مولانا مودودی ؒسے ملاقاتوں کی روداد،ممتاز صحافی عارف الحق عارف کی کتھا

(تیسرا حصہ )

کشمیر کے ایک چھوٹے گائوں سےسب سے بڑے شہر کراچی کا سفر

مولانا مودودیؒ کے خلاف مفتی ولی حسن سے فتویٰ لینے کی ”سازش“

سوال: یہ تو بڑا انکشاف ہے کہ اس دن کیا ہوا تھا! پھر وزیراعلیٰ کےلیے پیر صاحب نے کس کی حمایت کی؟

جواب: جب ہم کنگری ہاؤس پہنچے تو ڈرائنگ روم میں اور لوگوں کے ساتھ ایک طرف نوازشریف بھی بیٹھے ہوئے نظر آئے تھے۔ ہم تو پیر صاحب کے پاس کچن کے ساتھ کمرے میں چلے گئے۔ پیر صاحب کا خادم باری باری آتا اور بتاتا کہ کون ملنا چاہتا ہے اور ساتھ یہ بھی بتاتا کہ وہ گورے رنگ کے لاہور والے بھی ہیں۔ اشارہ نوازشریف کی طرف ہوتا، تو پیر صاحب کہتے ”ابھی بیٹھے رہنے دو“۔ جب مخدوم زادہ حسن محمود پیر صاحب سے مل کر جاچکے تو پیر صاحب نے خادم سے کہا ”اُس (نوازشریف) کو اندر بھیج دو“۔ اس وقت پیر صاحب کے پاس ہمارے سوا کوئی نہیں تھا۔ نوازشریف اندر آئے، سلام کیا اور ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہوگئے۔ پیرپگارا نے اُن کو کہا کہ ”مبارک ہو، میں نے تمہاری حمایت کردی ہے، لیکن تم میرے نہیں بلکہ جنرل ضیاالحق کے نمائندے ہو۔ جنرل اور میرا خیال کرنا۔“ نوازشریف کے چہرے پر خوشی کی چمک واضح تھی۔ یہ سب کچھ دو تین منٹ میں ختم ہوگیا اور نوازشریف خوشی خوشی وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اُن کو وہ سب کچھ مل گیا تھا جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔

سوال:آپ تو ایک صحافی تھے، آپ نے پیر صاحب کے سیاسی مشیر کا کردار کیوں اختیار کیا؟ یہ بات تو اور بھی قابل اعتراض ہے، کہ آپ کا تعلق تو نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے تھا۔

جواب: اس اعتراض میں بڑا وزن ہے، واقعی صحافی کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ ہم اس بات سے متفق ہیں کہ ایک صحافی کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں غیر جانب دار ہونا چاہیے اور ہم نے اپنی پوری صحافتی زندگی میں اپنے عمل سے اپنی غیر جانب داری کو ثابت کیا۔ کبھی بھی کسی دوسری سیاسی جماعت نے اس کی شکایت نہیں کی۔ اس پر ہم نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس تعلق نے ہمیں غیر جانب داری کے راستے سے متزلزل نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے لیڈر نے ہمیشہ ہمیں احترام دیا اور ہم پر جانب داری یا توڑ مروڑ کر خبروں کو پیش کرنے کا الزام نہیں لگایا۔ یہ احترام ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اب رہا آپ کا یہ سوال کہ ہم نے ایک صحافی ہونے کے باوجود پیر پگارا کے مشیر کا کردار کیوں ادا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کا ایک شہری ہونے کی حیثیت سے ایک صحافی کا بھی فرض بنتا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور اسے اس کے نظریے کے مطابق چلانے پر کڑی نظر رکھے اور کوشش کرے کہ ملک کے اساسی آئین کے مطابق چلے اور اگر وہ کوئی کردار ادا کرسکے تو ضرور کرے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں پیرپگارا کا قریبی دوست بننے کا موقع ملا، اور چوں کہ اُس وقت کے حالات میں اُن کی قیادت میں مسلم لیگ ہی کو اقتدار ملنا تھا اور وہی دائیں بازو کی وہ جماعت تھی جو پاکستان کی خالق تھی، اس لیے ہم نے اس دوستی سے فائدہ اٹھایا اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے ان کو مشورے دیے اور جنگ جیسے اخبار کو استعمال کیا۔ پھر ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس سارے معاملے میں ہمیں میرِ صحافت میر خلیل الرحمٰن کی مکمل آشیر باد حاصل تھی۔ اس لیے ہم نے پیر پگارا کا پورا ساتھ دیا اور انہیں ہر وہ مشورہ دیا جو ان کو اقتدار کے قریب کررہا تھا۔ ان میں تین مشورے قابل ذکر ہیں: ایک 1981ء میں محمد خان جونیجو کا نام وزیراعظم کی حیثیت سے نامزد کرنا، اور دوسرے غیر جماعتی انتخاب میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگی ارکان کی تعداد کو خفیہ رکھنا اور یہ اعلان کرنا کہ ہمارے ہم خیال بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہم ہی حکومت بنائیں گے، اور تیسرے بڑی پارٹی بن جانے کے بعد اس بات پر ضد کی حد تک اصرار کہ اگر وزیراعظم سندھ سے لیا جائے گا تو وہ محمد خان جونیجو ہی ہوگا۔

