ہمارا نظام ِعدل اور ہمارے مسائل!

انگریز کی اِس خطے سے رخصتی اور برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ مملکتِ خداداد مسلمان عوام کی جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں اسلام کے نام پر وجود میں آئی، اسی لیے اس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار پایا۔ قیام پاکستان سے قبل بانیِ پاکستان بابائے قوم محمد علی جناحؒ سے جب ایک غیر ملکی صحافی نے دریافت کیا کہ نئی مملکت کا دستور کیا اور کیسا ہوگا؟ تو بانیِ پاکستان نے بلاتامل جواب دیا کہ مسلمانوں کو آج سے تیرہ سو برس قبل دستورِ حیات عطا کردیا گیا تھا، یہ قرآنِ حکیم ہے، یہی پاکستان کا دستور ہوگا۔ پھر جب 1973ء میں پاکستان کا موجودہ دستور پوری قوم کے منتخب نمائندوں نے اتفاقِ رائے سے منظور کیا تو اس میں بھی وضاحت سے یہ بات لکھ دی گئی کہ یہاں حاکمیت یا اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کا ہوگا اور یہاں کا ہر قانون قرآن و سنت کے تابع ہوگا، یعنی پوری اسمبلی مل کر بھی کوئی ایسا قانون منظور نہیں کرسکے گی جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔ اسلامی نظام، قانونِ شریعت یا نظام ِمصطفیؐ کو اگر ایک لفظ میں سمونا مقصود ہو تو یہ ’’عدل‘‘ ہے۔ کتابِ ہدایت قرآنِ حکیم اس ضمن میں ہدایات سے بھری پڑی ہے اور جگہ جگہ اہلِ ایمان کو عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ الحدید کی آیت 25 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ تم لوگ انصاف پر قائم رہو۔‘‘ اس سے قبل سورہ النساء آیت 58 میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ: ’’جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تعالیٰ تم کو نہایت عمدہ نصحیت کرتا ہے، اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ اسی سورہ کی آیت 135 میں تو عدل کی معراج کو چھوتا ہوا فرمان جاری کیا گیا کہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین پر یا تمہارے رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو، اور ا گر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ کیا اس سے زیادہ جامع اور دوٹوک الفاظ میں عدل کا پرچم سربلند کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی دوسرا مذہب، کوئی دوسری تہذیب یا نظام اپنے پیروکاروں کے لیے عدل و انصاف کی اس سے بہتر تعلیم و تربیت کا دعویٰ کرسکتا ہے؟

سورہ مائدہ آیت 8 میں اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر حکم دیا جاتا ہے کہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو، کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ نزدیک ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔ اسی سورہ کی آیت 42 میں ارشادِ ربانی ہے کہ: ’’اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو، کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے…‘‘ اور پھر یہ محض زبانی یا کتابی تعلیمات نہیں، بلکہ پیغمبرِ اسلام، محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر بھی دکھایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مشرکینِ مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت پر روانہ ہوئے تو مکہ چھوڑنے سے قبل اپنے جانی دشمنوں کی امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کرکے انہیں بحفاظت مالکوں کے حوالے کرنے کی تلقین و تاکید کی۔ آپؐ کی پوری زندگی عدل و انصاف کا بے مثل نمونہ ہے۔ ریاست مدینہ وجود میں آئی تو ایک باوقار قبیلے کے معزز خاندان کی فاطمہ نامی خاتون چوری کے جرم میں پیش کی گئی، اہلِ قبیلہ نے اس کی جان بخشی کروانے کے لیے ہر حربہ آزمایا مگر عادلِ صادقؐ نے یہ فرماکر تمام سفارشیں مسترد اور سزا معافی کی تمام کوششیں ناکام بنادیںکہ ’’اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کٹوا دیتا…‘‘ پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوری مملکت کا قیام بھی انہی وعدوں کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ اس پاک سرزمین پر اسلام کا مثالی نظامِ عدل و انصاف رائج کیا جائے گا جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ مگر ہوا کیا؟ اس کی مثالیں ہمیں آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے، ذرائع ابلاغ کی اطلاع کے مطابق ایک بڑے صنعت کار خاندان کی خاتون نے جو مبینہ طور پر نشے کی حالت میں تھی، سڑک پر ایک جواں سال بچی آمنہ اور اُس کے والد عمران عارف کو اپنی بڑی سی گاڑی کے پہیوں تلے کچل ڈالا، اور ابھی ان مقتولین کا کفن بھی میلا نہ ہو پایا تھا کہ صنعت کار خاتون اپنی دولت کا سہارا لے کر، شاید پانچ کروڑ روپے خرچ کرکے اپنے تمام جرائم سے بری الذمہ قرار پا گئی۔

