آئین میں ترمیم کا متنازع مسودہ

آرمی ایکٹ کا آئینی تحفظ بھی شامل ہے

زیر بحث آئینی ترمیمی بل کا مسودہ جس میں ججوں کے حوالے سے انتہائی اہم تجاویز اور آرمی ایکٹ کا آئینی تحفظ بھی شامل ہے مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز ہے۔ نئی ترمیم کے مطابق 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے والا اسمبلی رکنیت تو کھو دے گا مگر اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کی تجویز شامل کی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام کی سفارش قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو کرے گی۔ دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی، تاہم وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری صدرِ پاکستان وزیراعظم کی تجویز پر کریں گے، جب کہ صدر مملکت وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی تقرری چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔ ججوں کی تقرری کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اس کمیٹی کے ارکان کا تمام پارلیمانی پارٹیوں کے تناسب سے انتخاب کریں گے۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے7 روز قبل اپنی سفارشات وزیراعظم کو بھیجے گی۔ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 68 سال ہوگی۔ سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں تین سال کے لیے جج تعینات ہوگا۔ آئینی ترمیمی بل میں ہائی کورٹس سے سوموٹو لینے کا اختیار واپس لینے کی بھی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے ججوں کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔ مسودے کے مطابق سروسز چیف کی تقرری اور ایکسٹینشن کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ حاصل ہوگا اور اس متعلقہ قانون میں ترمیم اُس وقت تک ممکن نہیں ہوگی جب تک آئین میں ترمیم نہ کرلی جائے۔ آئینی ترمیمی بل میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ کسی بھی جج کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں صدرِ پاکستان کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی ریٹائرڈ جج کو بھی آئینی عدالت کا جج تعینات کرسکتے ہیں۔ آرٹیکل 179 بی کے اضافے کے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کی خالی سیٹ پر صدر مجوزہ طریقہ کار کو اپناتے ہوئے کسی ریٹائرڈ جج کو عارضی جج کے طور پر تعینات کرسکتے ہیں، اور وہ تب تک اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکتے ہیں جب تک صدر تعیناتی کالعدم نہ کردیں۔

مجوزہ آئینی ترمیم میں چیف الیکشن کمشنر اور ممبر الیکشن کمیشن کی مدتِ ملازمت سے متعلق بھی ترمیم شامل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 215 میں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر یا ممبر الیکشن کمشنر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدے پر اُس وقت تک کام جاری رکھ سکتے ہیں جب تک نئے چیف الیکشن کمشنر یا ممبر کی تعیناتی نہیں کردی جاتی۔ اس کے علاوہ جو چیف الیکشن کمشنر یا ممبر الیکشن کمیشن کے عہدے پر پہلے سے تعینات رہے ہوں ان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے قرارداد کے ذریعے دوبارہ 3 سال کے لیے تعینات کیا جاسکتا ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار اور دائرہ اختیار بھی تبدیل کرنے کی تجویز ہے، پنجاب کے شہر میانوالی اور بھکر کو بھی اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرۂ اختیار میں لایا جائے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے قائم کمیشن میں اب چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ اسلام آباد بار کا نمائندہ اور ایک وفاقی وزیر شامل ہوگا۔ موجودہ قانون کے مطابق چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کمیشن کا حصہ ہیں۔ آئینی اصلاحاتی پیکیج کی تفصیلات کے مطابق اس میں ججوں کو نکالنے کے طریقہ کار میں ترمیم بھی شامل ہے۔ آئین میں آرٹیکل 63،51 اور آرٹیکل 175 میں ترمیم سمیت 20 سے زائد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 63 میں منحرف رکن کے ووٹ سے متعلق ترمیم اور بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے۔ تاہم یہ معاملہ اب صوبائی اسمبلی پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ اس کی سفارش کرے۔ مجوزہ ترامیم کے مطابق آئینی عدالت آرٹیکل 184، 185 اور 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گی، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائے گی، ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائے گی، مجوزہ ترامیم کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو دوسرے صوبوں میں بھی بھیجا جاسکے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر پانچ سینئر ترین ججوں کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے پانچ سینئرججوں میں سے چیف جسٹس لگائے گی، آئینی عدالت کے باقی چار جج بھی حکومت تعینات کرے گی، ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو اکٹھا کیا جائے گا۔

آئین کا آرٹیکل 181 ججوں کی عارضی تقرری سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 184 ازخود نوٹس اختیار سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 185 فیصلوں پر اپیل سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 186 صدارتی وضاحت پر سپریم کورٹ کے اختیار سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 63 ڈی فیکشن کلاز پارٹی سربراہ کے اختیار سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 51 مخصوص نشستوں سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 175 سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 187 سپریم کورٹ، ہائی کورٹس کی تشکیل اور ججوں کی تقرریوں سے متعلق ہے۔ آئینی ترمیم میں ازخود نوٹس کی دفعہ 184 تھری میں ترمیم کی بھی تجویز ہے۔ ججوں کا تقرر کرنے والی باڈی کی تشکیلِ نو بھی مسودے میں شامل ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرکے کمیٹی بنانے کی بھی تجویز ہے۔ ایڈہاک ججوں کی تقرری کی دفعہ 181 میں ترمیم اور آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کی تجویز مسودے میں شامل ہے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق آئینی عدالت میں 184، 185، 186 سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوگی، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل بھی آئینی عدالت میں سنی جائے گی۔

ججوں کی تقرری سے متعلق جو نکتہ انیسویں ترمیم میں واپس کیا گیا، اس کو بحال کیا جائے گا۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ آئندہ چیف جسٹس کے تقرر کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے گا جس کے تحت سینئر ترین 5 ججوں میں سے کوئی ایک آئندہ چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔ ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی آئینی ترمیم بھی مسودے میں شامل ہے، جب کہ آئینی ترمیم میں ازخود نوٹس کی دفعہ 184 تھری میں ترمیم کی بھی تجویز ہے۔ ججوں کا تقرر کرنے والی باڈی کی تشکیلِ نو بھی مسودے میں شامل ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرکے کمیٹی بنانے کی بھی تجویز ہے۔ ایڈہاک ججوں کی تقرری کی دفعہ 181 میں ترمیم اور آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کی تجویز مسودے میں شامل ہے۔