بلوچستان کا آتش فشاں سردار اختر مینگل کا استعفیٰ…پارلیمانی سیاست پر عدم اعتماد

سردار اختر مینگل کا یہ مؤقف درست ہے کہ اگر اسلام آباد اور اسٹیبلشمنٹ سمیت ہماری پارلیمنٹ کا موجودہ رویہ برقرار رہتا ہے تو پھر بلوچستان میں جو شورش ہے اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔

بلوچستان کے معاملے کو صوبائی یا علاقائی فریم ورک میں دیکھنے کی پالیسی، سوچ، فکر اور عملی اقدامات نے ہمیں اس صوبے کے تناظر میں سیاسی تنہائی، بدامنی اور عدم استحکام سے دوچار کیا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا ہماری سیکورٹی کی بنیاد پر اسٹرے ٹیجک اہمیت کے حامل صوبے ہیں۔ اس وقت بھی ان دونوں صوبوں میں امن و امان کے حالات سنگین ہیں، اور ہمیں ان حالات میں بلوچستان کے مسئلے کو صوبائی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے ایک بڑا قومی مسئلہ سمجھنے اور قومی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں بلکہ ہمیں بطور ریاست انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں ہم نے وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی ہوئی ہیں جہاں پر سیاسی و عسکری قیادت مل بیٹھ کر سیکورٹی سے جڑے داخلی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ وفاقی سطح پر وزیراعظم اور آرمی چیف، صوبائی سطح پر وزیراعلیٰ اور سیکورٹی ادارے کے سربراہ، جبکہ ضلعی سطح پر ضلعی انتظامی افسران سیکورٹی افسران کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ بھی بلوچستان کے مسئلے کو محض صوبائی مسئلہ سمجھ کر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اسی لیے بلوچستان کا بحران بدستور موجود ہے۔ ایک طرف بلوچستان کی سیاسی قیادت اور عوام، دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور تیسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر عدم اعتماد اور مل جل کر فیصلہ نہ کرنے یا محض ایک دوسرے پر الزام تراشی کی مدد سے آگے بڑھنے کی حکمت عملی نے ہمیں مزید بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔

ایک مسئلہ حکمتِ عملی کے فقدان کا ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی حکمتِ عملی، یا طاقت کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی حکمتِ عملی نے بھی بلوچستان کی سطح پر مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت دو گروپ ہیں۔ ایک وہ جو سیاسی اور جمہوری حقوق قانون اور آئین کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ انہیں ناراضی اور شکایت اسلام آباد سے ہے جو اُن کے بقول اُن کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں، اور اُن پر ریاست دشمنی سمیت مختلف الزامات لگائے جارہے ہیں۔ دوسرے وہ فریق ہیں جو براہِ راست ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں اور اسلحہ لے کر پہاڑو ں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ ریاست کا مؤقف ہے کہ ان لوگوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے جو ہمیں عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے۔ مسئلہ یہ ہورہا ہے کہ ان دونوں گروپوں سے ایک ہی طرح نمٹنا جارہا ہے۔ حالانکہ جو لوگ سیاسی طور پر اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں اور جنہیں اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی اقدامات پر تحفظات ہیں، ان سے سیاسی طور پر ہی نمٹا جانا حکمت ِعملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگانا، یا انہیں ریاستی طور پر دشمنوں کی فہرست میں شامل کرنا درست حکمت ِعملی نہیں ہوگی۔ جبکہ وہ لوگ جو ریاست کی رٹ کو طاقت اور بندوق کے زور پر چیلنج کررہے ہیں ان سے طاقت کے ذریعے نمٹنا ہی درست حکمت ِعملی ہوگی۔ دونوں گروپوں سے ایک ہی طریقے سے نمٹنے کی پالیسی اُن ہی لوگوں کو تقویت دے رہی ہے جو بندوق کی بنیاد پر ہمیں چیلنج کررہے ہیں۔ ریاستی سطح پر یہ مؤقف درست ہوسکتا ہے کہ سیاسی لوگوں کی حکمت ِعملی غلط ہوسکتی ہے، مگر ان سے بات چیت کی مدد سے ہی آگے بڑھنا چاہیے تاکہ جو لوگ سیاسی طور پر کھڑے ہیں اور جن کا اسلام آباد یا اسٹیبلشمنٹ سے تعاون کا امکان ہے انہیں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے علیحدہ کیا جاسکے۔کیونکہ اگر سیاسی لوگوں کو دیوار سے لگایا گیا تو اس کا ردعمل ہوگا اور یہ لوگ ریاست کے قریب ہونے کے بجائے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے ساتھ ہوجائیں گے۔

