کئی پس ماندہ ممالک کی نئی نسل اِس شعبے کے ذریعے خطیر زرِمبادلہ کماکر دے رہی ہے
دنیا عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ سب کچھ بدل چکا ہے۔ ایک نئی دنیا ہمارے سامنے ہے۔ کل کی دنیا ہوا ہوچکی ہے اور اُس کی واپسی یا بحالی کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ چار پانچ عشروں کے دوران فطری علوم و فنون کے میدان میں جو کچھ ہوا ہے اُس نے دنیا کی ماہیت اور نوعیت بدل دی ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، اپنے آپ کو تبدیلیوں سے بچا نہیں سکتا۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ “No Man Is An Island” یعنی کوئی ایک بھی انسان جزیرہ نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ معاشرہ ایک سمندر ہے جس میں کوئی بھی الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ کسی بھی انسان کے لیے باقی دنیا یا پورے معاشرے سے ہٹ کر، کٹ کر جینا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ہر دور کا معاملہ ہے اور آج تو انتہا ہی ہوچکی ہے۔
آن لائن کلچر آج پوری زندگی پر محیط ہے۔ ہمارے پیشہ ورانہ اور نجی معاملات میں ایسا کچھ بھی نہیں جو آن لائن کلچر کی زد میں نہ آتا ہو۔ دنیا بھر کے لوگ آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ کل تک کہا جاتا تھا کہ دنیا اب گاؤں کی سی ہوگئی ہے یعنی گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ قربت کا ایک عجیب ہی تصور ذہنوں میں ابھر رہا تھا۔ جو کچھ ذہنوں میں ابھر رہا تھا وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اب دنیا واقعی گلوبل ولیج ہے۔ کوئی بھی شخص پوری دنیا میں کسی بھی انسان سے کسی بھی وقت رابطہ کرسکتا ہے۔ یہ ایسی سہولت ہے جس کا چالیس پچاس سال پہلے خواب بھی نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تب تک ٹیکنالوجیز نے اِتنی ترقی کی ہی نہیں تھی کہ مستقبلِ بعید کے بارے میں زیادہ سوچا جاسکتا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) وہ شعبہ ہے جس نے زندگی کے ہر پہلو کو بدل ڈالا ہے۔ ایک دنیا ہے جو آئی ٹی نے سمیٹ کر انسان کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے۔ آج کا انسان انتہائی خوش نصیب ہے کہ بھری دنیا میں کسی بھی انسان سے رابطہ کرکے اپنی بات کہہ سکتا ہے، اُس کی بات سُن سکتا ہے، مرضی کا مواد پڑھ، دیکھ اور سُن سکتا ہے، جو کچھ بھی سیکھنا چاہے سیکھ سکتا ہے، اور اگر سیکھے ہوئے کو بروئے کار لاکر اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہے تو ایسا بھی بہت آسانی سے کرسکتا ہے۔
دنیا یہی تو کررہی ہے۔ آج کی دنیا میں آن لائن کلچر نے پیشہ ورانہ معاملات کو یکسر بدل کر بلکہ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کل تک جسے ”ٹیلی کمیوٹنگ‘‘ کہا جاتا تھا، آج اُسے ’’ورک فرام ہوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنے گھر کی حدود میں رہتے ہوئے باقی دنیا سے رابطہ اُستوار کرکے اچھی خاصی آمدنی یقینی بنانا آج کے دور کی اہم خصوصیت ہے۔ یہ خصوصیت گزشتہ ادوار میں کبھی نہیں پائی گئی، یعنی یہ بالکل نیا امرِ واقع ہے۔ آن لائن کلچر نے انسان کو وہاں پہنچادیا ہے جہاں پہنچنے کا خواب بھی مشکل ہی سے دیکھا جاتا تھا۔
آج کی دنیا تاریخ کے انوکھے موڑ پر کھڑی ہے۔ یہ موڑ اس اعتبار سے انتہائی اہم اور حیرت انگیز ہے کہ سبھی کچھ یوں بدلا ہے کہ جو کچھ تھا یا ہوا کرتا تھا اُس کے بارے میں سوچنے میں بھی دشواری محسوس ہوتی ہے۔ محض پندرہ بیس برس پہلے کی دنیا بھی اِتنی بھولی بسری سی لگتی ہے کہ کبھی کبھی تو خود سوچنے والوں کو بھی حیرت ہوتی ہے۔