سوال: آپ نے جماعت اسلامی اور پیر پگارا کے درمیان بلدیاتی انتخابی اتحاد کیسے قائم کروایا؟

جواب: ہوسکتا ہے بعض لوگ اس سوال پر حیرت کا اظہار کریں کہ ایک اخبار نویس کیسے اس قدر اثر رسوخ رکھ سکتا ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں میں سیاسی اتحاد کرادے؟ ایسا خیال رکھنے والوں کی یہ سوچ بالکل ٹھیک ہے اور ہم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم اتنے بڑے صحافی نہیں تھے۔ اُس وقت ہم سے زیادہ اثر رسوخ رکھنے والے صحافی موجود تھے اور زیادہ تجربہ رکھتے تھے۔ اُن کے مقابلے میں ہم جونیئر بھی تھے اور زیادہ تجربہ بھی نہیں تھا، لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی پر مہربان ہوجاتا ہے اور اس کو کوئی بڑا کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس میں اُس کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے پیر پگارا کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ وہ ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور پھر یہ دوستی بے تکلفی کی حدود کو پہنچ گئی۔ پھر ملک کے حالات بھٹو کی پھانسی کے بعد افراتفری کا شکار ہوگئی اور یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ کوئی عبوری یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت بن رہی ہے۔ ان حالات میں پیر پگارا اہمیت اختیار کرگئے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذہن میں اچانک یہ بات ڈال دی کہ پیر پگارا سے اس مجوزہ حکومت کے وزیراعظم کا نام پوچھیں۔ یہ سلسلہ یہاں سے شروع ہوا۔ اس طرح ہمیں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہم سے لے لیا۔

سوال: ٹھیک ہے، لیکن آپ نے کیسے دونوں جماعتوں کو اس پر راضی کیا؟

جواب: آپ حیران ہوں گے کہ ہم نے دونوں جماعتوں سے بحیثیت جماعت بات کی اور نہ ان کو اس پر راضی کیا۔ یہ کام صرف پیر پگارا سے دوستی کا فائدہ اٹھا کر اور اُن کو اعتماد میں لے کر کیا۔ اس کا آغاز 1983ء میں بلدیاتی انتخابات سے ہوا۔

سوال : آپ نے مولانا مودودیؒ کا نام پہلی بار کب سنااور ان کے لٹریچر سے کیسے متاثر ہوئے اور کون سی کتاب سب سے پہلے پڑھی ؟