اسٹیبلشمنٹ یا سیکورٹی اداروں کے سامنے ایک بڑا چیلنج وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی کا ہے، اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غلط سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے وہاں کی موجود سیاسی قیادت صوبے میں اپنا اعتماد کمزور کررہی ہے۔ ویسے بھی جب وہاں عوامی سطح پر مینڈیٹ سے محروم حکومتیں ہوں گی تو ان کی ساکھ کیونکر ہوگی؟ ایک المیہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلوچستان کے بارے میں اپنی ناکامی قبول کرنے کے بجائے سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیتی ہیں اور اس بیانیے کو فروغ دیتی ہیں کہ بلوچستان کے معاملے میں ہمارے پاس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں اور سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ سردار اختر مینگل کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے کے معاملے کو بھی کسی غصے یا ردعمل کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسے سیاسی بنیادوں پر دیکھنا ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ صوبائی سطح کی سیاسی قیادت ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے؟ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی… بلوچستان کی سیاسی جماعتوں یا وہاں کی دیگر قوتوں سے خود کو دور رکھنے کی پالیسی نے ان حکومتوں کو مسئلہ بلوچستان کے حل کے معاملات میں غیر اہم کردیا ہے۔ اگر واقعی بلوچستان کو محروم رکھنا ہے اور پارلیمنٹ میں بلوچستان پر بات نہیں کرنی، یا وہ لوگ بات کریں جو خود بلوچستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تو مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ جو لوگ عملاً بلوچستان کے ہیں اور وہاں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں یا وہا ں کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی نے پارلیمنٹ سمیت سیاست و جمہوریت کی اہمیت کم کردی ہے۔ یہ دکھ محض سردار اختر مینگل کا نہیں بلکہ بلوچستان میں جو سیاسی لوگ ہیں وہ اسلام آباد پر عدم اعتماد کررہے ہیں، اوران کے بقول اسلام آباد ہماری بات یا ہمارے تحفظات کو اوّل تو سننے کے لیے تیار نہیں، اور اگر سن لے تو کسی بھی سطح پر سنجیدگی اور معاملات پر عمل درآمد کا نظام نظر نہیں آتا۔ اگرچہ حکومتی سطح پر بہت سے لوگوں نے سردار اختر مینگل کو منانے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ سردار اخترمینگل کے بقول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ہمیں نظرانداز کرکے اسلام آباد سے بیٹھ کر بلوچستان کے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں جو ہمیں قبول نہیں۔

بلوچستان میں محرومیاں اور مسائل ہیں جن کا براہِ راست تعلق بنیادی حقوق سے ہے۔ جبری گمشدگی یا مسنگ پرسنز کے مسائل نے بھی بلوچستان کے بحران میں اضافہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح جس انداز سے بلوچستان میں صوبائی حکومت قائم کی گئی ہے اسے بھی کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی حکمت ِعملی کے فقدان اور بات چیت سے گریز کی پالیسی اور محض طاقت کی بنیاد پر موجود حکمت عملی کی وجہ سے ہم بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں کرپا رہے۔ ہمیں سردار اختر مینگل کو ایک وفاقی شخصیت کے طور پر دیکھنا چاہیے، اور اگر وہ پارلیمانی سیاست سے دور ہورہے ہیں یا اسلام آباد پر اپنا اعتماد کھورہے ہیں تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔ ایک سوال تو یہ بنتا ہے کہ بلوچستان کے سنگین مسائل پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یا ان کیمرہ سیشن کیوں نہیں ہوسکتا؟ اور کیا وجہ ہے کہ ہم مکمل طریقے سے خاصا وقت لے کر بلوچستان کے معاملات پر بلوچستان یا دیگر صوبوں کو اعتماد میں لینے کے لیے تیار نہیں؟ اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے پاس بلوچستان میں علاقائی ممالک کی مداخلت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں تو پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کے ساتھ ان کیمرہ سیشن کیا جائے جس میں بلوچستان کی قیادت کو خاص طور پر مدعوکیا جائے اور بتایا جائے کہ بلوچستان کے حالات کیا ہیں اور یہ کیونکر پیدا ہورہے ہیں۔ ان حالات سے نکلنے کا جو بھی راستہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے پاس ہے اس پر سب کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت بلوچستان کے لوگوں کو نظرانداز کرکے ان پر اپنے فیصلے مسلط کرنا چاہتی ہے۔ بلوچستان میں وہ لوگ جو پارلیمنٹ میں ہیں یا باہر ہیں اور مختلف شعبہ جات سے جڑے ہوئے ہیں ان سب کو سننا پڑے گا اور انہیں اعتماد میں لے کر حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔ اسی طرح اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھارت سمیت دیگر ممالک کے خلاف شواہد ہیں تو وہ بلوچستان کی سیاسی قیادت کو دکھائے جائیں، اور اعتماد میں لے کر ان ہی کی مدد اور حمایت سے عملی اقدامات کی طرف بڑھا جائے تاکہ بحران میں کچھ کمی ممکن ہوسکے۔ دوسری طرف غیر ممالک کی منفی سرگرمیوں یا مداخلت کے جو بھی ثبوت ہیں ان کو بنیاد بناکر عالمی یا علاقائی سطح پر ایک مضبوط سفارت کاری کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ داخلی سیاست کے مسائل میں الجھنے کے بجائے علاقائی ممالک سے جڑے معاملات یا مسائل پر توجہ دی جائے۔ داخلی سیاست میں خود کو بہت زیادہ الجھانے کی پالیسی نے خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔

اسی طرح جب تک ہم وفاقی یا چاروں صوبائی حکومتوں اور مختلف فریقین کو بلوچستان کے بحران کے حل میں حصے دار نہیں بنائیں گے، کسی بھی طور پر مسائل حل نہیں ہوں گے، اور خاص طور پر پنجاب کو اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ اسلام آباد اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے تو ان کو یہ ذمہ داری لینی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کا بلوچستان کے معاملات کو نظرانداز کرنابلوچستان کے مسئلے کو بگاڑ رہا ہے، اس کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ افغانستان کے معاملات میں بھی ہمیں وہاں کی حکومت سے خاطر خواہ مدد نہیں مل رہی، اور ٹی ٹی پی کے بارے میں پاکستان کا جو مؤقف ہے اسے افغانستان میں موجود طالبان حکومت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اب جو نئی صورتِ حال بن رہی ہے اور بلوچستان میں جو بڑی دہشت گردی ہورہی ہے اور ہمارے سیکورٹی جوان شہادت حاصل کررہے ہیں تو ہمیں اپنی پالیسی پر بھی غورکرنا ہوگا۔ اگر غیر ملکی مداخلت ہے، اور یقیناً ہے تو اس کا علاج بھی تلاش کرنا ہے، اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہ ہماری ناکامی ہوگی۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان میں فوج اور فورسز کو مزید خصوصی اختیارات اور وسائل دیے جائیں تاکہ یہ ادارے مزید طاقت کے ساتھ حالات کو کنٹرول کرسکیں۔ حکومت نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم منظور کی ہے جس سے ہماری فورسز کو آپریشن کے لیے مزید قانونی تحفظ ملے گا، مشکوک شخص کو قبل از وقت حراست میں لیا جاسکے گا اور تین ماہ تک اسے زیر حراست رکھا جاسکے گا، جبکہ جے آئی ٹیز جامع تحقیقات کریں گی۔ اسی طرح سول آرمڈ فورسز کو بھی اسپیشل اختیارات ملیں گے اور جو بھی لوگ دہشت گردی میں ملوث ہوں گے ان کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ حکومت کے بقول بلوچستان میں یہ سب کچھ غیر معمولی سیکورٹی حالات کی وجہ سے کیا جارہا ہے اور اب اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ یہ سب فیصلے وزیراعظم اور آرمی چیف کی موجودگی میں آرمی وار گیم میں کیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا، مگر سوال پھر وہی ہے کہ حکومتی سطح پر ان فیصلوں سے ہٹ کر سیاسی حکمتِ عملی کے تحت کیا فیصلے کیے گئے ہیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ ہماری سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی میں سیاسی حکمتِ عملیوں کا فقدان غالب ہے؟ اسی طرح وہاں لوگوں میں مقامی سطح پر حقوق سے جڑے جو مسائل ہیں یا محرومی کی سیاست ہے اس پر حکومتی اقدامات کیا ہیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد اور بلوچستان میں گمشدہ افراد کے معاملات میں مکمل بداعتمادی موجود ہے؟ سردار اختر مینگل کا یہ مؤقف درست ہے کہ اگر اسلام آباد اور اسٹیبلشمنٹ سمیت ہماری پارلیمنٹ کا موجودہ رویہ برقرار رہتا ہے تو پھر بلوچستان میں جو شورش ہے اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے ہمیں بلوچستان کے مسئلے کو قومی فریم ورک میں دیکھ کر جامع سیکورٹی، طاقت اور سیاسی روڈ میپ کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا ہوگا، اور یہ عمل ہمارے لیے بلوچستان میں استحکام پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا، کیونکہ جو بھی ہماری موجودہ پالیسی ہے اس میں ہمیں کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ مل رہی ہیں۔