پاکستان ایک زرخیز ملک ہے۔ یہاں قدرتی وسائل کی بھی کمی نہیں ہے اور انسانی وسائل بھی خوب ہیں۔ یہاں ذہین و فطین اور کارکردگی دکھانے والے مردانِ کار کی بھی کمی نہیں۔ پاکستان کے ہزاروں نہیں لاکھوں پڑھے لکھے لوگ اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں اعلیٰ مناصب پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو ایسا اندرونِ ملک مردانِ کار کی ذہانت اور محنتِ شاقہ کے باعث ممکن ہورہا ہے۔ ایسے ہی قابل فخر اور آزمودہ کار قومی سپوتوں میں ایک انتہائی معتبر اور قابلِ بھروسا نام پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کا بھی ہے جنہیں سابق وزیراعظم عمران خان نے نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کیا۔ ڈاکٹر صاحب ایک ذہین و فطین اسکالر اور عالم ہی نہیں بلکہ ایک متین انسان بھی ہیں، ایک پروفیسر کو جس طرح کا ہونا چاہیے، ایک اسکالر کو جس طرح بولنا چاہیے، ایک مسلمان کو جس طرح سوچنا اور دعوتِ دین کے لیے متحرک اور فعال ہونا چاہیے وہ بالکل ایسے ہی ہیں۔ ڈاکٹر انیس احمد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں تحقیقاتی کام بھی کرتے رہے ہیں اور رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر کے طور پر کام کررہے ہیں۔
’’قائداعظم کا تصور پاکستان‘‘ کے عنوان سے قائداعظم کے خطابات، جنہیں آپ چاہیں تو پاکستان کی کہانی قائد کی زبانی کہہ سکتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے یہ مقالات ترجمان القرآن میں چھپتے رہے ہیں، اب ان کو کتابی شکل میں ’’قائداعظم کا تصور پاکستان‘‘ میں پیش کیا جارہا ہے۔
پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور مقصد کو قائداعظم نے اپنی تقاریر میں دوٹوک الفاظ میں واضح کیا، لیکن مغربی فکر سے مرعوب بعض دانش وروں نے محض تعصب کی بنیاد پر اپنے لبرل تصورات کو مستند بنانے اور قائداعظم کی شخصیت کو متنازع بنانے کے لیے قائداعظم سے وہ باتیں منسوب کرنا شروع کردیں جن کا تذکرہ قائداعظم نے اپنی تقاریر و بیانات میں کبھی نہیں کیا تھا۔
محترم ڈاکٹر انیس احمد پچھلے پچاس برس سے تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔ اس شعبے سے وابستگی ان کی پچاس سالہ جدوجہد، استقامت کے ساتھ ثابت قدمی، یقین میں پختگی اور نظریۂ پاکستان سے وفاداری کی آئینہ دار ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کو ایک جدید ترقی یافتہ، فلاحی اور اسلامی ریاست بنانے کے وعدے تو بہت کیے لیکن اس مقصد کے حصول کی طرف کوئی سنجیدہ پیش قدمی نہیں کی۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں اپنے اسی مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے تاریخِ پاکستان سے شواہد جمع کیے ہیں اور اس تناظر میں انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے نتائج کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے بلکہ انہیں خوشی ہوگی کہ مزید اصحابِ علم اس میدان میں آگے آئیں اور ریسرچ کریں تاکہ زیادہ مدلل نتائج ہمارے سامنے پیش کرسکیں۔
