واجد نے مستعفی ہونے کے بعد راہِ فرار اختیار کی اور اپنے نگران و سرپرست بھارت کی سرزمین پر پناہ لی۔
بنگلا دیش میں ڈیڑھ عشرے سے ایک ایسی حکومت قائم تھی جس نے طے کر رکھا تھا کہ ملک کو بھارت کا بغل بچہ بناکر رکھنا ہے۔ ہر معاملے میں بھارت کو ترجیح دینا اور اُس کے آگے جھکے رہنا شیخ حسینہ واجد کا وتیرہ رہا۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر بنگلادیش کی خارجہ پالیسی کو بھارت کے اثرات سے آزاد کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ اِس کے نتیجے میں بنگلادیش کی پالیسیاں بھارت کے شکنجے میں آگئیں اور ملک کی اسلامی شناخت بھی خطرے میں پڑگئی۔
شیخ حسینہ واجد اور اُن کی پارٹی کے لیے پاکستان تو خیر کسی بھی صورت قابلِ قبول نہ تھا مگر حد یہ ہوئی کہ انہوں نے بنگلادیش کو باقی مسلم ممالک سے بھی دور کردیا۔ بنگلادیش کی لسانی اور ثقافتی شناخت کو ہندو اِزم سے جوڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ اِس کے نتیجے میں بھارت کو کُھل کھیلنے کا موقع ملا۔
آج کا بنگلا دیش ایک ایسی راہ پر چل نکلا ہے جس پر چلنے کے بارے میں ابھی دو ڈھائی ماہ قبل سوچنا بھی محال تھا۔ شیخ حسینہ نے نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے تحت بُودی سماعتوں کے ذریعے جماعتِ اسلامی بنگلادیش کے قائدین کو محض اس بات پر موت کی سزائیں دیں کہ انہوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے کی تحریک کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ اس متنازع ٹربیونل کے ذریعے دی جانے والی سزائے موت پر شدید نکتہ چینی کی گئی، مگر شیخ حسینہ نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی بنگلادیش کے معمر قائدین کو پھانسی دے دی۔
بنگلا دیش کے عوام کے دلوں میں پاکستان سے خصوصی نفرت پروان چڑھائی گئی ہے۔ 1952ء میں بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کے لیے تحریک شروع کی گئی، اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں مارے جانے والے 5 افراد کو شہید کا درجہ دے کر ملک بھر میں اردو سے نفرت کو پروان چڑھانے کی ابتدا ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو دل سے قبول نہ کرنے کا رویہ بھی پیدا ہوا۔
بھارتی قیادت اور میڈیا کو اس بات سے اب بہت دُکھ پہنچ رہا ہے کہ شیخ حسینہ کے بعد کا بنگلادیش تو بالکل ہی بدل گیا ہے اور وہاں پاکستان، قائدِاعظم محمد علی جناح اور اردو تینوں کا محض ذکر نہیں ہورہا، اُن کا بول بالا ہورہا ہے۔ بھارتی میڈیا پر واویلا مچایا جارہا ہے کہ بنگلادیش ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ بات اِتنی سی ہے کہ کل تک شیخ حسینہ واجد کے خوف سے جس بنگلادیش میں پاکستان کا نام تک نہیں لیا جاسکتا تھا وہاں آج پاکستان، پاکستان کے بانی اور اردو تینوں کا بول بالا ہے۔
بنگلادیش کے مسلمان ڈیڑھ عشرے سے انتہائی جبر کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ بھارت نے ہر معاملے میں ٹانگ اڑا رکھی تھی۔ شیخ حسینہ واجد نے پورے ملک کو بھارت کی آغوش میں دے رکھا تھا۔ پالیسیاں بھی بھارت نواز بنائی جاتی تھیں۔ تجارت کے نام پر بھارت نے بنگلادیشی معیشت کو جکڑ رکھا تھا۔ بھارتی قیادت کو یہ بات بالکل گوارا نہ تھی کہ بنگلادیش کسی بھی طور پر معاشی استحکام سے ہم کنار ہو۔ یہی سبب ہے کہ بنگلادیشی صنعتوں کو ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا تھا۔
