کالا باغ ڈیم کی نئی رَٹ کیوں اور کس لیے؟

معروف کالم نگار محمد خان ابڑو نے بروز اتوار 8 ستمبر 2024ء کو متنازع کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ ہمارے اربابِ اختیار کو اہلِ سندھ کے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق خدشات پر توجہ دینی چاہیے۔

’’کالا باغ ڈیم کے مُردہ گھوڑے میں جان ڈال کر ہر دور میں نیا شوشا کھڑا کرکے کوئی نہ کوئی سیاسی مقصد حاصل کیا جاتا ہے، یا پھر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی ایشو یا حالات سے دھیان ہٹانے کے لیے بھی اس طرح سے کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ سندھ کے لوگ کالا باغ ڈیم کا نام سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، کیوں کہ یہ ڈیم سندھ کی تباہی کی ایک اہم وجہ بن سکتا ہے جس کا ہم شاید تصور بھی نہیں کرسکتے۔ چند دن پیشتر سینیٹ کی پانی کے وسائل کے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی میں ایک مرتبہ پھر سے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کا راگ الاپا گیا ہے۔ اگرچہ اس اجلاس میں ارسا سندھ کے ممبر نے سخت اعتراض بھی کیا ہے لیکن پھر بھی ارسا کی جانب سے شروع کردہ راگ کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے۔ نہ صرف کالا باغ ڈیم بلکہ اِس مرتبہ تو یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ارسا کی جانب سے کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ پر 5 نئے ڈیم تعمیر کرنے کی بھی سفارش کرکے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ یاد رہے کہ کالا باغ ڈیم کے خلاف تین صوبوں نے قرارداد پاس کی ہوئی ہے۔ سندھ کے لیے یہ مسئلہ ہمیشہ ہی سے بے حد حساس رہا ہے، اور اس وجہ سے سندھ کی طرف سے بارہا تاریخی نوعیت کے احتجاج بھی کیے جاتے رہے ہیں، اور یہ احتجاج اپنے اپنے وقت کے حکمرانوں کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے فیصلے سے دست بردار ہونے پر بھی مجبور کرتے رہے ہیں۔ وفاق کو کئی اسٹیڈیز کے توسط سے ماہرین یہ بھی بتا چکے ہیں کہ یہ ڈیم صرف سندھ ہی کو خشک سالی سے دوچار کرنے کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ ڈیم خیبر پختون خوا کے زرخیز اضلاع کو بھی متاثر کرے گا اور اس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر محیط آباد زمینیں بھی زیرآب آجائیں گی، لیکن کیوں کہ یہ ڈیم صرف پنجاب ہی کے لیے ایک فائدہ مند منصوبہ ہے، اس لیے صوبوں کے تمام تر احتجاج کے باوجود بھی وفاق کسی نہ کسی طریقے سے اس مُردہ ایشو کو وقتاً فوقتاً زندہ کرتا رہتا ہے۔ سینیٹ کی پانی کے وسائل کے بارے میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں آبی وسائل کی وزارت کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ دیامر بھاشا ڈیم پر 15.7 فیصد تعمیراتی کام مکل ہوچکا ہے۔ دیامربھاشا ڈیم 2029ء اور مہمند ڈیم 2025ء میں مکمل ہوگا۔ مہمند ڈیم پر 33.5 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ یعنی خاموشی ہی خاموشی میں دریائے سندھ پر ڈاکہ ڈالنے کا کام پہلے ہی بڑی تیزی سے جاری ہے۔ وزارت خود یہ تسلیم کرتی ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بننے سے پہلے دریا میں 5 لاکھ کیوسک پانی ہوا کرتا تھا، جب کہ پانی کے ماہرین اور ریکارڈ کے مطابق یہ بات بھی غلط ہے، کیوں کہ دریائے سندھ پر مختلف ڈیم بننے سے پیشتر دریا میں چھ تا سات لاکھ کیوسک پانی موجود رہتا تھا، جب کہ مون سون کی بارشوں کے بعد سیلابی صورتِ حال میں یہ مقدار مزید بڑھ جایا کرتی تھی۔ اسی طرح سے سمندر میں دریا کا میٹھا پانی مسلسل چھوڑنے کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا پر آباد بڑی انسانی آبادی ملک کی خوش حال ترین آبادی ہوا کرتی تھی۔ اِس وقت سجاول، ٹھٹہ اور بدین پاکستان کے غریب ترین اضلاع ہیں۔ 1940ء تا 1960ء یہ اضلاع امیر ترین ہوا کرتے تھے، کیوں کہ اُس وقت دریا کے میٹھے پانی سے زمین آباد ہوا کرتی تھی اور ہاری بھی خوش حال ہوا کرتے تھے، لیکن پھر دریائے سندھ پر جونہی ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا، دریا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکڑنا شروع ہوگیا، اور اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ مارچ اور اپریل میں دریائے سندھ میں سوائے ریت کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔

دریائے سندھ کی تاریخ پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ اس بارے میں ماہرینِ آب نے بھی متعدد تحقیقاتی کتب لکھی ہیں جن کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دریا پر کس طرح سے ڈاکے مارکر اسے کنگال بنایا گیا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس تاریخی دریا کو آج بھی نہیں بخشا جارہا ہے جب کہ یہ دریا اب رفتہ رفتہ مر رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس ڈیم کے خلاف تین صوبوں کی جانب سے قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے اس کی تعمیر کا راگ ایک مرتبہ پھر سے کیوں اور کس لیے الاپا جارہا ہے؟ اس سارے معاملے میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ارسا کے ممبر نے بھی بظاہر تو کالا باغ ڈیم کے معاملے پر اعتراض کیا ہے لیکن اس کا مؤقف انتہائی ڈپلومیٹک ہے، جس نے اپنا روایتی بیان دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ڈیموں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم ان پر مشاورت کی جانی چاہیے۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ بھلا مشاورت کیسی؟ اور ڈیموں پر ہمیں بالکل اعتراض ہے بلکہ سخت اعتراض ہے، کیوں کہ ڈیم ہر حال میں دریا کو مکمل طور پر تباہ اور برباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ دراصل دریائے سندھ خشک ہوا تو صوبہ سندھ بھی خود بہ خود ہی برباد ہوجائے گا کیوں کہ ہمارا سارا انحصار ہی دریائے سندھ پر ہے۔ لیکن ہماری نمائندگی کرنے والا ارسا کا ممبر کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اعتراض کرتا بھی ہے تو صرف اس کے طریقِ کار پر… اور ساتھ ہی وہ یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ ’’سندھ کو ڈیموں کی تعمیر پر اعتراض نہیں ہے البتہ ان کی تعمیر سے متعلق ہم سے مشاورت کی جائے۔‘‘ یعنی صلاح مشورہ کرکے بھلے سے ڈیم بنا دیے جائیں۔کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ وفاق کے ماضی میں سندھ سے کیے گئے وعدے وفا نہ ہونے کے باوصف ہم شاید تاحال یہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ وفاق کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بدلے میں ہم سے جتنے بھی وعدے کرے گا وہ سارے کے سارے پورے بھی ہوجائیں گے۔

حال ہی میں 3 ستمبر کو منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی چونکا دینے والے انکشافات ہوئے ہیں۔ اس اجلاس کے بعد یہ امر واضح ہوا ہے کہ پنجاب کی جانب سے کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے تحت دریائے سندھ میں سے 296 کلومیٹر تک طویل چولستان کینال قائم کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے، حالانکہ سندھ کے منتخب عوامی نمائندوں اور اہلِ دانش و بینش نے کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کو کالا باغ ڈیم کی مانند سندھ کے لیے ایک نئی مصیبت قرار دیا ہے، تاہم دکھائی یہ دے رہا ہے کہ وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ اسے یہ منصوبے درکار ہیں خواہ اس کے نتیجے میں کوئی بھی اور کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ وفاقی حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے تحت پنجاب اور سندھ میں 48 لاکھ ایکڑ پر محیط بظاہر بنجر زمین کو آباد کرنے کا ابتدائی منصوبہ تشکیل دے چکی ہے اور اس کے لیے سندھ کی زرخیز زمین حاصل بھی کرلی گئی ہے لیکن پنجاب میں بنجر زمین کو آباد کرنے کے لیے 296 کلومیٹر تک نئی چولستان کینال تعمیر کرنے کے منصوبے کی تصدیق کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے تحت سندھ حکومت نے بھی زمینیں آباد کرنے پر اپنی رضامندی ظاہر کردی ہے اور اس کے لیے زمین کی بھی نشان دہی کردی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی پی کے سینئر ارکان سید نوید قمر، سید خورشید احمد شاہ، نواب یوسف تالپور اور دیگر کی جانب سے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی گئی 48 لاکھ ایکڑ زمین کے بارے میں توجہ طلب نوٹس پیش کیا گیا تو جواباً پانی کے وفاقی وزیر نے اس منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گرین پاکستان اینی شئیٹو کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کا مقصد تمام بنجر علاقوں کو آباد کرنا ہے۔ اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے تقریباً 48 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کی نشان دہی کردی گئی ہے جس میں سے 8 لاکھ 12 ہزار ایکڑ زمین سندھ اور پنجاب سے حاصل بھی کرلی گئی ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سندھ اور پنجاب نے یہ زمین ٹرانسفر بھی کردی ہے۔ دیگر صوبوں سے زمین کے حصول کے لیے بات چیت جاری ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے تحت آباد شدہ زمین کی آمدنی میں سے 40 فیصد آمدنی متعلقہ صوبے، 40 فیصد آمدنی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی اور 20 فیصد رقم زرعی ریسرچ پر خرچ ہوگی۔ یہ وعدے تو اہلِ سندھ 1947ء سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جو زمین جس صوبے میں آباد ہوگی اُس کے لیے پانی بھی متعلقہ صوبہ ہی دے گا۔ اس حوالے سے پہلا منصوبہ پنجاب میں چولستان کینال کا آیا ہے جس کے لیے رقم تو حکومتِ پنجاب ہی فراہم کرے گی لیکن اس کے لیے آنے والا پانی بھی ہمارے ہی دریا کا ہوگا۔ منصوبے کے تحت211 ارب روپے کی لاگت سے 296 کلومیٹر تک چولستان کینال بنے گی، اور 120 کلومیٹر کی ایک اور کینال بھی ہے۔ ان کینال پر پنجاب کی ساڑھے 4 لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی اور تھل کینال کی طرح سے یہ کینال بھی چھے ماہ تک جاری رہا کرے گی جس میں سے چار ماہ کے دوران پنجاب اسے اپنے حصے میں سے پانی فراہم کرے گا، جب کہ دو مہینے سیلاب کے دوران اسے پانی ملے گا۔ لیکن ہم سب کو یہ پتا ہے کہ اتنا طویل عرصہ کینال بننے کے بعد کناروں کے آس پاس بہت ساری نئی انسانی بستیاں بھی آباد ہوجاتی ہیں جس کے بعد اس کینال کا چھے مہینے کھلنا اور چھے مہینے بند کرنا ناممکن بن جائے گا۔ یہ سب باتیں تھل کینال بناتے وقت بھی کہی گئی تھیں لیکن اس وقت تھل کینال سال کے 12 مہینے ہی بہتی ہوئی نظر آتی ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف تو پاکستان اُن 10 ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں پانی کی سخت قلت ہے، اور دوسری جانب یہاں پر ایسے منصوبے تشکیل دیے جا رہے ہیں گویا یہاں پانی کی قلت نہیں بلکہ اضافی پانی موجود ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کی تھیوری سے بھی یہی لگتا ہے کہ گویا ہمارے ہاں اضافی پانی موجود ہے۔ 1950ء تا 1990ء پانی کے کئی معاہدے ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر سے بنجر زمینیں آباد کرنے کے لیے منصوبوں کی تشکیل کے نام پر سندھ کو خواب دکھائے جارہے ہیں۔ یہ سوچنے اور سمجھنے میں اب کوئی دقت نہیں ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کی آمدنی کہاں جائے گی اور ان زرعی زمینوں کے گرد و نواح میں صدیوں سے آباد لوگوں کا آخر کیا حشر ہونا ہے؟ اصل مقامی باشندوں کے پاس زیادہ تر مالکانہ حقوق بھی نہیں ہوا کرتے، کیوں کہ وہ قرنوں سے یہ زمینیں آباد کرتے چلے آتے ہیں، لیکن اب کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کمپنی بآسانی ہر ایک کی زمین اپنے نام پر کراکے کسی کو بھی وہاں سے بے دخل کرسکے گی۔ بات محض یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی، سندھ کی زمینوں اور پانی پر پڑنے والے ڈاکوں کے بعد بھی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ سمندر میں جاکر پانی ضائع ہورہا ہے، جب چشمہ جہلم لنک کینال کی تعمیر ہوئی تھی تو یہ کہا گیا تھا کہ اسے صرف سیلاب میں ہی چلایا یا استعمال کیا جائے گا، لیکن اس پر کون سا عمل درآمد ہوا کہ اب آگے ہوگا۔‘‘