یامین نیتن یاہو کے جنگی جنون کو ایک سال ہوگیا تو سفید جھوٹ پر مبنی خبروں کی اشاعت کروائی جارہی ہے تاکہ غزہ میں مزید قتلِ عام کیا جاسکے
غزہ میں موجود انسانی المیے کو ایک سال ہونے کو ہے اور تاحال اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، عالمی عدالت کے وارنٹ اور عالمی سیاسی دباؤ بھی مل کر اسرائیل کو جنگی جنون سے روک نہ سکے، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اسرائیل کو اب بین الاقوامی طور پر ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر جانا جانے لگا ہے، شاید یہی وہ نکتہ ہے کہ اب اسرائیل کو اپنے وجود کے دفاع کے لیے جھوٹی اور من گھڑت خبروں کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا، اور اب سچائی پر حملوں کے علاوہ جھوٹ کا بازار بھی گرم کیا جارہا ہے۔ ’’جنگ میں پہلا حملہ ہی سچ پر ہوتا ہے‘‘ کے مصداق غزہ میں سچ کو روکنے کے لیے صحافیوں کو قتل کیا گیا، الجزیرہ پر پابندی لگائی گئی، عالمی نشریاتی اداروں خاص طور پر بی بی سی کو دھمکیاں دی گئیں، اور جب اس سے بھی کام نہ بنا اور بن یامین نیتن یاہو کے جنگی جنون کو ایک سال ہوگیا تو سفید جھوٹ پر مبنی خبروں کی اشاعت کروائی جارہی ہے تاکہ غزہ میں مزید قتلِ عام کیا جاسکے، اور یہ خبریں کسی سوشل میڈیا کے بے نامی اکاؤنٹ سے نہیں بلکہ یہودیوں کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار The Jewish Chronicle کے ذریعے پھیلائی جارہی ہیں۔ یہ اخبار لندن سے 1841ء سے شائع ہورہا ہے اور پورے یورپ میں یہودیوں کا شائع ہونے والا قدیم ترین اور معتبر ترین اخبار شمار ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس اخبار نے ایک خبر شائع کی جوکہ بائی لائن Elon Perry کے نام سے شاملِ اشاعت ہوئی، اس میں اسرائیلی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق دعویٰ کیا گیا کہ حماس کے موجودہ سربراہ یحییٰ سنوار غزہ میں موجود اسرائیلی مغویوں کے ہمراہ ایران فرار ہونے والے ہیں۔ اس دعوے کے بعد تو گویا پوری دنیا میں اس خبر کی دھوم مچ گئی، اس کو مؤقر ترین اسرائیلی اخبارات Haartez اور Yedioth Ahronoth سمیت نو سو سے زائد نیوز ویب سائٹس نے اسرائیلی سیکورٹی انٹیلی جنس کے ذرائع سے شائع کیا۔
The Jewish Chronical کی خبر کے مطابق اس بات کا انکشاف تب ہوا جب 6 مغویوں کی لاشیں برآمد ہوئیں اور اسی مقام سے یہ تحریری منصوبہ برآمد ہوا۔ اس منصوبے کے افشا ہونے کو صحافی Elon Perry نے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کی جانب موسوم کیا۔ اس کے ساتھ ہی پورے اسرائیلی میڈیا میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جب یہودیوں کے قدیم ترین اخبار نے کسی ایسی خبر کو نشر کیا جس کی بنیاد پر ایک طوفان برپا ہوگیا، بلکہ اس سے قبل بھی کئی ایسی خبریں متواتر اسی ہفت روزہ اخبار سے شائع ہوتی رہی ہیں کہ جن کی تصدیق نہ ہوسکی لیکن وہ خبریں اسرائیلی میڈیا کی زینت بن گئیں۔ اس خبر کے حوالے سے یہ بات اب بین الاقوامی میڈیا کررہا ہے کہ اس خبر کا مقصد نیتن یاہو کو مزید جنگی جنون اور مزید نسل کُشی کے لیے ایک میدان فراہم کرنا تھا۔ جبکہ غزہ پر مکمل طور پر اسرائیلی قبضہ ہے، پھر کیسے یحییٰ سنوار ان مغویوں سمیت ایران فرار ہوسکتے ہیں؟
جب اس خبر کا عالمی میڈیا پر نوٹس لیا گیا تو اسرائیلی فوجی ترجمان نے کسی بھی ایسی خبر سے لاتعلقی کا اعلان کردیا، اور جب اس ہفت روزہ اخبار سے صحافیوں نے سوال کیے تو اخبار نے اپنی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا:
”The Jewish Chronicle is aware of allegations concerning a freelance journalist, which we take very seriously.