یہ کوئی واحد، پہلی یا آخری مثال نہیں، اس طرح کے عدل و انصاف کی خرید و فروخت کے واقعات ہمارے عدل کے ایوانوں میں بلا ناغہ رونما ہوتے ہیں۔ یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ سندھ کے ایک وڈیرے کے لاڈلے صاحبزادے نے ایک نوجوان کو دن دہاڑے قتل کیا اور پھر چند ہی ہفتوں میں صاحبزادہ اپنے پورے شاہانہ کروفر کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر انصاف کا منہ چڑاتا پایا گیا۔ قبل ازیں ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے اہل کاروں نے لاہور سے ساہیوال جانے والی کار کو روک کر ننھے منے معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے اُن کے والدین، جواں سال بہن اور گاڑی چلانے والے نوجوان کو گولیوں سے بھون ڈالا اور حکمرانوں کی ہر صورت انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود قاتلوں کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا۔ امریکی ایجنٹ کا واقعہ تو عالم گیر شہرت کا حامل ہے جس نے لاہور کے بھرے چوک میں دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر قتل کردیا تھا اور ہجوم نے رنگے ہاتھوں گرفتار بھی کروا دیا تھا، مگر چند روز بعد اسے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان سے فرار کرا دیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی گرفتاری اور رہائی کے بارے میں ’’دی کنٹریکٹر‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کروائی جس میں پاکستان کے نظامِ عدل کا خوب خوب تمسخر اڑایا گیا۔ اُس نے لکھا کہ جماعت اسلامی کی بھرپور مزاحمت کے سوا اسے رہائی کے سلسلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ پاکستان کے تمام اداروں اور حکمرانوں نے اس کی رہائی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا، حتیٰ کہ دیت کی رقم کا بندوبست بھی انہی اداروں نے نامعلوم ذرائع سے کیا… یہاں تک کہ مدعیان کے وکیل لاہور ہائی کورٹ بار کے موجودہ صدر اسد منظور بٹ مقدمے کی سماعت کے روز جب کوٹ لکھپت جیل پہنچے، تو انہیں مدعیان سے ملنے نہیں دیا گیا اور کارروائی سے لاتعلق رکھنے کے لیے کئی گھنٹے محبوس رکھا گیا۔ یہی سلوک مدعیان سے بھی کیا گیا اور جب انہوں نے مقتولین کی دیت قبول کرنے سے انکار کیا تو مدعی خاندان کے اٹھارہ افراد کو کوٹ لکھپت جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں عدل و انصاف کا یہ عالم ہو وہ ملک اگر معاشی بحرانوں، معاشرتی پریشانیوں اور قومی سلامتی کے حوالے سے عدم استحکام کا شکار نہیں ہوگا تو کیا ہوگا! آج بھی ہمارے تمام مسائل کا حل اسلام کے نظام عدل پر مکمل عمل درآمد ہی میں پوشیدہ ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ایک صدی قبل فرمایا تھا ؎

سبب کچھ اور ہے، تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

(حامد ریاض ڈوگر)