وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس حالات میں بہتری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے 3 ستمبر2024ء کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے اپنا استعفیٰ سیکرٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کرادیا۔ انہوں نے محمود خان اچکزئی کے ہمراہ میڈیا سے بھی گفتگو کرلی اور اگلے چند گھنٹوں میں دبئی روانہ ہوگئے۔ سردار اختر مینگل نے یہ فیصلہ خود سے کیا۔ انہوں نے پارٹی کے کسی بھی فورم سے مشورہ نہیں کیا، جس کا انہوں نے خود بھی اظہار کردیا ہے۔
قومی اسمبلی میں بی این پی کی جانب سے تنہا اختر مینگل رکن ہیں۔ اُن کے استعفے نے حکومتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ حکومت سردار مینگل کو منانے کی بہرطور کوشش کرے گی۔ ممکن ہے کہ نمائندہ وفد اُن سے ملاقات کے لیے دبئی روانہ ہو۔
یہ استعفیٰ وسیع تناظر نہیں رکھتا۔ سردار اختر مینگل نے یہ پتّا یقیناً کچھ منوانے کے لیے پھینکا ہے۔ شاید انہیں اپنے آبائی علاقے وڈھ میں پھر سے مشکلات پیش آئی ہوں، جہاں مبینہ طور اُن کے مخالفین کو پھر سے متحرک کرنے کے لیے ہل جُل ہوئی ہو۔ وڈھ میں شفیق الرحمٰن مینگل اُن کے حریف ہیں جنہیں سرکار کی حمایت حاصل ہے۔ شفیق مینگل مسلح جتھہ رکھتے ہیں۔ یہ جتھہ ماضیِ قریب میں کالعدم مسلح تنظیموں کے خلاف متوازی طور پر کارروائیاں کرتا تھا اور سنگین جرائم میں بھی ملوث رہا ہے جن میں قتل، اغوا برائے تاوان اور قومی شاہراہوں پر لوٹ مار کی وارداتیں شامل ہیں۔ شنید ہے پیپلز پارٹی اور اس کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے شفیق مینگل کو مالی کمک دی ہے جس پر سردار اختر مینگل بے قرار ہوئے ہیں۔ استعفے کے محرکات یقیناً سیاسی بھی ہیں۔ سردار اختر مینگل نے پیش ازیں کوئٹہ میں منعقدہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔ عدم شرکت کے لیے انہوں نے یہ جواز دیا کہ 2024ء کے الیکشن میں جو افراد جتوا کر اسمبلیوں میں پہنچائے گئے ہیں اُن سے بلوچستان کا مسئلہ حل کرایا جائے،کہ یہی لوگ اسٹیک ہولڈر ہیں۔ چونکہ بی این پی ہروائی گئی ہے اس بنا پر وہ اور ان کی جماعت اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایوانِ بالا میں دو ارکان موجود ہیں، جبکہ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن ہے۔ استعفے کا فیصلہ اصولی ہوتا تو ان ایوانوں میں موجود اراکین بھی مستعفی کراتے اور ضمنی انتخاب میں بھی حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے۔ بہرحال استعفیٰ انتہائی قدم ہے۔ پہلے پہل انہیں اسمبلی اجلاسوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا اورساتھ مستعفی ہونے کی دھمکی دے دینی چاہیے تھی۔ بلاشبہ اس فیصلے نے وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے، حکومت پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور سردار اختر مینگل کی سیاسی ساکھ قدرے بہتر ہوئی ہے، کیوں کہ بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دوسری خواتین کی قیادت میں تحریک قوم پرست رجحانات کے حامل نوجوانوں میں مقبول ہوئی ہے۔ بلوچ مرد و زن اس تحریک کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ یہ تحریک پارلیمانی سیاست کی قائل نہیں ہے۔ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی اس نئے سیاسی رجحان کے ابھار سے مضطرب دکھائی دیتی ہیں۔
دیکھا جائے تو بلوچستان میں حالات میں بہتری دکھائی نہیں دیتی۔ شراکت اور مفاہمت کا وسیع سیاسی منصوبہ حکومتیں بھی نہیں رکھتیں۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لاٹھی بلند کر رکھی ہے۔ وہ مذمتی بیانات، تقاریر اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے حاضری لگاتی رہتی ہے۔ ہمنوا نواز لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی ہیں۔ اے این پی کے ایک رکن اسمبلی ملک نعیم بازئی بھی حاضری لگانے والوں میں شامل ہیں۔ اے این پی کے اِس رکن اسمبلی نے پارٹی مزاج کے برعکس 6 ستمبر کو یوم دفاع کی مناسبت سے ریلی کا انعقاد بھی کیا تھا۔