کیا یہ انقلاب نہیں کہ جس بنگلا دیش میں پاکستان کا نام لینا بھی جرم بنادیا گیا تھا وہاں اب نہ صرف یہ کہ پاکستان کا نام پوری قوت اور جوش و خروش سے لیا جارہا ہے بلکہ اب تک جس محمد علی جناح کی ستائش میں ایک لفظ بھی کہنے کی گنجائش نہ تھی اُس محمد علی جناح کو برسی پر شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔ 11 ستمبر 2024ء کو قائدِاعظم کی 76ویں برسی گزری۔ اس موقع پر ڈھاکا کے نیشنل پریس کلب میں تقریب منعقد ہوئی جس میں مقررین نے قائدِاعظم کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر قائد کی شان میں ایک نظم پیش کی گئی اور ساتھ ہی ساتھ دو پاکستانی طلبہ محمد طاہر اور کامران عباس نے گیت بھی گائے۔
بھارتی میڈیا کے لیے تو یہ سب کچھ قیامت کے مترادف تھا۔ انڈیا ٹوڈے نے اس حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ میں دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کو اس بات کا شدید دکھ ہے کہ جس سرزمین پر بنگالی زبان کے وقار کے لیے عظیم الشان قربانیاں دی گئیں اُسی سرزمین پر اردو، پاکستان اور محمد علی جناح کو کُھل کر اور جی بھر کے سراہا جارہا ہے۔ یہ بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹ اس بات کا رونا رو رہا ہے کہ بنگلادیش کے عوام سب کچھ بھول گئے ہیں، اُنہیں یہ بھی یاد نہیں کہ وہ آج جس پاکستان کی ستائش میں مصروف ہیں اُسی کے لوگوں نے کبھی اُن کا استحصال کیا تھا۔
انڈیا ٹوڈے اور دیگر بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس کے سینوں پر سانپ کیوں نہ لَوٹتے؟ بنگلادیش کے قیام کے بعد سے اب تک یعنی 53 سال میں پہلی بار قائدِاعظم کی برسی نمایاں طور پر منائی گئی ہے اور وہ بھی ڈھاکا میں۔ بھارتی میڈیا کے لیے اِس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ مقررین نے صاف صاف کہا کہ اگر محمد علی جناح نہ ہوتے تو دیش بھی نہ ہوتا۔
بھارتی میڈیا ڈیڑھ ماہ سے یہی راگ الاپ رہا ہے کہ بنگلادیش اب انتہا پسند مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ انڈیا ٹوڈے اور دیگر آؤٹ لیٹ زہریلی رپورٹس کے ذریعے یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ بنگلادیش میں انتہا پسند مسلمانوں کی حکومت بس قائم ہوا ہی چاہتی ہے۔
ڈھاکا میں قائدِاعظم کی برسی کا منایا جانا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بنگلادیش میں وہ تبدیلی آچکی ہے جو بھارت کو کسی بھی طور گوارا نہیں، قبول نہیں۔
ڈھاکا کے نیشنل پریس کلب میں قائدِ اعظم کی برسی پر تقریب کا اہتمام نواب سلیم اللہ اکیڈمی نے کیا تھا۔ یہ تقریب نیشنل پریس کلب، ڈھاکا کے تفضل حسین مانیک میاں ہال میں منعقد ہوئی۔ ڈھاکا ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق تقریب کے مقررین نے پاکستان کے قیام میں قائدِاعظم کے کردار کو سراہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو بنگلادیش بھی نہ ہوتا اور مشرقی بنگال یعنی موجودہ بنگلادیش کے مسلمان آج بھی بھارت کے زیرِنگیں ہوتے، نئی دہلی کے تابعِ فرمان ہوتے۔
اس تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے بنگلادیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو شریک ہونا تھا تاہم وہ بوجوہ نہ آسکے اور اُن کی جگہ ڈپٹی ہائی کمشنر کامران دھنگل نے شرکت کی۔