اب ہم پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد ملک کے ارشاداتِ عالیہ سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس کتاب ’’قائداعظم کا تصورِ پاکستان‘‘ سے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ بانیانِ پاکستان کے خواب و خیال کو پاکستان میں حقائق کا روپ بخشنے کے بجائے ہمارا حکمران طبقہ سامراجی قوتوں کی بالواسطہ غلامی پر نازاں چلا آرہا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ آج کے پاکستان میں اقبال کا ترانہ بھی سنا ان سنا کردیا گیا ہے اور قائداعظم کی روشن فکر بھی دھندلا کر رکھ دی گئی ہے۔ بانیانِ پاکستان کے فکر و عمل سے یہ روگردانی ہمارے قومی زوال کا بنیادی سبب ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے اپنی اس کتاب میں اس زوال کے اسباب کی تلاش و تحقیق کا حق بھی ادا کیا ہے اور اسے عروج میں بدلنے کا لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔‘‘
کتاب کے عنوانات یہ ہیں:
٭قومیت کے موجودہ تصورات اور اسلام، ٭ نظریہ پاکستان کا مختصر پس منظر، ٭علامہ اقبال کا تصورِ پاکستان، ٭ قائدِ ملّت لیاقت علی خان کے حاکمیتِ اعلیٰ کے تصور کی تشریح، ٭ علامہ اقبال کا قائد کے نام خط، ٭ قائداعظم کی اسلامی شریعت کے بارے میں دوٹوک رائے، ٭دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد پیش کرتے ہوئے قائدِ ملّت لیاقت علی خان کا خطاب، ٭ حاکمیتِ الٰہی، ٭تھیوکریسی کی نفی، ٭ مساوات و عدلِ عمرانی، ٭اسلامی زندگی کے لیے تیاری، ٭فرقہ پرستی نہیں، ٭غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ، ٭ دو قومی نظریہ اور برصغیر کے علمائے کرام: کچھ تاریخی حقائق، ٭قائداعظم کا مؤقف، ٭ مغربی جمہوری نظام پر قائداعظم کی تنقید، ٭ قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا، ٭ 11 اگست 1947ء کی تقریر… ایک تجزیہ، ٭جسٹس منیر کا کارنامہ، ٭ دستورِ پاکستان اور شریعت، ٭ اسلامی معاشی اور بینکاری نظام، ٭ ضمیمہ جات، ٭ پاکستان کی انفرادیت، ٭فراریت اور خود فریبی، ٭پس چہ باید کرد، ٭ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، ٭اخلاقی قدر و قامت، ٭حوالہ جات مع اصل انگریزی متن
علامہ اقبال نے فکری طور پر اپنے خطابات اور شاعری کے ذریعے اور خصوصاً مسلم لیگ کے الٰہ آباد کے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بات واضح کی کہ اسلام محض چند مخصوص عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل نظام ہدایت ہے۔ ادھر مولانا مودودی نے مولانا حسین احمد مدنی کے دلائل کا جواب اور تردید ایک اہم مقالے میں کی جو ’’مسئلہ قومیت‘‘ کے زیر عنوان طبع ہوا۔ ’’مسئلہ قومیت‘‘ کو مسلم لیگ کی قیادت نے ملک گیر پیمانے پر جگہ جگہ تحریک پاکستان کی نظری بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔ اسی طرح قائداعظم نے 1930ء کے بعد اپنے تمام خطابات اور بیانات میں ایک ہی بات کو پیش کیا کہ مسلمان اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی تاریخ، اپنے ناموران کے ہندوئوں سے کلیتاً مختلف ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے مکمل اور الگ تشخص رکھتے ہیں، اور جو زمین، رنگ اور نسل کی قید سے آزاد اور صرف اور صرف عقیدہ و ایمان کی بنا پر ایک قوم ہیں، نیز ان کے دین پر عمل اور اس کا تحفظ صرف اور صرف اس شکل میں ہوسکتا ہے جب وہ آزادانہ طور پر اپنے نظامِ حکومت، نظامِ معیشت، نظامِ معاشرت، نظامِ قانون اور نظامِ تعلیم، غرض زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی بنیاد پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوں۔ ظاہر ہے یہ عمل آزاد خطے اور سرزمین کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے پاکستان کا وجود اور قیام علامہ اقبال، قائداعظم اور مولانا مودودی کی نگاہ میں ایک منطقی ضرورت تھی۔
کتاب بہت خوب صورت سرورق، ڈسٹ کور اور پیلے گلیزڈ پیپر کے ساتھ اغلاط سے پاک اچھی شائع ہوئی ہے۔