جواب: آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ 1۔ مولانا مودودیؒ کا نام پہلی بار کب سنا؟ اور 2۔ ان کی کون سی کتاب سب سے پہلے پڑھنے کا موقع ملا؟ ہم دونوں کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پہلے یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ ہمارے وہ محسن ہیں جنہوں نے ہماری زندگی کے دھارے کو بالکل بدل دیا۔ اگر ہم ان سے واقف نہ ہوتے، ان کا لٹریچر نہ پڑھتے اور ان کی فکری طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ اور عوامی جماعت جماعت اسلامی میں شامل نہ ہوتے تو نہیں جانتے کہ ہماری بے مقصد زندگی ہمیں کہاں لے جاتی، اور کم از کم جو بات ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اس مقام پر نہ ہوتے جس پر ہم اِس وقت ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی نظریاتی تربیت، اور جمعیت اور جماعت میں ان کے تربیت یافتہ قائدین اور ساتھیوں کی پُرخلوص رہنمائی اور مسلسل ساتھ کی وجہ سے ہےجس نے زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ ہم نے مولانا کا نام سب سے پہلے اُس وقت سنا، جب ہم آٹھویں جماعت میں تھے اور اسکول میں ان کی زیرادارت شائع ہونے والے ماہ نامہ ”ترجمان القرآن“ کو دیکھا اور پڑھا۔ یہ رسالہ ہمارے اسکول کے فارسی کے استاد محمد حُسین منگواتے تھے، پھر جب وہ پڑھ لیتے تو اسے باری باری کئی دوسرے اساتذہ بھی پڑھتے اور اس کے بعد ہمیں بھی اس سے استفادے کا موقع مل جاتا تھا۔

سوال: یہ تو ایک سنجیدہ علمی جریدہ ہے۔ اس میں علمی مضامین ہوتے ہیں۔ آپ تو 16-15 سال کے طالب علم تھے۔ اس میں آپ کی دلچسپی والی کیا چیز تھی؟

جواب: اِس زمانے میں ترجمان میں مولانا مودودی اور ڈاکٹر عبدالودود کے مابین سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں بڑی دلچسپ مراسلت چل رہی تھی جس کا آغاز ڈاکٹر عبدالودود نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مآخذِ قانون و آئین ہونے کے بارے میں ایک سوال سے کیا تھا، جس کا جواب مولانا نے مختصر مگر جامع دیا تھا، لیکن پھر سوال سے سوال پیدا ہوتے گئے اور یہ خط کتابت یا تحریری مکالمہ یا مناظرہ طول کھینچ گیا۔ اس نے علمی حلقوں میں بڑی دلچسپی پیدا کردی تھی۔ پھر یہی مراسلت مولانا کی نظرثانی کے بعد ”سنت کی آئینی حیثیت“ کے نام سے شائع ہوئی۔ علمی حلقوں کا خیال تھا کہ مشہور منکرِ حدیث غلام احمد پرویز ہی ڈاکٹر عبدالودود کے فرضی نام سے مولانا مودودی سے خط کتابت کررہے ہیں اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں۔ بہرحال اگر وہ واقعی ایک الگ شخصیت تھے تو ان کا تعلق غلام احمد پرویز کے قبیلے ہی سے تھا۔

سوال: کتاب کون سی پڑھی؟ آپ یہ تو بھول گئے۔

جواب: جب ہم نویں جماعت میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ مولانا کی مشہور کتاب رسالہ ”دینیات“ ہماری نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں شامل ہے، جسے ہمارے دو اساتذہ مولانا غلام محمد اور مولانا محمد اسمٰعیل سبقاً سبقاً پڑھاتے تھے۔ مولانا غلام محمد دیوبند کے فارغ التحصیل تھے، جب کہ مولانا اسمٰعیل بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ محسوس ہوتا تھا کہ دونوں کو مولانا مودودی کی یہ کتاب پڑھاتے ہوئے کچھ تحفظات تھے لیکن چونکہ یہ کتاب دوسری مذہبی کتابوں کے ساتھ نصاب میں شامل تھی اس لیے اسے پڑھانا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ اس طرح ہمیں مولانا کی یہ مشہور کتاب بھی ان سے پڑھنا پڑی اور مولانا کے مدلل دلائل اور ان کی فکر نے متاثر کیا۔ ہم نے 1960ء میں کراچی آنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد ملازمت اور مزید تعلیم کا حصول تھا۔

