بنگلہ دیش: طلبہ انقلاب اور اس کے بعد

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بیس روز میں اٹھارہ سو افراد کو قتل کردیا گیا
جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کی قیادت اور کارکن مندروں اور ہندو آبادی کی حفاظت کے لیے میدان میں نکل آئے

13 جولائی 2024ء سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک کی لہر نے اتحاد، جرأت، عزم، قربانی اور ثابت قدمی سے بنگلہ نسل پرستی کے اُس بُت کو پاش پاش کردیا، جس کی تعمیر کے لیے جھوٹ، تشدد اور عالمی استعمار نے شکنجہ کَس رکھا تھا۔ اس تحریک کا ہراول دستہ طلبہ تھے، اور اُن میں طالبات سبقت لے گئیں۔ بہت سی طالبات پولیس کی گولیوں اور عوامی لیگی غنڈوں کے تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

یاد رہے 1972ء میں حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمان نے بھی جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی، جو 1976ء تک برقرار رہی۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے عوامی لیگ نے 2013ء میں جماعت پر ہرقسم کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی، اور اب بدحواس ہوکر یکم اگست کو بنگلہ دیشی ڈکٹیٹر نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش، اور اسلامی جمعیت طلبہ [اسلامی چھاترو شبر] پر پابندی عائد کردی۔ اس سے قبل 13جولائی سے جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو گھروں سے اُٹھانے، تشدد کا نشانہ بنانے، ’انسانی باڑوں‘ میں پھینکنے، اور ان کے گھروں کو روندنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ 14جولائی کی رات یعنی 24گھنٹوں میں ان دو تنظیموں کے اٹھارہ سو کارکنوں کو آزاد زندگی سے محروم کردیا گیا تھا، اور اگلے صرف بیس روز کے دوران میں جماعت اور جمعیت کے دس ہزار سے زائد کارکنوں کو قید اور دو لاکھ کو جعلی مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ عوامی لیگی غنڈے اور پولیس اہل کار دندناتے ہوئے آتے اور گھر میں بچوں، عورتوں کو گالیاں بکتے ہوئے، ان کے جوانوں کو پکڑ کر لے جاتے۔

دوسری طرف ہاسٹلوں، کلاس روموں، کالجوں، اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں انقلابی شعلے جوالا بن چکے تھے۔ اُن میں بڑی تعداد ان نوخیز نوجوانوں کی تھی، جنھوں نے اکیسویں صدی میں آنکھ کھولی تھی، مگر چاروں طرف اندھیر نگری دیکھی تھی، جس کی چوپٹ رانی خون کی پیاسی اور کرپشن کی دیوی تھی، جس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے لپکتے تھے اور زبان سے نفرت کے کانٹے جھڑتے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے، جنھیں پرائمری کے قاعدے سے لے کر بی ایس تک صرف ایک بات پڑھائی، سنائی اور ذہن میں بٹھائی گئی تھی کہ ’’پاکستان دُنیا کا بدترین ملک ہے اور جماعت دُنیا کی ناپسندیدہ ترین پارٹی ہے‘‘۔ اس کے باوجود احتجاج کرتے ان نوجوانوں نے جماعت اسلامی کی رفاقت کو خوش آمدید کہا۔ ان لاکھوں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پارٹی عصبیتوں سے بالاتر، اور اپنی قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی اُمنگ سے وابستہ تھی۔ بلاشبہ ان احتجاجی انقلابیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن پوری قوت کے ساتھ شامل تھے، مگر نوجوانوں کا یہ اُبھار جمعیت کے پھیلائو سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا تھا۔

جوان جذبوں کے سیلاب کی طرح اُمڈتی اور بپھری اس تحریک کی میدانِ عمل میں موجود قیادت کے کوئی گہرے تنظیمی آثار حکومت کو نظر نہیں آرہے تھے، اس لیے حسینہ حکومت نے اس پورے اُبھار کو جمعیت کی ذمہ داری قرار دے کر، منفی پروپیگنڈے کا ایک گھنائونا طوفان اُٹھادیا۔ ان کا خیال تھا کہ طوفان تھم جائے، تو چُن چُن کر جماعت کے حامیوں کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم کیا جائے گا۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا سے ’را‘ اور برہمنی نسل پرست ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی پشت پناہی میں چلنے والے سوشل میڈیا اکائونٹس اور ویڈیو چینلوں نے بھی اپنی توپوں کا رُخ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف موڑ دیا کہ ’’یہ ایک جمہوری حکومت کو گرانا اور بنگلہ دیش کی قومی ترقی کو دفن کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ مگر زمینی حقائق بالکل مختلف تصویر پیش کررہے تھے، جن کے مطابق یہ تحریک ہر گھر کی تحریک تھی اور ہر پڑھے لکھے طلبہ و طالبات کی تحریک تھی، جنھوں نے آمریت، لاقانونیت اور بدعنوانی کے سوا کچھ اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھا ہی نہیں تھا۔

