بندگی کی روح اور حقیقت

حضرت ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
”اس گھر کی مثال جس میں اللہ عزوجل کو یاد کیا جاتا، اور اس گھر کی مثال جس میں
اللہ عزوجل کو یادنہیں کیا جاتا زندہ اور مُردہ کی طرح ہے“۔
(مسلم ،کتاب صَلوٰۃ الْمسَافِر و قصرِھَا )

حضرت عبدالرحمٰن بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ”جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے وہ اس کو (ہر ناگہانی آفت، شیطان کی فتنہ انگیزیوں سے) کافی ہوں گی“۔

(مسلم ، کتاب فضائل القرآن )
اللہ کی بندگی کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ فقر‘ حاجت روی اور محتاجی کا یہ تعلق صرف ایک ذات سے‘ یعنی اللہ سے ہو۔ انسان صرف اُسی کی بندگی کرے، نہ کہ کسی اور کی۔ زمین کے زلزلے سے گھبرا کر وہ زمین کی بندگی نہ کرے۔ نہ سورج‘ چاند‘ ستاروں کی پرستش کرے‘ نہ ہوائوں اور بارش کی، اور نہ اپنی یا اپنے جیسے کسی انسان کی پوجا کرے، بلکہ وہ یہ سمجھے کہ جو کچھ بھی مل سکتا ہے صرف اللہ ہی سے مل سکتا ہے، اور سارے اختیارات صرف اُسی کے پاس ہیں۔ ہر چیز اس کے خزانے میں موجود ہے۔ اس کے سوا کسی کے پاس ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں ہے‘ نہ کچھ دینے کے لیے اور نہ کچھ چھیننے کے لیے۔ زندگی و موت‘ نفع و نقصان اور خیروشر‘ سب اس کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہیں۔ جس نے اس بات کو سمجھ لیا اور اس پر یقین کر لیا‘ اور پھر اس پر اپنی زندگی کی تعمیر کی‘ صرف اُسی کی بندگی مکمل ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دعا کے انداز میں اپنے ساتھ تعلق رکھنے کی تعلیم دی اور اس تعلیم کو بار بار دہرانے کی بھی ہدایت کی اور حکم دیا کہ یوں کہو: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (الفاتحہ 1:4) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ دراصل یہی بندگی کی روح اور بندگی کی معراج ہے۔

سورۃ الفاتحہ کی اس آیت کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اَلدُّعَائُ ھُوَ العِبَادَۃُ ،’’مانگنا ہی تو بندگی ہے‘‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا: اَلدُّعَائُ مُخُّ العِبَادَۃِ،یعنی مانگنا عبادت کا مغز‘ اس کی روح اور اس کا جوہر ہے۔ لہٰذا جو اللہ کا نام لے‘ اس کا جھنڈا اٹھائے اور طلب کی نسبت اللہ کے علاوہ دوسروں سے بھی رکھے تو وہ توحید کے راستے میں نقص‘ کمزوری اور ضعف کا شکار ہے۔ توحید کے مطابق اللہ کی بندگی کامل اس کی ہے جو خوف اور طمع کی نسبت صرف اللہ سے رکھے۔ ڈرے تو صرف اُسی سے ڈرے‘ اور اگر کوئی امید ہو تو صرف اسی سے ہو۔

یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ 16:32)
اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔

گویا وہ خوف اور ڈر سے، لالچ اور طمع سے اور امید و حاجت روی سے اگر مانگتے ہیں یا پکارتے ہیں تو صرف اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے وہ سارے انعامات ہیں جو نہ انسان نے دیکھے‘ نہ سنے اور نہ وہ تصور کرسکتا ہے۔ اسلام میں بندگی و محتاجی اور فقر کی یہی روح اور حقیقت ہے۔

اللہ کی بندگی کی روح یہی ہے کہ ہم اُس کے آگے ہاتھ پھیلائیں‘ اسی کے در پر بھکاری بن کر جائیں‘ اسی سے مانگیں‘ اور یہ سمجھیں کہ جو کچھ مل سکتا ہے صرف اُسی سے مل سکتا ہے‘ اور اگر کوئی چھین سکتا ہے تو صرف وہی چھین سکتا ہے۔