جہاں تک مولانا سے ملاقات کا تعلق ہے، اس کا موقع کراچی آنے کے بعد ملا۔ ہمیں مولانا کو دیکھنے اور اُن سے ملاقات کرنے کا بڑا اشتیاق تھا جس کا موقع 1964ء میں ملا۔ ہم اُس وقت کے پی ٹی میں ملازمت کرنے کے ساتھ اردو کالج میں بی اے سال دوم کے طالب علم تھے۔ کالج کی چھٹیاں تھیں۔ ہم ملازمت سے دو ماہ کی چھٹی لے کر آزاد کشمیر گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر مولانا سے ملاقات کی خاطر لاہور میں چند دن رکنے کا پروگرام بنایا۔ اس سے ہمارا دوسرا مقصد لاہور کے تاریخی مقامات اور شہر کی سیر بھی تھی۔ لاہور آنے کے دوسرے دن ہم نے اچھرہ پہنچ کر جماعت اسلامی کے دفتر اور مولانا کی رہائش گاہ 5 اے ذیلدار پارک کا پتا معلوم کیا اور وہاں پہنچ گئے۔ دفتری عملے سے اپنا مدعا بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ مولانا سے ملاقات کے لیے کراچی سے آئے ہیں۔ کراچی میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں اور یہ کہ مولانا مودودیؒ کی کتب زمانہ طالب علمی میں پڑھ چکے ہیں۔ کراچی میں جماعت کے کارکن تھے لیکن اب حال ہی میں ہم جمعیت میں شامل ہوئے ہیں۔

سوال: کیا ملاقات ہوگئی؟

جواب: ہمیں خود ان سے ملنا مشکل معلوم ہوتا تھا۔ مولانا محترم کے لیے دن کا یہ وقت چوں کہ تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف ہوتا تھا اور وہ اِس وقت کسی سے بھی ملاقات نہیں کرتے تھے لیکن ہمارے اشتیاقِ ملاقات کو محسوس کرتے ہوئے عملے نے ہمیں مولانا سے ملاقات کرانے پر اظہارِ رضامندی کردیا اور اجازت کے لیے چٹ مولانا کو بھیج دی۔ تھوڑی دیر بعد ہی ملاقات کا اشارہ آگیا اور ہم عملے کی رہنمائی میں مولانا کے کمرے کی طرف چل دیے۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، اس لیے کہ ہماری ایک دیرینہ تمنا پوری ہورہی تھی۔ ایک طرف تو ہم خوش تھے لیکن ساتھ ہی مولانا محترم کی شخصیت کا رعب بھی ہمارے حواس پر حاوی تھا کہ عالم اسلام کی اتنی بڑی شخصیت سے بالمشافہ ملاقات کیسے ہوگی؟ معلوم نہیں مولانا ہم سے کیا سوال کریں گے اور ہم ان کے جواب دے بھی سکیں گے یا نہیں؟ کیا اُن کی علمی گفتگو کو سمجھ بھی سکیں گے؟ اِن ہی مِلے جُلے جذبات اور گومگو کی کیفیت کے ساتھ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے ململ کے سفید برّاق لباس میں ایک نورانی شخصیت کو پایا جن کے چہرے پر علمی وجاہت نمایاں تھی۔ مولانا لکھنے پڑھنے کا کام چھوڑ کر ہماری طرف متوجہ تھے۔ ہم نے بڑی ہمت کرکے السّلام علیکم کہا، جس کا مولانا محترم نے بڑی محبت کے ساتھ جواب دیا اور سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم بیٹھ تو گئے لیکن ہماری زبان گنگ تھی۔ کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ ہماری یہ حالت دیکھ کر مولانا نے خود گفتگو کا آغاز کیا اور پوچھا: ”آپ کیا کرتے ہیں اور کہاں سے تعلق ہے؟“ ہم نے جب آزادکشمیر کا ذکر کیا تو مولانا بڑے خوش ہوئے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ کشمیر سے مولانا کو کوئی خاص دلچسپی ہے۔ انہوں نے نہایت شفقت سے وہاں کے حالات دریافت کیے۔ ہم نے اُنہیں اپنی معلومات کے مطابق وہاں کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ پھر خود ہی کہنے لگے ”یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ آزاد کشمیر میں پاکستان کے مقابلے میں شرح ِ خواندگی اور عام شعور زیادہ ہے۔“ انہوں نے تحریکِ اسلامی سے ہماری وابستگی کے بارے میں بھی دریافت کیا، جس کے جواب میں ہم نے انہیں اختصار کے ساتھ بتایا کہ ہم کس طرح پہلے جماعت سے متعارف ہوئے اور اب اسلامی جمعیت طلبہ میں کام کرتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی بتایا کہ اب ہم مستقل طور پر کراچی میں رہتے ہیں اور وہیں ملازمت کے ساتھ ساتھ کالج بھی جاتے ہیں۔ انہوں نے آزادکشمیر میں جماعت کے کام کے بارے میں پوچھا تو ہم نے بتایا کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اُن کی کتب اور جماعت کا تعارف ہر جگہ موجود ہے، اور جب سے ان کی مشہور کتاب ”رسالہ دینیات“ آزاد کشمیر کے نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں شامل ہوئی ہے اس کے بعد تو اساتذہ اور نوجوان طلبہ میں ان کا تعارف ہر جگہ موجود ہے۔ مولانا نے کہا آزاد کشمیر میں جماعت کے پیغام کو ہر سطح پر عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس وقت تک آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی قائم نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے مولانا محترم سے عرض کیا کہ وہاں جماعت اسلامی کا نظم قائم کرنا چاہیے، جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ پہلے کچھ لوگ جماعت اسلامی کی دعوت کو پوری طرح سمجھ لیں۔ جب ان کی تربیت اور کردار سازی ہوجائے اور وہ کام کرنے کے لیے تیار ہوجائیں تب اس پر کچھ سوچا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ہماری تعلیم کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ جب ہم نے انہیں اپنے حالات بتائے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا ذکر کیا تو انہوں نے تحسین آمیز کلمات کے ساتھ کہا: ”اگر آپ کا یہ شوق اور جذبہ اسی طرح جاری رہا تو اللہ کے فضل سے وہ دن ضرور آئے گا جب آپ جس بھی شعبے کا انتخاب کریں گے، ضرور کامیاب ہوں گے اور اعلیٰ مقام حاصل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو ضائع نہیں کرے گا۔“ آج ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو مولانا محترم کے یہ الفاظ الہامی لگتے ہیں۔