ظلم بڑھتا گیا۔ روزانہ شہروں اور قصبوں میں مظاہرین کی لاشیں گرائی جاتی رہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بیس روز میں اٹھارہ سو افراد کو قتل کردیا گیا، جب کہ مظاہرین اس سے کہیں زیادہ جانوں کے ضائع ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ 4اگست کو صرف ایک روز میں ڈھاکہ کے 134 طلبہ و طالبات کو پولیس، عوامی لیگیوں اور کچھ بنگلہ دیشی فوجیوں نے گولیوں سے اُڑا دیا۔ یہ خونیں رات ابھی ڈھلی نہیں تھی کہ پُرعزم طلبہ قیادت نے اعلان کردیا: ’’کچھ بھی ہو، ہم 5؍اگست کو وزیراعظم ہائوس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں گے‘‘۔

فجر کے بعد، کرفیو کو توڑتے ہوئے ہزاروں طلبہ و طالبات مارچ کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔ بنگلہ دیشی نوجوان فوجی افسروں نے اپنی ہائی کمان کے سامنے مظاہرین طلبہ پر گولی چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا اور پولیس میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ نہتے طلبہ و طالبات اپنی جان کی حفاظت سے بے پروا، رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے، منزل کی طرف گامزن تھے کہ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں نے طوفان کا موڈ دیکھ لیا۔ دن کے ساڑھے بارہ بجے حسینہ واجد سے کہا: ’’ایک ڈیڑھ گھنٹے میں چیزیں سمیٹیں اور انڈیا چلی جائیں۔ ہیلی کاپٹر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ اگر آپ نہ گئیں تو میں آپ کی اور اپنی جان کی ضمانت نہیں دے سکتا‘‘۔ حسینہ واجد نے تکرار کی اور دھمکی کی زبان استعمال کی، مگر آرمی چیف نے رشتے داری کا واسطہ دے کر کہا: ’’اس وقت میں آپ کے ساتھ اس سے بہتر احسان اور سلوک کا کوئی دوسرا رویہ اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔ اور پھر وہ روتی پیٹتی اپنے اصلی وطن انڈیا چلی گئیں۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہزاروں طلبہ نے وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوکر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دوسری طرف شیخ مجیب الرحمان کے ’تاریخی‘ گھر 32- دھان منڈی [بنگ بندھو میموریل میوزیم] کو جلاکر راکھ کردیا۔ سڑکوں پر مجیب کے سارے دیوقامت مجسمے توڑ دیے، دیواروں پر لگی مجیب اور اس کی بیٹی کی تصویریں نوچ ڈالیں اور عمارتوں پر چُنی باپ، بیٹی کی افتتاحی تختیاں اُکھاڑ کر کوڑے دانوں میں پھینک دیں۔

اسی طرح مارچ 2010ء میں انڈین حکومت کی خطیر رقم سے قائم ’اندرا گاندھی کلچرل سینٹر‘ (IGCC) ڈھاکہ کو بھی مظاہرین نے انڈیا کی مسلسل مداخلت اور عوامی لیگ کی سرپرستی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نذرِ آتش کردیا۔ اس سینٹر میں موسیقی، یوگا اور کتھک رقص کی تربیت دی جاتی تھی۔ ڈھاکہ میں یہی مشہور تھا کہ ’’یہ دراصل انڈین جاسوسوں اور ’را‘ کا مرکز ہے، جہاں بداخلاقی، بے دینی اور ملک دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے‘‘۔

حسینہ واجد کے جانے کے دو گھنٹے بعد فوجی سربراہ جنرل وقارالزماں نے عبوری حکومت کے لیے ایک فہرست سوشل میڈیا پر چلوائی۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس فہرست کو طلبہ قیادت نے ہوا میں اُچھال دیا اور کہا: ’’حکومت وہی بنے گی، جو ہم کہیں گے۔ ہم فوجی حکومت اور فوجی مداخلت سے چلنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ ساتھ ہی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمدیونس کا نام عبوری حکومت کے سربراہ کے لیے تجویز کردیا۔ اس دوران میں انڈیا کے استحصالی رویّے اور فاشسٹ حکومت کی مسلسل پشت پناہی کے سبب عوام میں انڈیا کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا، اور بعض جگہ لوگ مندروں کی طرف جانے لگے۔ ملک میں ہیجانی کیفیت عروج پر تھی، مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کی قیادت نے کمال درجے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ”فوراً مندروں اور ہندو آبادیوں کی حفاظت کے لیے میدان میں آئیں، ساری رات پہرہ دیں اور مظاہرین کو باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں‘‘۔ اس حکمت عملی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا۔ مگر عوامی لیگ اور انڈین میڈیا اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرکے جماعت اور جمعیت کو پروپیگنڈے کا نشانہ بناتے چلے آرہے ہیں۔