پروفیسر مستفیض الرحمٰن نے کلیدی مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے قائدِاعظم کی زندگی میں سنگِ میل قرار دیے جانے والے واقعات کی تفصیل پیش کی اور اس خطے کے مسلمانوں کے لیے اُن کی خدمات کو سراہا۔ جعفرالحق جعفر نے قائدِاعظم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک نظم پڑھی۔ تقریب کی صدارت نواب سلیم اللہ اکیڈمی کے صدر محمد عبدالجبار نے کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف دانشور شمس الدین نے کہا کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو موجودہ بنگلادیش کے عوام کا بھی وہی حشر ہوتا جو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا ہوا ہے یعنی بھارت نے ہمارے سروں پر بندوقیں تانی ہوئی ہوتیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہم 1947ء میں پاکستان کا حصہ نہ بنے ہوتے تو آج بنگلادیش بھی نہ ہوتا اور بھارت ہمارے سیاہ و سفید کا مکمل مالک ہوتا۔
شمس الدین نے بتایا کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں علامہ اقبال ہال یا جناح ایونیو کے ناموں کی تبدیلی بھارت کے دباؤ پر کیے جانے والے اقدامات تھے۔ ان اقدامات کا اس خطے کے عوام کے جذبات سے کوئی تعلق نہ تھا۔
ایک اور مقرر نذرالاسلام نے کہا کہ محمد علی جناح ہمارے لیے بابائے قوم ہیں مگر ہم اس بات کا برملا اعتراف نہیں کرتے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان سے ہر حال میں برادرانہ تعلقات استوار رکھنے چاہئیں۔
بنگلا دیش کے بھارت نواز سیکولر صحافیوں اور دانشوروں کو یہ بات بہت بُری لگی ہے کہ بنگلادیش ایک بار پھر پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے، اور یہ کہ بنگلادیش کی سرزمین پر پاکستان، محمد علی جناح اور اردو کو نئی زندگی ملی ہے۔ ڈھاکا کے صحافی صلاح الدین شعیب چودھری کا کہنا ہے کہ ڈھاکا میں قائدِاعظم کی برسی کا منایا جانا اُن 30 لاکھ (!) بنگالیوں کی ارواح کی صریح توہین ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔
بھارتی قیادت اور بنگلا دیش میں اُس کے پروردہ لوگوں سے یہ بات بالکل ہضم نہیں ہو پارہی کہ جن لوگوں کو شیخ حسینہ واجد نے پندرہ سال تک دبوچ کر رکھا تھا وہ اب اس قدر جری کیسے ہوگئے ہیں کہ کھل کر پاکستان کی طرف جھکاؤ دکھا رہے ہیں!
بھارتی قیادت کے لیے یہ سب کچھ اس لیے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت ہے کہ ایسی حالت میں وہ بنگلادیش کو دبوچ کر رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ بھارتی قیادت ایسا بنگلادیش کسی بھی حال میں نہیں دیکھنا چاہتی جہاں پاکستان سمیت مسلم دنیا کی طرف دیکھا جاتا ہو اور بھارت کی دستی تسلیم کرنے سے گریز کا رجحان عام ہو۔
ڈیڑھ ماہ کے دوران بھارتی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے بعد بنگلادیش کی سرزمین پر ہندوؤں کا جینا حرام کردیا گیا ہے اور اُنہیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے داخل کیے جانے والے ایجنٹ بنگلادیش میں حالات خراب کررہے ہیں۔ بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال کا ایک باشندہ بنگلادیش کے مندروں میں مورتیوں کی توڑ پھوڑ میں ملوث پایا گیا ہے۔ یہی نہیں، اس سے قبل بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے 30 ایجنٹ بنگلادیشی فوج کی وردی میں ملبوس گرفتار کیے گئے تھے۔
بھارتی قیات پورا زور لگارہی ہے کہ بڑی طاقتیں بنگلادیش کے معاملات کو اقوامِ متحدہ کی سطح پر اچھالیں اور یوں بھارت کو بنگلادیش پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کا موقع ملے۔ یہ وقت پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ بنگلادیش کا موجودہ معاشرہ پاکستان کو قبول کرنے کی حالت میں ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو نئی زندگی عطا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے وہاں تزویراتی گہرائی (Strategic depth) پیدا کرنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے۔