مکرمی، السلام علیکم!
میں متوسط درجے اور بیاسی سال کا ایک ریٹائرڈ عام پاکستانی ہوں اور فرائیڈے اسپیشل خرید کر پڑھنے والا۔
آپ کے شمارہ نمبر34 میں ’’آئی پی پی اسکینڈل کی ہوشربا داستان، اشرافیہ کی بدمعاشی کا خاتمہ کب ہوگا؟‘‘ کے عنوان سے اے اے سید کا مضمون پڑھا اور دل ہی دل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ پر ایک مرتبہ پھر تبّرا بھیجا۔ میں عوام کا خون چوسنے والی اس اشرافیہ کو ’’بدمعاشیہ‘‘ اور ’’ارذالیہ‘‘ کہتا ہوں۔
اس خط کے لکھنے کا مقصد مضمون نگار کی پرائیویٹ بجلی گھروں کی لوٹ کھسوٹ کے ایک دو اور پہلوئوں پر توجہ دلانا ہے۔
میری ناقص رائے میں ان پرائیویٹ بجلی گھروں سے کیے گئے تمام معاہدے خلافِ آئین ہیں اور شاید خلافِ قانون بھی۔ میں قانون دان نہیں ہوں۔ (کبھی، تقریباً پچاس سال پہلے ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگری ضرور لی تھی) مجھ سے بہتر رائے کوئی آئینی ماہر قانون دان ہی دے سکتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 3 ریاست (بشمول حکومت) کو اس امر کا پابند بناتا ہے کہ وہ ملک میں Exploitation، خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، کا مکمل خاتمہ کرے گی۔ اوکسفرڈ انگریزی، اردو لغت کے مطابق Exploitation کا مطلب ہے ’’استحصال کرنا، (کسی کو) زبردستی یا ناواجب طور پر نقصان پہنچا کر اپنا بھلا کرنا‘‘۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے ان پرائیویٹ بجلی گھروں کی بنیاد رکھی۔ ان بجلی گھروں سے کیے گئے معاہدے سراسر خلافِ آئین تھے کیونکہ یہ معاہدے جن شرائط پر کیے گئے تھے وہ سراسر عوام کے استحصال پر مبنی تھیں، اور یہ استحصال حکومت کے ذریعے ہی کیا جانا تھا۔ کیا اس میں کوئی کرپشن شامل نہیں تھی؟
آئی پی پیز یعنی پرائیویٹ بجلی گھروں سے کیے گئے ان معاہدوں کا ایک بھیانک پہلو اور بھی ہے۔ ان میں موجود ایک اہم، ناقابلِ یقین لیکن قابلِ مذمت شق کے ذریعے اپنے ملک کی عدالتوں کا دائرۂ اختیار (Jurisdiction) ختم کردیا گیا اور معاہدے کے فریقین کے درمیان پیدا ہونے والی کسے ممکنہ تنازعے کے فیصلے کا اختیار بین الاقوامی عدالت یا ثالث کو دے دیا گیا۔ کیا یہ حب الوطنی کا نمونہ ہے؟
آئین کا آرٹیکل 38(a) ریاست (بشمول حکومت) کو پابند کرتا ہے کہ وہ عوامی مفاد کے خلاف دولت، ہر قسم کی پیداوار اور اس کی تقسیم کو چند ہاتھوں کی حد تک محدود نہ ہونے دے۔ علاوہ ازیں یہ شق خاص طور پر اس لیے بھی شامل کی گئی کہ معاملہ اگر پاکستانی عدالت میں جاتا ہے تو معاہدے کو Exploitation قرار دے کر ختم (کالعدم) کیا جاسکتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 173(3) واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومت کی انتظامیہ کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی معاہدہ صدرِ مملکت یا صوبائی گورنر کے نام سے کیا جائے گا۔ کیا پرائیویٹ بجلی گھروں (IPPs) سے کیے گئے معاہدوں میں یہ شق شامل ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ بے نظیر حکومت سے لے کر اب تک کی تمام حکومتیں ان بدنام زمانہ معاہدوں کو عوام سے خفیہ رکھنے پر مُصر رہی ہیں؟ کیا دال میں کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے؟
(شمیم احمد… کراچی)