شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال افغانستان اور وہاں رہنے والی اقوام کے جذبہ حریت اور علمی قابلیت سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں محمود غزنوی، شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی، خوشحال خان خٹک اور سید جمال الدین افغانی جیسی عبقری شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ”زبور عجم“ میں اقبال فرماتے ہیں:
فکر رنگینم کند نذر تهیدستان شرق
پارهٔ لعلی که دارم از بدخشان
حلقہ گرد من زنید ای پیکران آب و گل
آتشی در سینه دارم از نیاکان شما
اقبال نے جب بھی افغانستان کا تذکرہ کیا، انہوں نے لعلِ بدخشاں کا ذکر ضرور چھیڑا ہے۔ دریائے آمو (جیحوں) کے شمالی کنارے پر آباد بدخشاں ماوراء النہر کے اُن علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں زمانہ قدیم میں علم و عرفان کے مراکز ہوا کرتے تھے۔
آج ہم ایک ایسے لعلِ بدخشاں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو علومِ الٰہیہ، احادیث ِنبویہ کی اشاعت اور طالبانِ علومِ نبوت کی علمی سیرابی کے لیے دریائے آمو کی مانند تھے۔ تذکرہ ہے شیخ الحدیث مولانا محمد انور بدخشانی کا، جو اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے۔ انہوں نے 13 اگست کی شام کو 92 سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ 1932ء میں افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں پیدا ہوئے اور وفات کراچی میں ہوئی۔ یہ 92 سال ایک پورے دور کی کہانی ہے۔ یہ صرف افغانستان سے پاکستان کی طرف علمی ہجرت کی کہانی نہیں بلکہ حصولِ علم اور اس راہ میں پیش آنے والے کٹھن مراحل کی بھی ایک داستان ہے۔ علمِ دین کی تڑپ اور اس میں مہارتِ کاملہ ایک ایسا جذبہ تھا جس کے لیے آپ نے نہ صرف بدخشاں کو چھوڑا بلکہ تخار، کابل، پختون خوا اور آخر میں کراچی آکر حصولِ علمِ دین کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ بلا شک و تردید کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں مدارسِ دینیہ میں رائج تمام علوم و فنون پر انہیں کامل مہارت حاصل تھی۔
راقم نے 2001ء میں اُن سے حدیث شریف کی مشہور کتاب مسلم شریف پڑھی۔ تلمیذانہ عقیدت کو ایک طرف رکھ کر اگر کہا جائے تو اُن کی طرح علومِ معقولات و منقولات کا کوئی ماہر نہیں تھا۔ انہوں نے جہاں بہت ساری کتابیں لکھیں، وہیں ان کا سب سے اہم کارنامہ قرآن کریم کا فارسی (دری) ترجمہ ہے۔ سعودی عرب میں قائم مجمع الملک فہد لطباع القرآن الکریم نے اسے شائع کیا، جسے افغانستان، تاجکستان، ایران سمیت دیگر وہ تمام ممالک جہاں فارسی بولی اور سمجھی جاتی ہے، میں بہت سراہا گیا۔
مولانا محمد انور بدخشانی کی حیات اور دینی خدمات پر ہمارے ہم سبق رفیق اور مولانا محمد انور بدخشانی کے بڑے صاحبزادے مفتی محمد انس انور بدخشانی صاحب کی تحریر قارئین کی نذر ہے۔
(احمد ولی مجیب /ناٹنگھم، برطانیہ)