یہ 5؍اگست ہی کی شام تھی کہ وہی جماعت اسلامی، جس پر حسینہ واجد نے بنگلہ دیشی فوجی سربراہ کی مشاورت سے پابندی عائد کی تھی، اسی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب کو یہی فوجی سربراہ فون کررہے تھے کہ ’’ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آپ مشورہ دیں‘‘۔ گویا کہ اب کی بار پابندی کا یہ دورانیہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چار روز میں ریزہ ریزہ ہوکر رہ گیا۔ تاہم، 28؍اگست تک جماعت اور جمعیت پر پابندی کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا۔

ڈاکٹر محمد یونس آئے، حکومت بنی، جماعت اسلامی نے کوئی وزارت نہیں لی اور حکومت کے قیام کی تائید کی۔ اس بات پر فوج کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایک عذاب سے جان چھڑانے کے لیے درست راستہ اختیار کیا ہے۔ نئی نسل کی تحسین کی کہ اس نے ثابت قدمی سے قوم کو بدعنوان اور فاشسٹ ٹولے سے آزادی دلائی، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لائے کہ اُس نے خون کے دریا سے قوم کو پار نکالا ہے۔

نئی حکومت نے دو روز بعد جماعت اسلامی کے اُن تمام دفتروں کی سیلیں توڑ دینے کی ہدایت کی، جنھیں گیارہ برس پہلے حسینہ حکومت نے بند کردیا تھا۔ یہ خبر سن کر کارکن خوشی سے جہاں موجود تھے، وہیں اللہ کی بارگاہ میں سجدے میں گرگئے۔ پانچ روز گزرنے کے بعد عوامی لیگی کارکنوں اور نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں جماعت اسلامی کے برگزیدہ رہنمائوں کو پھانسیاں سنانے والے ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کو طلبہ نے نشانے پر رکھا، تو 10؍اگست کی دوپہر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت 6 ججوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ سب بدنام اور معروف بدعنوان لوگوں کا ٹولہ تھا۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ فوراً الیکشن ہوں، بلکہ عوامی لیگ نے جو تباہی مچا رکھی ہے، اسے درست کرکے 6 ماہ سے ایک سال کے اندر الیکشن پر اتفاق ہے۔ گندگی کا جو بازار گرم ہے، اس کی صرف ایک مثال دیکھیے:

’بنگلہ دیش اسلامی بنک‘ جسے جماعت اسلامی کے رفقا نے 1980ء میں بڑی محنت سے قائم کیا تھا، اور جس کی نیک نامی نے اسے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا بنک بنادیا تھا، عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے دوسرے تعلیمی اور ادویہ سازی کے اداروں پر قبضہ جمانے کے ساتھ اس بنک کو بھی قبضے میں لے لیا۔ جبری طور پر عملے اور بورڈ کے اراکین سے دستخط کرائے، اس کی املاک اور جمع شدہ رقوم ہتھیا لیں۔ ایک منظورِنظر ’عالم گروپ‘ کو اس کا انتظامی قبضہ دے دیا۔ 19؍اگست کو عبوری حکومت نے اسلامی بنک کے حسینہ واجد کے مقرر کردہ بورڈ کو توڑ دیا اور نیا عارضی بورڈ مقرر کیا۔ 20؍اگست کو معلوم ہوا کہ بنک کے 75ہزار کروڑ ٹکے [یعنی 150کھرب پاکستانی روپے] قرضوں، بے نامی منصوبوں اور مختلف ناموں سے نکلوائے اور ہڑپ کرلیے گئے ہیں۔ اس ایک خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مزید کتنے معاشی قتل ہوئے ہوں گے اور بدعنوانی کے کتنے ہمالیہ تعمیر ہوئے ہوں گے۔ یہ ’’ایک سیکولر، ایک روشن خیال، ایک ترقی پسند، ایک عوام دوست‘‘ حکومت کی سیاہ کاری کی شرمناک تصویر ہے۔ صفحات کی قلت کے سبب ہم نے بہت سی دیگر معاشی غداریوں کی داستانیں یہاں نہیں چھیڑیں، جو ثبوتوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر قارئین کو لرزا دیتی ہیں۔

19؍اگست کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب نے بنگلہ دیش ہندو کمیونٹی کے سربراہوں سے ملاقات کی اور ان کے مرکز ’کافرل مندر‘ کا دورہ کیا۔ وہاں پوجا کمیٹی اور مندرکمیٹی کے صدر بابو تاپیندرا نارائن کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی۔ ان کے ہمراہ ڈھاکہ جماعت کے امیر محمد سلیم الدین بھی تھے۔