3ستمبر کے بلوچستان اسمبلی اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات کے خلاف اور فوج کے حق میں قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔ اجلاس سے پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے خطاب بھی کیا اور میدانِ جنگ میں ہونے کا اعلان کردیا۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے 2 ستمبر کے اسمبلی اجلاس میں قرار دیا کہ بلوچستان میں تین ہزار افراد کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے جن میں طلبہ، اساتذہ اور صحافی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فورتھ شیڈول میں ڈال کر لوگوں کو زبردستی آزادی پسندوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالماک بلوچ کی بتائی ہوئی تعداد کے بجائے اس وقت تک تین سو سے زائد افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔ ممکن ہے مزید اضافہ بھی ہوا ہو۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے جواب میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر لائیو اسٹاک بخت محمد کاکڑ نے کہا کہ جو لوگ سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز سے ہمدردی رکھتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی ہورہی ہے اور صوبے کو تباہ کرنے والوں کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ 25 اور 26اگست کی رات کے دلخراش واقعات کی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی واضح الفاظ میں مذمت کرچکی ہیں۔ یقیناً تمام ہی سیاسی جماعتیں مذمت کرچکی ہیں۔ حکومت نے ان واقعات کے بعد مزید سخت فیصلوں کا ارادہ کرلیا ہے۔ شائع اور نشر خبروں کے مطابق ’’وفاقی کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ1997 میں ترمیم کرنے کی منظوری دے دی۔ سیکورٹی فورسز دہشت گردی کے شبہ میں کسی بھی مشکوک شخص کو قبل از وقت حراست میں لے سکیں گی، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ1997میں سیکشن ڈبل ون ڈبل ای کی ترمیم کے لیے قانون سازی ہوگی، سیکورٹی فورسز کو دہشت گردی کے خلاف مزید مؤثر آپریشن کے لیے قانونی تحفظ ملے گا۔ خفیہ اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جاسکیں گی۔ جے آئی ٹیز جامع تحقیقات کریں گی اور دہشت گردوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں گی۔ قومی سلامتی کے لیے خطرات کے حامل افراد کو حراست میں لیا جاسکے گا، دہشت گرد سرگرمیوں کے شبہ میں مشتبہ افراد کو قبل از وقت حراست میں لیا جاسکے گا، ایسے افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہوگا اور حراستی مراکز بنائے جائیں گے‘‘۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اچانک علیحدگی کی بات کرنے والوں کو مخاطب کیا ہے۔ 7 ستمبر کو لاہور کے مینارِ پاکستان میں ختمِ نبوت کانفرنس سے اختتامی خطاب میں کہا کہ ’’ہم کسی بھی تحریک کو اس بات کا حق ضرور دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق اور مطالبات کی بات کرے، لیکن اگر وہ پاکستان سے علیحدگی کی بات کرتے ہیں تو یہ اجتماع (لاہور کے مینار پاکستان میں ختم نبوت کانفرنس) پیغام دے رہا ہے، یہ بہت بڑی عوامی اسمبلی قرارداد پاس کرتی ہے کہ ہم حقوق کے لیے آپ کے ساتھ ہیں لیکن ملک کی سلامتی پر کوئی سودا نہیں کریں گے‘‘۔ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت علیحدگی کی کسی بھی تحریک کی حمایت نہیں کرتی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے یک دم اس نکتے کا اٹھایا جانا معنی رکھتا ہے۔ یہ دراصل سیاسی رخ کی تبدیلی کے اشارے ہیں۔ مولانا کے اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرے اسمبلیوں میں حصہ طلبی کے لیے ہیں۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں جے یو آئی بلوچستان کے بعض حلقوں میں نوازی گئی ہے۔ البتہ درد خیبر پختون خوا میں محرومی کا لاحق ہے۔اب لگتا ہے درون خانہ سازباز ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہا کرتے تھے۔ جب اسٹیبلشمنٹ مخالف بن گئے تو کہا کہ وہ بیان سیاسی تھا۔ چناں چہ بعید نہیں کہ مولانا پھر سے عمران خان کو یہودی ایجنٹ پکارنا شروع کردیں۔