آئی ٹی کے شعبے کی بے مثال، بلکہ حیران کن پیش رفت نے انسان کو بہت سے امکانات سے ہم کنار کیا ہے۔ آج کا انسان ایسا بہت کچھ کرسکتا ہے جس کے بارے میں کل تک صرف سوچا ہی جاسکتا تھا، اور کبھی کبھی تو یہ بھی ممکن نہیں ہوتا تھا۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ دنیا بھر میں کروڑوں انسان گھر بیٹھے باقی دنیا کا کام کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق معاوضہ پاتے ہیں۔ یہ سب کچھ آئی ٹی سیکٹر کی بے مثال ترقی کی بدولت ممکن ہوسکا ہے۔
بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک نے آئی ٹی سیکٹر میں ممکن بنائی جانے والی حیران کن پیش رفت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اُس کا پھل بھی پایا ہے۔ بھارت اس سلسلے میں ایک واضح مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ بھارت بہت بڑا ملک ہے اور اُس کی معیشت بھی بہت بڑی ہے مگر اِس کے باوجود آبادی کی واضح اکثریت کے لیے معاشی مشکلات آج بھی کم نہیں ہوئیں۔ افلاس کی سطح بھارت میں آج بھی بہت بلند ہے۔
کسی بھی حکومت کے لیے ملک کے تمام اہل افراد کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہاں، حکومت ایسے حالات ضرور پیدا کرتی ہے جن سے لوگوں کے لیے کمانا آسان ہوجائے۔ بھارت میں یہی ہوا ہے۔ قومی ترقی کی سوچ خوب پروان چڑھی ہے۔ حکومت نے نئی نسل کو ایسے بہت سے مواقع فراہم کیے ہیں جن سے مستفید ہوکر وہ اپنے لیے تاب ناک مستقبل کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ نئی نسل کو صرف راہ دکھانے کی ضرورت ہے، منزل وہ خود تلاش کرلیتی ہے اور وہاں تک پہنچ بھی جاتی ہے۔ بھارت کا تجربہ دنیا کے سامنے ہے۔ کئی بھارتی شہر اب آئی ٹی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ حکومت کی پالیسیاں بھی خاصی دوستانہ ہیں، یعنی جو لوگ آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہوکر باقی دنیا سے معاملت کرتے ہیں اُنہیں سہولتیں بھی ملتی ہیں اور رعایتیں بھی۔ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر آئی ٹی سیکٹر مضبوط ہوگا تو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو معقول روزگار میسر ہوگا اور وہ حکومت کی طرف دیکھتے رہنے سے گریز کریں گے۔ اگر نوجوانوں کو ڈھنگ سے کمانے کے مواقع آسانی سے میسر ہوں تو وہ بھلا کیوں سرکاری ملازمت کے چکر میں پڑیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں آئی ٹی سیکٹر سے جُڑے ہوئے لوگ سرکاری ملازمت سے کہیں زیادہ کمانے میں کامیاب ہیں اور مواقع بھی بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
مشرقِ بعید کے چند ممالک بھی بھارت کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے نوجوانوں کے لیے آئی ٹی سیکٹر میں پنپنے کے بہتر مواقع پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جن ممالک میں بنیادی ڈھانچا مضبوط ہے یعنی دیگر تمام بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ بجلی بھی معقول طور پر دستیاب ہے، وہاں آئی ٹی سیکٹر کے پنپنے کی گنجائش غیر معمولی ہے۔ بجلی تواتر سے دستیاب ہو تو آئی ٹی سیکٹر سے وابستہ نوجوانوں کے لیے اپنے غیر ملکی آجروں سے رابطہ قائم کرنا اور اُن کے دیے ہوئے کام وقت پر کرنا ممکن ہوپاتا ہے۔ بعض چھوٹے اور پس ماندہ ممالک نے آئی ٹی پارکس بناکر نئی نسل کو بجلی، انٹرنیٹ اور دیگر سہولتیں فراہم کی ہیں تاکہ وہ اپنے غیر ملکی آجروں کا کام ڈھنگ سے کرکے ملک کے لیے خطیر زرِمبادلہ کا اہتمام کرسکیں۔