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’بنگلہ دیش میں رہنے والے تمام لوگ برابر کے شہری ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اکثریت اور اقلیت کی بحث کو ختم کیا جائے۔ ہماری پہلی پہچان انسان ہونا ہے۔ ہماری دوسری پہچان ہمارا ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ہم پیدا ہوئے۔ اور ہماری تیسری پہچان ہماری مذہبی و فکری وابستگی ہے۔ اس ملک کے تمام شہری اپنے مذہب، کلچر اور حقوق کو آزادی سے بروئے کار لانے کا حق رکھتے اور ایک دوسرے کے احترام کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں۔ مَیں پُرامید ہوں کہ ہماری نئی نسل یہ ذمہ داری اُٹھائے گی اور اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھائے گی۔ اس طرح مستقبل کا بنگلہ دیش، پارٹی یا گروہی عصبیت پر نہیں بلکہ معیار، صلاحیت اور میرٹ پر کھڑا ہوگا، اور معیار پر ہی چلایا جائے گا۔ میں بنگلہ دیش کے تمام شہریوں، سماجی طبقوں اور مذہبی برادریوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو آدم علیہ السلام کی اولاد کی طرح دوستوں اور بھائیوں کی طرح قبول کریں، ایک دوسرے کی عزت، آبرو اور جان کا احترام کریں۔ تشدد، نفرت، جھوٹے پروپیگنڈے اور جبر کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اور اگر اس کے باوجود کوئی فرد ایسی کسی بدنمائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے جرم کا تعلق اسلام اور اسلامی تہذیب سے نہیں ہے، بلکہ اُس فرد سے ہے، اور وہ فرد اس کے لیے قانون، قوم اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسلام انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسانوں کو حیوانیت اور خودغرضی کے بجائے انسانیت اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ یہی پیغام لے کر میں آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔

(روزنامہ سنگرام، ڈھاکہ، 19اگست 2024ء)
یہ تو ہوا اس منظرنامے کا ایک پہلو۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا یہ انقلاب فی الحقیقت دو قومی نظریے کی ایک طاقت ور بازگشت ہے۔ وہی دو قومی نظریہ، جسے سرزمین بنگال کے مسلمانوں کی قیادتوں نے انیسویں صدی میں ’فرائضی تحریک‘ اور تیتومیر شہید کی صورت میں اُٹھایا، جس کی تصویرکشی 1905ء میں تقسیم بنگال نے کی اور جسے 1906ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے قیام نے سیدھی شاہراہ پر ڈالا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی حماقتوں اور مشرقی پاکستان سے بنگالی قوم پرست لیڈروں کے جھوٹے پروپیگنڈے نے نفرت کی آگ کا ایسا الائو بھڑکایا کہ دسمبر 1971ء میں پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ تب انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا: ’’دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ موجودہ انقلاب نے یہ پیغام دیا ہے کہ ’’دو قومی نظریہ زندہ ہے، توانا ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتا ہے‘‘۔

دوسرا یہ کہ نئی نسل اور عام شہری جبر اور فسطائیت پر مبنی آمریت کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ اس مقصد کے حصول اور آزادی کے لیے وہ اپنے معاشی مستقبل اور اپنی جان کی بازی تک لگادینے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ درس ہے آئندہ حکمرانوں کے لیے بھی، اور یہی درس ہے ہمسایہ ملک کے نسل پرست برہمنوں کے لیے بھی۔

تیسری چیز یہ ہے کہ اس زلزلہ فگن تحریک کے جھٹکے ابھی تک بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں، تاہم حالات گرفت میں ہیں۔ مثال کے طور پر 24 اگست کو ’انصار فورس‘ نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہ حکومت کی مسلح ملیشیا ہے، جس میں بڑی تعداد ’طلب کرنے پر‘ ڈیوٹی پر آتی ہے۔ انھوں نے اپنی نوکریاں پکّی کرنے کے لیے مظاہرہ کیا، جسے روکنے کے لیے طلبہ نے کوشش کی تو تصادم ہوگیا۔ بعد ازاں 25؍اگست کو طلبہ اور فوج نے یہ مزاحمت ختم کردی۔ اسی طرح ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور اسی یونیورسٹی کے دس اہم تعلیمی اور انتظامی سربراہوں نے اپنے کیے کرائے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے استعفے دے دیے ہیں۔ مختلف انتظامی شعبہ جات کے بدعنوان منتظمین ملک سے بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ گویا کہ حالات کے پُرسکون ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے بجا طور پر نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جب تک حسینہ واجد حکومت میں رہی، ہم ایک مقبوضہ ملک ہی رہے۔ ایک قابض قوت، ڈکٹیٹر اور بے رحم جرنیل کی طرح اُس نے ہرچیز کو اپنے شکنجے میں کَس رکھا تھا۔ مگر آج بنگلہ دیش کا ہرشہری آزادی محسوس کررہا ہے اور پوری قوم اس آزادی کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے‘‘۔