The Jewish Chronicle is the oldest Jewish newspaper in the world and has always maintained the highest standards of reporting and integrity. An investigation is under way and there will be an update in due course.”
(یہودی کرانیکل ایک فری لانس صحافی سے متعلق الزامات سے آگاہ ہے، اور ہم ان کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
یہودی کرانیکل دنیا کا سب سے قدیم یہودی اخبار ہے، اور اس نے ہمیشہ اعلیٰ ترین صحافتی معیار اور دیانت داری کو برقرار رکھا ہے۔ اس وقت تحقیقات جاری ہیں، اور مناسب وقت پر مزید معلومات فراہم کی جائیں گی۔)
یعنی بالآخر اخبار نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ یہ خبر درست نہیں تھی۔ اب مبینہ صحافی Elon Perry جوکہ طویل عرصے سے اس اخبار کے لیے لکھ رہا تھا، اس کے سی وی کے مطابق وہ اسرائیلی فوج میں کام کرچکا ہے، اس کے علاوہ وہ فری لانس صحافی ہے اور یونیورسٹی میں بھی پروفیسر ہے۔ تاہم جب اس صحافی کے سی وی کی تصدیق کی گئی تو اس میں سے کسی ایک بھی بات کی تصدیق نہ ہوسکی، اور صحافی سے رابطے کی تمام تر کوششوں کے باوجود صحافی کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا، جس کے بعد اس مبینہ صحافی کی موجودگی پر بھی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ اس پورے تناظر میں بین الاقوامی میڈیا پر شدید بحث جاری ہے جس میں سوال کیا جارہا ہے کہ کیا کوئی اخبار محض ایک بیان دے کر اپنی جان چھڑوا سکتا ہے؟ ایک ایسا صحافی جوکہ اخبار میں متواتر لکھ رہا ہے اور کئی ایکسکلوسو خبریں رپورٹ کرتا رہا جس پر پورے اسرائیلی میڈیا نے ایک ہیجان برپا کیے رکھا، تو کیا اس اخبار کی یہ ادارتی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ ان خبروں کی اپنے طور پر بھی تصدیق کرتا، یا فریقِ مخالف کا مؤقف جاننے کی کوشش کرتا؟
یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک جعلی آدمی جس کے کسی بھی تعلق یا اکیڈمک تعلق کی تصدیق نہ ہو، اخبار اس کو متواتر اسی تعارف سے چھاپتا رہا؟
واضح رہے کہ یہ کوئی عام ویب سائٹ یا اخبار نہیں بلکہ دنیا میں یہودیوں کا قدیم ترین و معتبر ترین اخبار ہے جوکہ لندن سے شائع ہوتا ہے۔ اس پوری بات کو سمجھنے کے لیے عالمی میڈیا پر خبروں کی اشاعت اور اس میں ایجنڈا سیٹنگ کو سمجھنا ضروری ہے۔ نائن الیون حملوں کے فوری بعد جبکہ ابھی تک ٹوئن ٹاور منہدم بھی نہ ہوئے تھے کہ امریکی میڈیا نے اس کا ذمہ دار القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو قرار دے دیا، اور گہرے صدمے کی اس نفسیات میں یہ بات امریکی عوام کے ذہن میں پیوست کردی گئی کہ اس سب کی ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس کے بعد مبینہ ہائی جیکرز کی تصاویر اور نام جاری کرکے یہ بات باور کروا دی گئی کہ امریکہ پر مسلمانوں کی جانب سے حملہ کردیا گیا ہے۔
