عدلیہ پر حملہ:آئینی ترمیم کے پردے میںطاقت کا کھیل

سیاسی مقاصد کے حصوں کے لیے آئینی ترامیم عدلیہ کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے

پاکستان کی سیاست عجیب ہے جو ہمیشہ سے سیاسی مہم جوئی اور ایڈونچرز سے بھری پڑی ہے۔ سیاست، جمہوریت، قانون اور آئین کے مقابلے میں ہم نے اپنی ذاتی خواہشات کی بنیاد پر ان سنہری اصولوں کو اپنی سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست کے تماشے ختم ہونے کے بجائے تواتر کے ساتھ قومی سیاست پر غالب رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں اس وقت جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس کا مقصد عدلیہ، ججوں یا عدالتی نظام کو طاقت ور قوتوں کے کنٹرول میں لانا ہے۔ اس کھیل کو یقینی بنانا حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔ اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے مجوزہ ’’آئینی پیکیج‘‘ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ اتوارکے دن پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا مگر حکومتی کھیل میں مولانا فضل الرحمٰن نے بڑی رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ اس لیے آخری اطلاعات کے مطابق آئینی ترمیم کے معاملے میں حکومت کو فوری طور پر سرنڈر کرنا پڑگیا ہے اور یہ معاملہ دیگر سیاسی اور غیر سیاسی فریقین کے ساتھ مشاورت کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اصل میں حکومت سمجھتی تھی کہ وہ اپنی طاقت اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے آئینی ترامیم کو آسانی سے ممکن بناسکے گی۔ اصل مسئلہ مولانا فضل الرحمٰن کا تھا، اور حکومت سمجھتی تھی کہ اوّل تو وہ مولانا فضل الرحمٰن کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر راضی کرلے گی، اور اگر کہیں مشکل ہوگی تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اس کھیل میں کامیابی کو یقینی بنالیا جائے گا۔ مگر لگتا ہے کہ حالات کی سنگینی کو مولانا فضل الرحمٰن نے خوب سمجھا اور وہ کچھ کرنے سے گریز کیا جو حکومت چاہتی تھی۔ مولانا کے ذہن میں پہلے سے ہی رنجش تھی کہ اُن کے ساتھ اِس حکومت نے اقتدار کی بندر بانٹ میں وہ سلوک نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس لیے اب انہوں نے حکومت کو خاصا مشکل ٹائم دیا ہوا ہے۔

یہ جو آئینی پیکیج ہے اس کا مقصد عدالتی نظام کو کنٹرول کرنا ہے جس میں ایک نئی آئینی عدالت کی تشکیل، چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار اپنی مرضی اور منشا کے مطابق وزیراعظم کو دینا، ججوں کو ایک سے دوسرے صوبے میں منتقل کرنا، ججوں کی سینیارٹی کو نظرانداز کرنا اور چیف جسٹس کی مدت میں توسیع کرنے کے لیے عمر کی حد بڑھانا، فوجی عدالتوں میں ترامیم جن کے تحت ان مقدمات میں سزا یافتہ کو سپریم کورٹ میں اپیل کے حق سے محروم کرنا، سیاسی جماعت پر پابندی پر سپریم کورٹ کی منظوری کا حق ختم کرنا جیسے امور شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جو بل پارلیمنٹ میں آئینی پیکیج کے نام پر پیش کیا جارہا تھا اس کا ماخذ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا باہمی گٹھ جوڑ ہے۔ یہ دستوری پیکیج نہ تو سیاسی جماعتوں کی اختراع ہے اور نہ ہی اس کا ماخذ ہماری پارلیمنٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آئینی پیکیج کو پراسرار رکھا گیا۔ اسے نہ قانون کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کیا گیا اور نہ ہی پارلیمنٹ سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں میں پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ وزیر قانون بھی اس پیکیج سے لاعلم تھے، اور رات کی تاریکی میں اس بل کی منظوری یا قانون سازی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھی۔ ایک ہی دن میں ترامیم کو پیش کرنا اور بغیر کسی بحث کے ان کی منظوری کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ پس ِپردہ کچھ نہ کچھ کھیل تھا جسے چھپانے کی کوشش ہر سطح پر کی جارہی تھی۔ بنیادی طور پر حکومت اگلے تین برس کے لیے عدلیہ کو اپنے مفاد میں کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور ایک آئینی عدالت کے قیام کی مدد سے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس فائز عیسیٰ کو ہی اگلے تین برس کے لیے آئینی عدالت کا سربراہ بنانا چاہتی ہے۔ اس آئینی عدالت کے سربراہ کی مدت تین برس ہوگی۔ یہی وہ کھیل ہے جو کئی ماہ سے زیربحث تھا کہ حکومت اسی نظام کو آگے لے کر جانا چاہتی ہے جس کی مدد سے اس حکومت کا سیاسی بندوبست کیا گیا تھا۔ اس میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر سرفہرست ہیں، اور اس عمل سے اسٹیبلشمنٹ میں موجود لوگوں کو ایکسٹینشن مل جائے گی۔ کیونکہ حکمرانوں کو ڈر ہے کہ اگر آئینی عدالت کا قیام عمل میں نہ لایا گیا تو نئے آنے والے چیف جسٹس منصور علی شاہ 8فروری کے انتخابات کو بنیاد بناکر ان کی حکومت کو ختم کرسکتے ہیں، اور اس خدشے کا اظہار خواجہ آصف سمیت حکومت کے کئی وزرا پہلے ہی کرچکے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں اس پر اتفاق ہے کہ عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہیں، اس لیے قانونی بنیادوں پر آئینی ترامیم کی مدد سے ایک طرف عمران خان کا راستہ روکا جائے اور دوسری طرف اقتدار پر اپنی گرفت کو اور زیادہ مضبوط کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کو تو چھوڑیں خود پیپلز پارٹی کا اپنا کردار اس کھیل میں خاصا غیر جمہوری رہا، اور اس نے بھی اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے کھیل تک خود کو محدود کرلیا ہے۔ اب اس ترمیم کے مؤخر ہونے پر پیپلزپارٹی تمام جماعتوں کی مشاورت سے اپنا آئینی پیکیج لانے کی بات کررہی ہے، اور مولانا کو بھی راضی کرنے کی کوشش میں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اوّل تو موجودہ حالات میں اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اِس وقت اس حکمران ٹولے کے ساتھ کھڑے ہونے سے ان کو سیاسی نقصان زیادہ ہوگا۔ لیکن اگر اقتدار سے جڑی اچھی سیاسی آفر دی جائیں تو مولانا بھی حکومت کے لیے سیاسی سطح پر راستہ نکال سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے پاس اقتدار کے کھیل کے جو آپشن موجود ہیں اُن میں کے پی کے کی گورنرشپ، بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ یا گورنرشپ، دو نئے سینیٹرز کے لیے حمایت، الیکشن ٹربیونل میں موجود اپنے بیٹے کے کیس میں حمایت، اور خود کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنوانے جیسے امور شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو معلوم ہے کہ اگر مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی سمیت اسٹیبلشمنٹ کو آئین میں ترامیم کروانی ہیں تو یہ ان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا سیاسی دربار سجا ہوا ہے جہاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے وزیر داخلہ محسن نقوی بھی موجود ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اپنی سیاسی بقا کے لیے ترامیم کی منظوری کو یقینی بنایا جائے گا اور کچھ وقت کے بعد دوبارہ لنگر لنگوٹ کس کر پارلیمنٹ سے ان ترامیم کو ہر صورت منظور کروایا جائے گا۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ آئینی ترامیم کا یہ کھیل ختم نہیں ہوا بلکہ مزید جوڑ توڑ کے ساتھ جاری رہے گا۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے فیصل واوڈا نے اسٹیبلشمنٹ کا ہی ایک پیغام حکومت کو دیا ہے کہ وہ اس کھیل میں نااہل اور نکمی ثابت ہوئی ہے، اور اس نے اپنے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔

دوسری طرف حکومت کے عزائم کے خلاف وکلا برادری میں خاصا سخت ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ چیف جسٹس کے حامی حامد خان اور منیر اے ملک نے بھی موجودہ چیف جسٹس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل سمیت صوبائی اور ضلعی سطح پر وکلا تنظیموں نے 19ستمبر سے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ آئینی ترامیم کے اس پیکیج کو اعلیٰ عدالت میں بھی چیلنج کردیا گیا ہے۔ اس لیے اب یہ جنگ ایک طرف حکومت اور عدلیہ یا بار اور بینچ کے درمیان ہوگی، تو دوسری طرف سیاسی میدان میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی بھی آئینی ترامیم کے اس پیکیج کی مخالفت کررہی ہیں۔ خود میڈیا کے ایک بڑے حلقے میں اس آئینی پیکیج کی شدید مخالفت کی جارہی ہے اور اسے عدالتی نظام پر حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اوّل تو اب ان آئینی ترامیم کی منظوری موجودہ حالات میں ممکن نہیں، اور اگر مختلف معاملات کو بلڈوز کرکے آئینی ترامیم کو منظور کروا بھی لیا گیا تو اسے عدالتوں کی جانب سے مسترد کردیا جائے گا، اور اس کے نتیجے میں حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہوں گی۔ یہ ماضی جیسی صورتِ حال ہوگی جب فوج کے اُس وقت کے سربراہ جنرل پرویزمشرف اور وکلا یا عدلیہ کے درمیان ٹکرائو دیکھنے کو ملا تھا، کیونکہ وکلا تنظیموں سمیت بہت سے ماہرینِ قانون کے بقول سپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار کو کم کرنا آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوگی جو ان کو کسی بھی صورت قبول نہیں، اور جو کچھ حکومت کرنے جارہی ہے اس کا مقصد عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں بلکہ فردِ واحد یا چند افراد کو تحفظ دے کر عدالتی نظام کو اپنے تابع کرنا ہے جسے کسی بھی صورت قانون سے جڑے افراد یا ادارے قبول نہیں کریں گے۔ قانون کے بعض بڑے ناموں نے موجودہ چیف جسٹس کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ خود ہی بطور چیف جسٹس قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیں وگرنہ اس کھیل میں شمولیت سے اُن کی اپنی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوگی۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، یا حکومت کا مؤقف ہے کہ آئین میں ترامیم کرنا یا نئی ترامیم لانا پارلیمنٹ کا حق ہے جسے ہر سطح پر قبول کیا جانا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف جب سپریم کورٹ کا ایک بڑا بینچ مخصوص نشستوں کے معاملے پر اکثریتی بنیاد پر ایک ایسا فیصلہ کرتا ہے جو حکومت کے خلاف ہے تو اسے یہی جمہوری لوگ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کا مقصد آئین و قانون کے برعکس اپنی ذاتی خواہشات پر مبنی ایجنڈے کو آگے لے کر جانا ہے۔ آئینی ترامیم کی منظوری کے اس پہلے رائونڈ میں حکمران اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اورحکومت کو یہ اتنا بڑا سیاسی دھچکا لگا ہے کہ اُس کی پچاس فیصد رٹ ختم ہوگئی ہے، اور خود مسلم لیگ ن کے اندر سے آوازیں سامنے آرہی ہیںکہ یہ جو کچھ بھی ہوا اس کے سیاسی نقصان کی بھاری قیمت مسلم لیگ ن کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔ مسلم لیگ ن کے بعض لوگوں کے بقول ہم نے جس عجلت میں اور پیپلزپارٹی کو اپنا سہارا بناکر یہ کھیل کھیلا ہے اس میں ہمیں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ملا۔ مسلم لیگ ن میں یہ آوازیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ اب پیپلز پارٹی آئینی ترامیم کا دوسرا پیکیج لاکر ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہی ہے اور ہم نے خودکو پیپلز پارٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے جو پارٹی کی ناکامی ہے۔ اسی طرح یہ تاثر بھی عام ہے کہ آئینی ترامیم کا جو پیکیج ہے اس کا حتمی ڈرافٹ بھی سیاسی لوگوں نے تیار نہیں کیا بلکہ ان پر مسلط کیاگیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ حکومتی سطح پر کسی بھی جماعت کو ان مجوزہ ترامیم کے بارے میں کوئی معلومات یا آگاہی نہیں تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پارلیمان یا عدلیہ کی بالادستی کی جنگ نہیں بلکہ حکمران ٹولے کی جنگ ہے۔ کیونکہ حکومت خود کو کمزور محسوس کررہی ہے اور اسے ڈر ہے کہ اس کے اقتدار کو عدالتی فیصلے کے تحت ختم کیا جاسکتا ہے تو وہ قانون اور آئینی ترامیم کو بنیاد بناکر ایک بڑی سیاسی اور قانونی مہم جوئی میں شریک ہے، یا اس کھیل میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کے کھیل کا حصہ ہے۔ اس کھیل میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ساری سیاسی تجربہ کاری کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور محسن نقوی یا وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی مولانا کو رام کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں بھی ان آئینی ترامیم پر حکومت کی سبکی پر تحفظات سامنے آئے ہیں۔ خود نوازشریف بھی شہبازشریف سے عملاً نالاں ہوکر لاہور واپس آگئے تھے اور بعض مسلم لیگیوں کے بقول حکومتی حکمت عملی کی وجہ سے خود نوازشریف کو سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں اس بات پر بھی تشویش نظر آتی ہے کہ خود حکومت کے اندر سے کچھ لوگوں نے عوام میں یہ تاثر دیا کہ یہ آئینی ترامیم ہمارا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا ہے جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ اسی لیے جو ناکامی سامنے آئی ہے اس پر محض حکومت کو نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