سوال: اس کے بعد بھی آپ کو مولانا سے ملنے کے مواقع ملے؟ اور کب؟ کیا آپ اس کی کچھ تفصیل بیان کرسکتے ہیں؟

‏‎جواب: اس ملاقات کے بعد ہم نے بی اے اور صحافت میں ماسٹر کیا اور 1967ء میں روزنامہ جنگ میں شامل ہوئے تو ایک صحافی کی حیثیت سے مولانا محترم کو کئی بار دیکھنے اور ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ 1972ء میں رپورٹنگ کے شعبے میں تبادلہ ہوا تو ان کی پریس کانفرنسوں اور تقریروں کی رپورٹنگ کا بھی موقع ملا اور مختلف اجتماعات میں ان کو سننے کا تو متعدد بار شرف حاصل ہوا۔ ان کی پریس کانفرنسیں اور تقریریں ان کی تحریروں کی طرح بہت ہی نپے تلے الفاظ کے ساتھ نہایت دل نشین اور پُراثر ہونے کے علاوہ اردو زبان کا اعلیٰ نمونہ ہوتیں۔ اگر ان کو براہِ راست لکھ لیا جاتا تو ان میں کہیں ترمیم و اضافے کی قطعاً ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ وہی روانی اور سلاست تقریر میں بھی ہوتی جو اُن کی تحریر کا خاصہ تھی۔