کم و بیش یہی صورتِ حال آج غزہ میں ہے۔ جب 6 مغویوں کی لاشیں برآمد ہوئیں اور سو سے زائد مغوی ابھی تک حماس کی قید میں ہیں، اسرائیل میں بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے جس میں یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مغویوں کو چھڑایا جائے، مغویوں کے اہلِ خانہ امریکی صدر سے اپیل کررہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کو مذاکرات پر آمادہ کیا جائے، ایسے وقت میں جھوٹی خبر کے ذریعے اس بات کو باور کروایا جائے کہ حماس کا منصوبہ ہلاکت خیز ہے لہٰذا ان سے کسی مذاکرات کے بجائے آہنی ہاتھوں سے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔ یہ خبر اور اس جیسی کئی مزید خبریں اس قدیم ترین اخبار کے اندر چھاپی جاچکی ہیں کہ جن کی کوئی تصدیق نہ ہوسکی، اور جب بین الاقوامی صحافیوں نے اخبار کی خبروں کی چھان بین شروع کی تو آخرکار اخبار نے مبینہ صحافی کی کئی مزید خبریں ڈیلیٹ کردیں اور بیان جاری کیا کہ
”The Jewish Chronicle has concluded a thorough investigation into freelance journalist Elon Perry, which commenced after allegations were made about aspects of his record. While we understand he did serve in the Israel Defense Forces, we were not satisfied with some of his claims-”
”We have therefore removed his stories from our website and ended any association with Mr Perry.”
”The Jewish Chronicle maintains the highest journalistic standards in a highly contested information landscape and we deeply regret the chain of events that led to this point. We apologise to our loyal readers and have reviewed our internal processes so that this will not be repeated.”
(’’یہودی کرانیکل نے فری لانس صحافی ایلون پیری کے خلاف الزامات کے بعد اُن کے ریکارڈ کے کچھ پہلوؤں پر ایک جامع تحقیقات مکمل کی ہے۔ اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ انہوں نے اسرائیلی دفاعی فورسز میں خدمات انجام دی تھیں، لیکن ہم اُن کے بعض دعووں سے مطمئن نہیں تھے۔‘‘
’’اسی وجہ سے ہم نے ان کی تحریریں اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دی ہیں اور مسٹر پیری کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق ختم کردیا ہے۔
یہودی کرانیکل ایک انتہائی متنازع معلوماتی ماحول میں اعلیٰ ترین صحافتی معیار کو برقرار رکھتا ہے اور ہمیں ان واقعات کی سلسلہ وار صورتِ حال پر شدید افسوس ہے جو اس نتیجے تک پہنچی۔ ہم اپنے وفادار قارئین سے معذرت خواہ ہیں اور ہم نے اپنے داخلی طریقہ کار کا جائزہ لیا ہے تاکہ اس قسم کی صورتِ حال دوبارہ نہ ہو۔‘‘)
تاہم اخبار نے یہاں پر بھی مکمل سچ بولنے سے گریز کیا اور مبینہ صحافی کی کسی یونیورسٹی سے وابستگی جوکہ ثابت نہ ہوسکی، کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
اس اسکینڈل نے مغربی میڈیا کی آزادی، غیر جانب دارانہ، سچی و معروضی صحافت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس اخبار سے وابستہ چار معتبر ترین صحافیوں نے اخبار سے احتجاجاً اپنا تعلق ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صحافیFreedland برطانیہ کے معتبر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور برطانیہ کے معتبر اخبار گارڈین کے بھی کالمسٹ ہیں، انہوں نے Jewish Chronicle سے اپنا تعلق ختم کرتے ہوئے لکھا:
“I am quitting the paper to which I had contributed for 26 years, and which my father began writing for in 1951.