فی زمانہ کسی بھی پس ماندہ یا ترقی پذیر ملک کے لیے فزیکل ایکسپورٹس یعنی اموالِ تجارت کی برآمدات کے شعبے میں بڑے اور ترقی یافتہ ممالک سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی۔ چین نے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں اپنا آپ بخوبی منوایا ہے۔ اس وقت کوئی بھی ملک اشیا کی برآمدی تجارت میں چین کو پچھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چین بہت بڑے پیمانے پر تجارتی مال تیار کرتا ہے۔ اُس کی اپنی مارکیٹ بھی بہت بڑی ہے۔ اپنی مارکیٹ کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدی تجارت کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کرنا پڑتی ہے۔ اس کے نتیجے لاگت اِتنی کم رہ جاتی ہے کہ کوئی بھی ملک مقابلے پر آنے کا سوچتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔ سُوئی سے کاروں تک ہر چیز چین میں سستی پڑتی ہے۔
جو ممالک مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین کا سامنا کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے وہ آئی ٹی سیکٹر میں اپنی بات منوا سکتے ہیں، عالمی برادری میں اپنی پوزیشن بہتر بناسکتے ہیں۔ بھارت نے یہ کر دکھایا ہے۔ اُس کے نالج ورکرز میں آئی ٹی سیکٹر کے پروفیشنلز نمایاں ہیں اور ملک کو بہت کماکر دے رہے ہیں۔ یوں کہیے کہ آئی ٹی سیکٹر بھارت کا کماؤ پُوت ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں؟ ہماری نئی نسل کسی بھی اعتبار سے کمتر نہیں۔ اس میں صلاحیت کی کمی ہے نہ جذبے کی۔ پھر کیا سبب ہے کہ ہمارے ہاں آئی ٹی سیکٹر بھارت کی طرح بھرپور انداز سے پنپنے میں ناکام رہا ہے۔
ہمارے ہاں آئی ٹی سیکٹر کے پنپ نہ سکنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے اِس شعبے سے مستفید ہونے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور رہی ہیں اور زمینی حقیقتیں کچھ اور۔ نئی نسل منتظر ہی رہی ہے کہ حکومت اس شعبے کو توجہ سے نوازے تو کُھل کر کام کیا جائے۔ یہ شعبہ کماکر دینے کی بھرپور صلاحیت و سکت رکھتا ہے۔ ایسے میں نئی نسل کا حکومت کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھنا ذرا بھی حیرت انگیز نہیں۔
پاکستان میں توانائی کا مسئلہ حل ہوکر نہیں دے رہا۔ حکومت اگر اس ایک مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ملک بھر میں لاکھوں افراد گھر بیٹھے کام کریں اور اُن کی زندگی میں سکون ہی سکون ہو۔ بجلی میسر ہو تو لوگ بیرونی آجروں کے لیے کچھ کرنے کا سوچیں۔ یوں بجلی کی بلاخلل فراہمی سے نئی نسل کو زیادہ اور بہتر کام کرنے کی تحریک مل سکتی ہے۔
ایسا تو خیر نہیں ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ بالکل نہیں پایا جاتا، یا بیرونی اداروں کے لیے کام کرنے والے بالکل نہیں ہیں۔ بہت سے بیرونی اداروں کا کام بھی ہمارے ہاں خوب ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام سوفٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور ویب سائٹ ڈیزائننگ تک محدود ہے، چند ایک کال سینٹر بھی ہیں، مگر اِس شعبے کو پروان چڑھانے پر دھیان نہیں دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے مراعات بھی نہیں ہیں۔ بنیادی سہولتیں بھی ڈھنگ سے میسر نہیں۔ اگر حکومت بڑے شہروں میں آئی ٹی پارکس یا آئی ٹی سٹیز بنانے پر توجہ دے تو آئی ٹی سیکٹر میں کام کرنے والوں کو ایک مخصوص علاقے میں کام کرنے کی تحریک مل سکتی ہے۔ ایسی صورت میں کام کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہوگی اور زیادہ کام کرنا بھی ممکن ہوسکے گا۔ یوں ملک کو خطیر زرِمبادلہ بھی تیزی سے اور زیادہ مل سکے گا۔