ایک طویل حدیث قدسی میں جو حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت کی گئی ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم سب بھوکے ہو‘ بھوکے رہو گے سوائے اُس کے جس کو میں کھانا کھلائوں۔ تم سب بے لباس رہو گے سوائے اُس کے جس کو میں کپڑا پہنائوں۔ تم سب گمراہ رہو گے سوائے اُس کے جس کو میں ہدایت دوں۔ تم دن رات گناہ کرتے ہو‘ اور مجھ سے معافی مانگتے ہو تو میں معاف کردیتا ہوں۔ پھر فرمایا کہ تم مجھ سے ہدایت مانگو۔

گویا محتاجی صرف دنیا کی چیزوں کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ محتاجی ہر چیز کے لیے ہے۔ زندگی کیسے بسر کریں؟ سیاست کیسے ہو؟ معیشت کیسی ہو؟ یہ بھی محتاجی میں شامل ہے۔ یہ سمجھنا کہ یہ رہنمائی کہیں اور سے مل سکتی ہے‘ یہ بھی خلافِ توحید ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا جارہا ہے کہ: تم مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمھیں ہدایت دوں گا، مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھلائوں گا، مجھ سے کپڑا مانگو میں تمھیں پہنائوں گا، مجھ سے معافی مانگو میں تمھیں معاف کردوں گا۔

پھر فرمایا:اس سے میری کوئی غرض نہیں ہے۔ ’’سارے انسان‘ تمھارے پہلے‘ اور بعد میں آنے والے جِن اور مخلوق سب مل کر انتہائی متقی ہوجائیں تو میری خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اور اگر سب کے سب مل کر بدترین نافرمان ہوجائیں‘ تب بھی میری خدائی میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘ اور سب کے سب کسی میدان میں جمع ہو کے جو مانگنا ہے وہ مانگ لیں‘ جو دل میں آئے مانگ لیں‘ اور میں وہ سب دے دوں تو میرے خزانوں میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوگی کہ سوئی سمندر میں ڈال کر نکال لی جائے (تو اس کے سرے پر جو پانی لگا رہ جاتا ہے‘ اس کے برابر) اے میرے بندو! تم مجھ کو چھوڑ کر کس کے پاس جاتے ہو! (مشکوٰۃ المصابیح‘ باب الاستغفار والتوبہ)

وہ ہمیں بلاتا ہے‘ پکارتا ہے۔ غرض تو ہماری ہے‘ محتاج تو ہم ہیں۔ وہ تو غنی ہے‘ ہم فقیر ہیں۔ اگر اسے خدا کی شان میں گستاخی نہ سمجھا جائے تو وہ ہم کو ایسے پکارتا ہے اور بار بار پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے مانگو‘ نعوذ باللہ گویا وہ محتاج اور فقیر ہو اور ہم غنی ہوں اور ہمیں کوئی پروا نہ ہو۔ ہم رات سے صبح‘ صبح سے رات کریں اور بھول کر بھی نہ سوچیں کہ اس سے ملنا ہے‘ اس سے مانگنا ہے۔ مگر وہ ہے کہ جو بار بار پکارتا ہے کہ آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘ تاکہ میں تم کو معاف کردوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: جو اللہ سے سوال نہیں کرتا‘ اللہ اُس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے‘ غصہ کرتا ہے جو اس سے سوال نہیں کرتا اور مانگتا نہیں ہے۔ بندگی‘ محتاجی اور فقر یہی تو ہے کہ اس نے ہم کو پیدا کیا ہے‘ وہ ہمارا خالق اور ہم اس کی مخلوق ہیں‘ اور مخلوق ہونے کے ناتے ہم اپنے ارادے سے اس کے در پر جائیں‘ اسی کے بھکاری بن کر جائیں اور اسی سے مانگیں۔