مولانا گلزار احمد مظاہری اور تحفظِ ختم نبوت

برصغیر پاک و ہند پر اپنے غاصبانہ قبضے کے دوران انگریزوں نے کئی مذموم مقاصد پورے کرنے کے لیے اپنے ایک چہیتے بدبخت، کذاب انسان مرزا غلام احمد قادیانی کو ’’نبی‘‘ بنا کر اُمتِ مسلمہ میں ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھی۔ اس فتنے کی بیخ کنی کے لیے علمائے اسلام نے بالتوفیقِ الٰہی بھرپور کاوشیں کیں، کررہے ہیںاور اِن شاء اللہ کرتے رہیں گے۔ قادیانیت کے اس فتنے نے انگریزی دورِ حکومت میں بھی اور اس کے بعد بھی اپنے غیراسلامی نظریات کو پھیلانے کے لیے کئی مرتبہ نازیبا ہتھکنڈے استعمال کیے، جس کا اُس دور کے علمائے کرام اور عوام الناس نے بہترین انداز میں جواب دیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد مختلف مواقع کے علاوہ 1953ء میں اور پھر اُس کے بعد 1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں جہاں تمام مکاتبِِ فکر کے علما نے اس دینی فریضے کو سرانجام دینے میں کسی فروگزاشت سے کام نہ لیا، وہاں مولانا گلزار احمد مظاہری کا نامِ نامی بھی صاف نظر آتا ہے۔ آپ کا تعلق بھیرہ (ضلع سرگودھا) کے پراچہ خاندان سے ہے۔ مولانا مظاہری 10 فروری 1922ء کو حاجی عبدالمجید پراچہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم، سہارنپور سے دینی تعلیم پائی، جس کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ ’مظاہری‘ کا لفظ لگالیا۔ آپ جماعت اسلامی پاکستان کے بنیادی رہنمائوں میں سے ہیں۔ جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے ناظم اعلیٰ اور علماء اکیڈمی، منصورہ لاہور کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ مولانا نے دیگر دینی، علمی اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ قادیانیت کے خلاف بھرپور حصہ لیا۔

مولانا مظاہری کا شمار اُن علمائے کرام میں ہوتا ہے جنھوں نے دینی تعلیم حاصل کرکے عوام الناس میں دینی تعلیمات پھیلانے کے لیے اپنی زندگیاں صرف کیں۔ آپ کے بارے میں معروف صحافی، ادیب، محقق اور روزنامہ ’’جرأت‘‘ کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی اپنی کتاب ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’مولانا گلزار احمد مظاہری علمائے دین کے اُس قافلے کے سالار ہیں جنہوں نے دینی علوم کی درس گاہوں سے قرآن و سنت کا علم حاصل کرکے اسے محض اپنے سینوں میں نہیں چھپائے رکھا بلکہ اپنی استطاعت و بساط سے بڑھ کر اللہ کی مخلوق تک پہنچا۔ مولانا گلزار احمد عنفوانِ شباب میں ہی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر اور فلسفے سے متاثر ہوئے اور پھر عمر بھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور نہ ہی ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ ان کے بڑے بیٹے اور جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ان کے چھوٹے بیٹے ہیں، اور ان کی زندگیوں میں بھی وہی رنگ ڈھنگ نمایاں ہے جو مولانا گلزار احمد مظاہری کا شیوہ تھا۔‘‘

مولانا گلزار احمد مظاہری نے فتنہ قادیانیت کے حوالے سے ہر میدان میں بھرپور خدمات انجام دیں۔ مولانا چونکہ بھیرہ سے تعلق رکھتے تھے اور مرزا قادیانی کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین بھی بھیرا سے تعلق رکھتا تھا، اس کی وجہ سے بھیرہ میں ’’قادیانیت‘‘ کے حوالے سے ماحول بہت سنگین تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مولانا مظاہری قادیانیوں کے خلاف ایک شمشیر برہنہ کے طور پر معروف ہوئے، انھوں نے بگویہ خاندان اور دیگر علما کے ساتھ مل اس غیر اسلامی فتنے کے خلاف بنیادی کردار ادا کیا۔ 1953ء کی تحریکِ ختم نبوت میں آپ چونکہ نمایاں طور پر کام کررہے تھے جس کی وجہ سے آپ کو قید کرکے شاہی قلعہ بھیجا گیا جہاں آپ پر بے پناہ تشدد بھی کیا گیا۔ لیکن ربّ العزت کی توفیق سے آپ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔

1970ء کے بعد مولانا نے جمعیت اتحاد العلماء کے ناظم اعلیٰ اور علماء اکیڈمی کا صدر ہونے کی حیثیت سے قادیانیت کا ہر موقع اور محاذ پر بھرپور تعاقب کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھی۔ تقریری، سیاسی اور دیگر سرگرمیوں کے علاوہ آپ نے تحریری طور پر قادیانیوں کے افکارو نظریات اور ان کے غیرشرعی معاملات سے عوام الناس و خواص کو آگاہ کرنے کے لیے مختصر مگر جامع انداز میں کتابچے شائع کرکے علماء اکیڈمی کے ذریعے پورے پاکستان میں تقسیم کیے۔ مختصر مگرجامع انداز میں لکھے جانے والے ان کتابچوں کی اہمیت کے پیش نظر عربی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر احسان حق حقی نے ان کو یکجا کرکے عربی میں ترجمے کے بعد ’’القادنیۃ‘‘ کے نام سے بیروت سے شائع کیا۔ ان کتابچوں کے نام درج ذیل ہیں: (1)قادیانی اقلیت کیوں؟ ،(2) مرزائیت اپنے آئینے میں، (3) قادیانیت،عدالت کے کٹہرے میں، (4) قادیانی اور کلمہ طیبہ، (5)قادیانی عزائم اور پاکستانی مسلمان، (6)قادیانی مسلمان کو کیا سمجھتے ہیں؟،(7) اسرائیل سے ربوہ تک، (8) غلام احمد قادیانی کی تحریفِ قرآن، (9)غلام احمد قادیانی کے کام اور دعوے، (10)سراپا غلام احمد قادیانی، (11) قادیانی آزادیِ کشمیر کے دشمن، (12) قادیانیوں کا اصل حقیقت سے فرار، (13)قادیانیوں کی سیاسی منزل۔

مولانا ’’قادیانیوں‘‘ کے خلاف مسلسل کام کررہے تھے۔ تحریک ختم ِنبوت 1974ء سے قبل ہی انھوں نے دیگر علمائے کرام کے ساتھ مل کر اُمتِ واحدہ کی مثال بنتے ہوئے پاکستان کے علاوہ یوکے میں بہت زیادہ ختمِ نبوت کانفرنسوں کا انعقاد کیا جو کہ بجائے خود ایک تاریخ ہے اور تحقیق ِمزید کی متقاضی بھی۔ 1974ء کی تحریک کے وقت آپ یوکے میں تھے لیکن آپ نے وہاں سے اپنا بہترین کردار ادا کرنا شروع کردیا، اور آپ کی وجہ سے ہی آپ کے بیٹے فرید احمد پراچہ نے جو اُس وقت پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر تھے، پاکستان میں اس تحریک میںدن رات حصہ لیتے ہوئے قادیانیوں کو اُن کی اصل منزل ’’کافر‘‘ تک پہنچانے میں بہترین کردار ادا کیا۔

مولانا گلزار احمد مظاہری نے اپنی وفات 10 ستمبر 1986ء تک اپنی دیگر تمام دینی، ملّی اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ تحفظ ِختم ِنبوت میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا۔ اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول فرمائے۔