آئین کسی بھی مملکت کے لیے اہم ترین دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، ایک درجے میں اسے تقدس کا مقام بھی حاصل ہے۔ مصورِ پاکستان، شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے اگرچہ فرمایا ہے کہ:
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں
پیامبرِ انقلاب کے اس شعر کی روشنی میں اگرچہ حالات اور وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئین میں ترمیم شجرِ ممنوعہ تو نہیں بلکہ عین مطلوب و محبوب ہے، مگر بہرحال نہایت سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی معاملہ ضرور ہے، اور اس کے بغیر محبوب نہیں بلکہ معیوب ہے۔ تاہم پاکستان میں یہ کام جس غیر سنجیدہ انداز میں روبہ عمل لایا جاتا ہے اس کا اندازہ ہفتۂ گزشتہ میں وطنِ عزیز کی مجلسِ شوریٰ میں لگائے گئے تماشے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یہ جمہوری عمل کے نام پر ایک کھلی دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں۔
اسے وطنِ عزیز کی بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ قیام پاکستان کے بعد ضرورت تھی کہ فوری طور پر نئی مملکت کا آئین تشکیل پاتا اور پھر اس آئین کی روشنی میں مملکت کی تعمیر کا کام شروع ہوجاتا۔ یہ کام اس لیے بھی ضروری تھا کہ نئی مملکت کا جو تصور پیش کیا گیا تھا وہ پہلے سے موجود نظریۂ ریاست و حکومت کے مقابل انقلابی نوعیت کا تھا، پہلی ریاست ایک غلام ریاست تھی جب کہ نئی ریاست کو ایک اسلامی جمہوری مملکت کے طور پر وجود پذیر ہونا تھا، مگر اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی کہ قیامِ پاکستان سے ربع صدی بعد تک قوم کسی آئین پر متفق و متحد نہ ہوسکی۔ اور یہ نوآزاد مملکت سرزمینِ بے آئین اور طالع آزمائوں کا تختۂ مشق ہی بنی رہی۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کے صرف چوتھائی صدی بعد اس مملکت کے دولخت ہونے کی جو نمایاں وجوہ سامنے آئیں اُن میں ایک اہم سبب آئین کا تشکیل نہ پا سکنا بھی تھا۔ چنانچہ سقوطِ مشرقی پاکستان یا قیامِ بنگلہ دیش کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے لیے ایک باضابطہ اور متفقہ آئین لازمی ضرورت قرار پایا، اور الحمدللہ کہ قوم کے نمائندے طویل غور و خوض کے بعد آج کل ملک میں نافذ 1973ء کے آئین پر متفق ہوگئے۔ اپنے نفاذ سے آج تک یہ آئین پاکستانی قوم کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ کی حیثیت حاصل کرچکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس آئین کی بہت سی شقیں آج بھی عمل درآمد کی منتظر ہیں مثلاً نظامِ مملکت کو قرآن و سنت کے تابع بنانا، خصوصاً ملک کے معاشی نظام کو اسلام کے زریں اصولوں کی روشنی میں مرتب کرنا اور سود جیسی لعنت سے قوم کو نجات دلانا، اور دورِ غلامی کی یادگار انگریزی زبان کی جگہ اردو کو قومی، سرکاری اور دفتری و عدالتی زبان کی حیثیت سے نافذ کرنا… اس ضمن میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے دوٹوک اور واضح فیصلوں کے باوجود عملی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے، جو یقیناً اہلِ فکر و نظر اور ماہرینِ آئین و قانون کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
آئین میں ترامیم کا معاملہ بھی خاصا پیچیدہ رہا ہے۔ آئین کی تشکیل کا کریڈٹ لینے کے دعویدار ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ اقتدار ہی میں اس آئین کے نفاذ کے چند برس کے اندر نصف درجن سے زائد ترامیم متعارف کرا دی تھیں، جس کے بعد سے اب تک کُل پچیس ترامیم مختلف مواقع پر اس آئین میں کی جا چکی ہیں اور اب چھبیسویں ترمیم کا مرحلہ درپیش ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ جس بے تدبیری کا مظاہرہ اِس مرتبہ حکمران اتحاد کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے، جس سبکی کا سامنا چھبیسویں ترمیم منظور کرانے میں ناکامی پر حکومت کو کرنا پڑا ہے، اور جس قدر بھد اِس مرتبہ اربابِ اقتدار و اختیار کی اُڑی ہے ماضی میں اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔
چھبیسویں آئینی ترمیم پر کام کا آغاز بظاہر اس یقین اور اعتماد کے ساتھ کیا گیا کہ حزبِ اقتدار کے پاس آئین میں ترمیم کی خاطر درکار مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے ارکان کی مطلوبہ تعداد دستیاب ہے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان بار بار ممبر پورے ہونے کے دعوے کرتے رہے، ملاقاتوں پہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، اور پھر اسی صورتِ حال میں مجلسِ شوریٰ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس معمول کی چھٹی کے روز طلب بھی کرلیے گئے، تاہم جب حالات کی نزاکت کا احساس ہوا تو یہ اجلاس ملتوی کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا جو بالآخر حکومت کے اعترافِ ناکامی پر منتج ہوا۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئینی ترمیم یا مجوزہ آئینی پیکیج… جو کچھ بھی یہ تھا… کا مصدقہ مسودہ مجلسِ شوریٰ میں پیش کیا جاتا اور ارکانِ مجلس شوریٰ، آئینی و قانونی ماہرین اور اہلِ فکر و دانش کو موقع دیا جاتا کہ وہ اس کے حسن و قبح پر بحث کرکے بہتری کے لیے تجاویز دیں، مگر معلوم نہیں کیوں حکومت اسے خفیہ رکھ کر آناً فاناً اس کو منظور کروانے پر مُصر رہی، حد تو یہ تھی کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس اس آئینی پیکیج کی منظوری کے لیے طلب کرلیا گیا، مگر کابینہ کا کوئی رکن اس پیکیج کی مستند دستاویز آج تک دیکھ نہیں سکا۔ اس حکومتی طرزعمل نے شکوک و شبہات میں اضافہ کیا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے… چنانچہ بعض لوگوں کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ خود اعلیٰ حکومتی ذمہ داران بھی اس آئینی ترمیم کے حقائق اور مندرجات سے ناواقف ہیں، انہیں بس یہ ہدایت ہے کہ جو بھی دستاویز حکومت سازوں کی طرف سے موصول ہو، اُس پر انہیں مہرِ تصدیق ثبت کرنا ہے۔ حکومتی ذمہ داران کا اب تک کا طرزعمل بھی اسی امر کی تائید و توثیق کررہا ہے، تاہم اب بہت سے ارکان یہ سوال ضرور اٹھا رہے ہیں کہ ہم کب تک نامعلوم اور نادیدہ قوتوں کی ہدایات پر آنکھیں بند کرکے عمل کرتے اور شرمساری سے دوچار ہوتے رہیں گے…(حامد ریاض ڈوگر)