The latest scandal brings great disgrace on the paper – publishing fabricated stories and showing only the thinnest form of contrition – but it is only the latest. Too often, the JC ]Jewish Chronicle[ reads like a partisan, ideological instrument, its judgements political rather than journalistic.”
”Of course, all newspapers make mistakes and run articles that writers on the paper dislike. The problem in this case is that there can be no real accountability because the JC is owned by a person or people who refuse to reveal themselves. As you know, I and others have long urged transparency, making that case to you privately – but nothing has happened.”
(’’اُس اخبار سے علیحدہ ہورہا ہوں جس کے لیے میں نے 26 سال تک لکھا، اور جس کے لیے میرے والد نے 1951ء میں لکھنا شروع کیا تھا۔
تازہ ترین اسکینڈل نے اخبار پر شدید بدنامی کا داغ لگا دیا ہے… جھوٹی کہانیاں شائع کرنا اور بہت معمولی شرمندگی ظاہر کرنا… لیکن یہ صرف تازہ ترین مسئلہ ہے۔ اکثر، جے سی]یہودی کرانیکل[ ایک جانب دار نظریاتی آلے کی طرح لگتا ہے، اس کے فیصلے صحافتی کے بجائے سیاسی ہوتے ہیں۔‘‘
’’ظاہر ہے تمام اخبارات غلطیاں کرتے ہیں اور ایسے مضامین شائع کرتے ہیں جنہیں اخبار کے مصنف ناپسند کرتے ہیں۔ اس معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی حقیقی احتساب نہیں ہوسکتا، کیونکہ جے سی ایسے افراد کے پاس ہے جو اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں اور دیگر لوگ طویل عرصے سے شفافیت کا مطالبہ کررہے ہیں، اور یہ بات آپ سے نجی طور پر بھی کہی ہے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔‘‘)
اس تمام تر تناظر میں یہ بات اب بالکل واضح ہے کہ اسرائیل نہ صرف زمینی بلکہ ابلاغی محاذ پر جنگ میں بھی مکمل شکست کھا چکا ہے اور اب جھوٹی و من گھڑت خبروں کے ذریعے ہاری ہوئی جنگ سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ غزہ میں جاری المیے کو ایک سال ہونے کو ہے اور اس دوران میں طاقت کا بے دریغ استعمال، چالیس ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکت، منظم نسل کُشی اور عالمی طاقتوں کی بے جا حمایت کے باوجود اسرائیل قیدیوں کو تاحال رہا نہیں کروا سکا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اب نہ صرف اسرائیل کے اندر بلکہ بین الاقوامی برادری کے سامنے اسرائیل کے جھوٹ آشکار ہورہے ہیں اور ان پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ اب سچ بولنے والوں پر حملہ آور ہے۔ ایک جانب جھوٹی خبروں کی اشاعت، اس کی بنیاد پر منظم پروپیگنڈا، اور دوسری جانب عالمی نشریاتی اداروں کی وہ رپورٹنگ جو حقائق پر مبنی ہے، اس پر بھی اب ایک شدید جھوٹا پروپیگنڈا اسرائیل کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ الجزیرہ کے صحافیوں کے منظم قتلِ عام کے بعد اب اسرائیل بی بی سی پر حملہ آور ہے اور گزشتہ دنوں ایک بار پھر منظم طور پر بی بی سی کی غزہ کے المیے پر رپورٹنگ پر ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے جوکہ اس بات کا مظہر ہے کہ اگر کوئی اسرائیل سے مخالفت کی جمہوری جرات بھی کرے تو وہ بھی ظالم کی صف میں کھڑا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل کے فریب کا پردہ چاک کررہی ہے۔