یہ بات شاید عجیب سی لگے، کہ خواب دکھانا کون سکھاتا ہے؟ خواب تو خودبخود آنکھوں میں اتر آتے ہیں… رنگین، بلیک اینڈ وائٹ اور کبھی بلر سے خواب۔ یہ بات مگر شاید ان عام خوابوں سے کچھ بڑی ہے، رات کے بجائے دن کے خواب بلکہ زندگی کے خوابوں سے متعلق۔ ایک یورپی مصنف کی کتاب پڑھی، اس نے مطالعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک دلچسپ فقرہ لکھا کہ جو لوگ کتابیں نہیں پڑھتے، مجھے حیرت ہے کہ وہ زندگی کس طرح گزار رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا: ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی کتابیں منتخب کرے۔ اپنی سوچ اور مزاج کے مطابق ہی کتابیں چنی جاتی ہیں، مگر مطالعے کا کچھ فیصد حصہ لازمی فکشن پر مشتمل ہونا چاہیے۔ کہانیاں، ناول اور کچھ نہ کچھ شاعری ضرور پڑھنی چاہیے کہ یہ انسان کو اندر سے سافٹ بناتی اور اسے خواب دیکھنا سکھاتی ہیں۔ فکشن پڑھے بغیر زندگی کے بہت سے محسوسات سے آگہی ممکن نہیں۔ وہ کتاب پڑھنے کے بعد میں سوچتا رہا کہ اس پروفیشنل ٹرینر اور لائف کوچ نے کہانیاں پڑھنے پر کیوں زور دیا؟ فکشن اس کے نزدیک ہر ایک کے مطالعے کا جزو کیوں ہونا چاہیے؟ پھر یہی بات سمجھ میں آئی کہ فکشن خواب دیکھنا سکھاتا ہے۔ ناممکن کو ممکن بنانے، لاحاصل کو حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ جب تک کوئی سپنا ہی نہیں دیکھے گا، وہ اسے پورا کرنے کی کوشش اور جدوجہد کیسے کرے گا؟ ورک مینجمنٹ اور سیلف ہیلپ کی کتابیں اُس وقت تک بے کار ہیں، جب تک اپنا آپ یا اپنے اردگرد بدلنے کی خواہش ہی موجود نہ ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر والدین اپنے بچوں کو فکشن پڑھنے سے منع کرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ بچے جنوں، بھوتوں، پریوں اور سپر ہیروز والی بے کار کہانیاں پڑھ کر اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔ یہ بات مگر وہ نہیں جانتے کہ ان بظاہر بے کار نظر آنے والی کہانیوں کے ذریعے بچوں کے اندر ایسا بہت کچھ شامل ہورہا ہے جو عمر بھر ان کے ساتھ رہے گا، مطالعے جیسی مفید عادت وہ ڈال رہے ہیں جس کے ذریعے ان کی شخصیت کا ارتقا ہوتا رہے گا۔ میرے جیسے لوگوں کی زندگیوں میں کتابوں کا بہت اہم حصہ رہا ہے، انہوں نے ایسی مسرت و انبساط عطا کیا، جن کی سرشاری اور لذت زندگی بھر ساتھ رہے گی۔ مجھے یاد ہے کہ چھ سات سال کی عمر میں ایک دیوار سے گرنے کے باعث میرا بایاں بازو فریکچر ہوگیا، چند ہفتوں کے لیے پلستر باندھ دیا گیا اور مجھے وہ تمام عرصہ گھر میں گزارنا پڑا۔ مجھے بستر تک مقید رکھنے کی خواہش سے والد صاحب ایک روز اردو کہانیوں کی چند کتابیں لے آئے۔ یہ ٹارزن اور عمرو عیار کی کہانیاں تھیں۔ اردو ریڈنگ میری بری نہیں تھی، انہیں پڑھنا شروع کیا تو پھر کہانی کے سحر نے جکڑ لیا۔ اگلے روز مزید کہانیوں کی فرمائش کردی، جو پوری کردی گئی۔ وہ فریکچر اور پلستر میرے لیے ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول گئے۔ رفتہ رفتہ کہانیوں کی یہ پتلی کتابیں رسالوں، ڈائجسٹوں، پہلے ابن صفی پھر مظہر کلیم کی عمران سیریز میں تبدیل ہوتی گئیں۔ جاسوسی ادب، الف لیلہ، طلسم ہوشربا سے آگے بڑھے تو ہلکے پھلکے شگفتہ ادب سے واسطہ پڑا، اور پھر نان فکشن سنجیدہ کتابیں۔ اس سب پر پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں۔ کتابوں کے حوالے سے مشہور برطانوی ادیب نیل گیمن کا کبھی نہ بھولنے والا ایک لیکچر ہے۔ اس لیکچر نے کئی سال پہلے دنیا بھر کے علمی، ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ آج تک اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ نیل گیمن کی گفتگوئوں کے کئی ویڈیو کلپس بھی یوٹیوب پر رکھے ہیں۔ نیل گیمن نے فکشن پڑھنے پر زور دیتے ہوئے کہا ’’فکشن کے دو فائدے ہیں، یہ آپ کو پڑھنے کا عادی بناتا ہے، آپ نئے لفظوں سے روشناس ہوتے ہیں، آپ کو نئے خیال ملتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی دوسروں کے ساتھ موافقت یا ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ آپ پڑھتے ہوئے اپنے تخیل کی مدد سے ایک دنیا تخلیق کرتے ہیں، خود چیزوں کو محسوس کرتے ہیں، ان جگہوں کو دیکھتے ہیں جہاں شاید کبھی نہ جا پاتے۔ ہر کردار میں آپ کو اپنے وجود کا کچھ حصہ دکھائی دیتا ہے۔ جب آپ اپنی دنیا میں واپس آتے ہیں تو بدل چکے ہوتے ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے دنیا کے بارے میں ایک اور اہم چیز بھی سیکھ لیتے ہیں کہ دنیا کو بدلا جا سکتا ہے۔‘‘ نیل گیمن بعض بڑی دلچسپ مثالیں بھی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2007ء میں چین کی تاریخ کا پہلا سائنس فکشن کنونشن ہوا۔ میں نے چینیوں سے وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ ہم چینی نقال اچھے ہیں، دوسروں کے آئیڈیاز پر کام کرکے شاندار چیزیں بنا سکتے ہیں، مگر کوئی نیا آئیڈیا پیدا نہیں کرسکتے، کچھ غیر معمولی ایجاد نہیں کر پاتے، ہم نے دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ایک ٹیم بھیجی جس نے تحقیق کرکے کھوج لگایا کہ دنیا کے بڑے بڑے ایجاد کرنے والے بچپن میں سائنس فکشن پڑھا کرتے تھے۔ یوں ہم نے سائنس فکشن پر فوکس کیا ہے۔ نیل گیمن کے خیال میں بچوں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں کہ ان کے لیے دلچسپ کتابیں نہ لکھی جائیں، پھر یہ کتابیں ان بچوں تک پہنچنی چاہئیں، اس کے لیے لائبریریوں کی ضرورت ہے، جو حکومتیں رقم بچانے کے لیے لائبریریاں بند کررہی ہیں، وہ اپنا آج بچانے کے لیے اپنا مستقبل دائو پر لگا رہی ہیں، ایسے دروازے بند کررہی ہیں جن کا کھلا رہنا ضروری ہے۔ برطانوی مصنف نے ہم سب کو ایک مشورہ بھی دیا ہے ’’اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر انہیں کتابیں پڑھ کر سنائیں۔ وہ کتابیں پڑھیں جو انہیں پسند ہوں۔ وہ کہانیاں جن سے آپ اکتا چکے ہوں، بچوں کے لیے نئی ہیں۔ کہانی سنانے میں اپنی آواز کے اتار چڑھائو سے مدد لیں، اسے دلچسپ بنانا سکھائیں۔ اگر بچے خود پڑھنا سیکھ چکے ہوں، تب بھی آپ انہیں خود پڑھ کر کہانیاں سکھائیں، اس طرح آپ اپنے بچوں کے قریب آئیں گے۔ بڑوں، بچوں، لکھنے والوں اور پڑھنے والوں سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواب دیکھیں۔ ہم انفرادی طور پر بہت کچھ کرسکتے ہیں، مگر یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم حالات بدلنے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ آخر کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ زمین پر بیٹھنے سے زیادہ بہتر کرسی پر بیٹھنا ہے، اس کے ذہن میں کرہ ارض کی پہلی کرسی آئی اور پھر آج کرسی کا زندگیوں میں عمل دخل سب کے سامنے ہے۔‘‘ نیل گیمن نے اپنے اس مشہور لیکچر کا اختتام آئن اسٹائن کے ایک خوبصورت اور نہایت موثر قول پر کیا۔ جدید دور کے سب سے بڑے سائنس دان سے جب پوچھا گیا کہ بچوں کو ذہین کیسے بنایا جائے؟ اُس کا جواب تھا: اپنے بچوں کو پریوں کی کہانیاں سنائیں، اگر اپنے بچوں کو اور زیادہ ذہین بنانا ہے تو انہیں اور زیادہ پریوں کی کہانیاں سنائیں۔
(محمد عامر خاکوانی۔ روزنامہ 92… 12ستمبر2024ء)