سوال: ان ملاقاتوں کے دوران کوئی خاص واقعہ جو آپ کو یاد رہ گیا ہو؟

‏‎ جواب: ہمیں ان سے ناشتے پر ایک ملاقات اچھی طرح یاد ہے۔ یہ 1968ء کی بات ہے، مولانا محترم کراچی کے دورے پر تھے اور پروفیسر غفور احمد کے گھر میں قیام پذیر تھے۔ ان دِنوں پروفیسر صاحب ناظم آباد نمبر3 میں رہائش پذیر تھے جہاں مولانا کے ساتھ ناشتے پر مختلف شخصیات اور اخبار نویسوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ہمیں جنگ کے دفتر سے اس ناشتے کی اطلاع مل گئی تھی۔ حافظ محمد اسلام صاحب جنگ کے چیف رپورٹر تھے اور سیاسی جماعتوں کی رپورٹنگ ان کی ذمے داری تھی۔ وہ تمام سیاسی و مذہبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ مولانا محترم بھی ان کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ بھی اس موقع پر مدعو تھے۔ پروفیسر غفور کا گھر ناظم آباد نمبر تین میں تھا اور ناظم آباد نمبر ایک میں ہمارے گھر کے بہت قریب تھا، اس لیے ہم تو مقررہ وقت پر پہنچ گئے تاکہ مولانا کی قربت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ دوسرے مہمان اور صحافی بھی دیے گئے وقت پر آچکے تھے۔ ان کو علم تھا کہ مولانا اور جماعت اسلامی ہر پروگرام میں وقت کی پابندی کا خیال رکھتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے مولانا سے ناشتہ شروع کرنے کی درخواست کی مگر مولانا نے یہ ذومعنی جملہ ادا کرکے سب کو حیران کردیا کہ ”جب تک اسلام نہیں آئے گا، میں ناشتہ نہیں کروں گا۔“ اصل بات یہ تھی کہ جنگ کے چیف رپورٹر حافظ محمد اسلام ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ اُس زمانے میں جماعت اسلامی نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک شروع کر رکھی تھی اور مولانا بھی اسی سلسلے میں کراچی کے دورے پر تھے۔ اِس پس منظر میں انہوں نے حافظ اسلام کے نام کو اس طرح بیان کیا تھا کہ اس میں ایک ذومعنویت پیدا ہوگئی تھی جس کا وہاں موجود سب حضرات نے خوش گوار لطف لیا۔ تھوڑی دیر میں حافظ محمد اسلام مسکراتے ہوئے داخل ہوئے اور دیر سے آنے کی معذرت کی۔ ان کے آتے ہی ناشتہ لگا دیا گیا اور ہم سب نے اس عبقری شخصیت کے ساتھ ناشتہ تناول کیا، جس کے دوران میں ہر قسم کے سوال جواب ہوئے اور ہلکی پھلکی بات چیت اور ہنسی مذاق کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

‏‎ہمیں مولانا سے ایک اور ملاقات بھی یاد ہے۔ وہ کراچی کے دورے پر تھے، ان کی دوسری جماعتی سرگرمیوں کے علاوہ ایک پروگرام میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی (ادارہ معارف اسلامی) کے سالانہ اجلاس میں شرکت بھی تھی۔ وہ اس کے سربراہ تھے۔ اس کا قیام چند سال پہلے عمل میں آیا تھا جس کا مقصد اسلام کے مختلف موضوعات پر تحقیق وتصنیف اور اس میدان کے لیے جدید تعلیم یافتہ نوجوان اسکالرز کی تربیت تھی۔ ہماری یادداشت کے مطابق یہ اجلاس بھی 1968ء میں ہوا تھا۔ اکیڈمی کا دفتر اُس وقت ناظم آباد نمبر1 میں عزیزیہ مسجد کے قریب ریکس سینما کو جانے والی سڑک پر عائشہ منزل پر تھا۔ ہم بھی اس کے نزدیک ہی رہتے تھے اور اکیڈمی میں ہمارا ایک کارکن کی حیثیت سے آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہمیں چند دن پہلے ہی اس اجلاس اور مولانا کی آمد کی اطلاع مل گئی تھی، ہم مولانا کو دیکھنے اور ملنے کے لیے بے تاب تھے۔ اِس لیے اُس دن اجلاس کے انتظامات اور شریک مہمانوں کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے میں اکیڈمی کے مستقل کارکنوں سعید قاضی، شیراز قاضی اور محبوب بلوچ سے تعاون کا فیصلہ کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم اس بہانے اکیڈمی میں موجود رہیں اور مولانا کو دیکھنے اور ملاقات اور ان کی گفتگو سننے کا موقع مل جائے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے، اس اجلاس میں مولانا کے علاوہ امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد، محمود اعظم فاروقی، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر الٰہی علوی (سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے والد)، مولانا عبدالعزیز، مولانا افتخار احمد بلخی، سید معروف شاہ شیرازی، مصباح الاسلام فاروقی، نثار احمد، ممتاز احمد اور سیّد منور حسن کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ وہ جمعہ کا دن تھا، سالانہ اجلاس صبح سے جاری تھا۔ مولانا اجلاس کے شرکا کے ساتھ قریب کی مسجد عزیزیہ میں تشریف لے گئے اور پچھلی صف میں جہاں جگہ ملی، بیٹھ گئے۔ مسجد عزیزیہ میں نماز ادا کی گئی۔ امام اور خطیب مسجد کو علم ہوگیا تھا کہ مولانا مودودیؒ بھی نمازیوں میں موجود ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مولانا مودودیؒ بھی مسجد میں تشریف رکھتے ہیں، اس لیے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ خطبے کے لیے آگے آجائیں اور نماز کی امامت بھی کرائیں۔ مولانا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہی خطابت اور امامت کے فرائض ادا کریں۔ پھر مولانا نے خاموشی کے ساتھ وہیں نماز ادا کی۔ چوں کہ عام نمازیوں کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ مولانا ان کے درمیان موجود ہیں، اس لیے ان سے ملنے والوں کا ہجوم ہوگیا۔ وہ ان کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔ نمازیوں کی بڑی تعداد نے مولانا سے مسجد کے صحن ہی میں مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔

سوال: اور کوئی خاص بات جو آپ نے محسوس کی، یا دیکھی؟

جواب: جی ہاں مولانا کی ایک ایسی بات معلوم ہوئی جس پر عمل کرنا عام افراد کےلیے مشکل ہوتا ہے۔ کھانے کا اہتمام اکیڈمی ہی میں تھا۔ پکوان میں مولانا کی پسند کا خیال رکھا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں کھانا لگادیا گیا۔ برنس روڈ کے وحید ہوٹل کے گولا کباب مولانا کو بڑے پسند تھے، وہ لانے کے لیے خاص طور پر ایک صاحب کو بھیجا گیا تھا جنہیں آنے میں کسی وجہ سے دیر ہوگئی۔ وہ صاحب ابھی پہنچے نہیں تھے۔ خاصا انتظار کیا گیا، پھر مولانا نے دوسروں کا خیال کرتے ہوئے کھانا لگانے کی اجازت دے دی۔ مولانا نے کھانا ختم کیا ہی تھا کہ وہ صاحب بھی کباب لے کر پہنچ گئے۔ مولانا سے درخواست کی گئی کہ ان کی پسند کے کباب آچکے ہیں، لیکن مولانا نے معذرت کرلی اور کہا: ”مَیں ایک بار جب کھانا کھا لوں تو اُس کے بعد اگر سونے کا نوالا بھی آجائے تو کبھی ہاتھ نہیں لگاتا۔ یہ میرے کھانے کا اصول ہے جس کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔“ وہاں موجود ہر شخص نے مولانا کے ان الفاظ کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اس موقع پر موجود ڈاکٹر الٰہی علوی نے ان کے اس اصول کی حکمت کو طبی طور پر درست قرار دیا۔ وہ مولانا محترم کے دہلی کے زمانے سے دوست اور اکیڈمی کی مجلسِ عاملہ کے رکن بھی تھے۔

سوال: مولانا سے ملاقاتوں کے آپ پر کیا اثرات پڑے؟

‏‎جواب: مولانا مودودیؒ سے ہمیں ایک کارکن اور صحافی کی حیثیت سے کئی بار ملاقاتوں، ان کی تقریر سننے اور سوال وجواب کی نشستوں میں شرکت کا موقع ملا جس کی وجہ سے ہمیشہ اپنے ایمان پر یقین میں اضافہ ہوا اور اپنے اندر ایک نیا جذبہ اور طاقت محسوس کی۔ مولانا کی تقریر ہو، سوال وجواب کی نشست ہو، یا عام بات چیت… اُن کے بات کرنے کا انداز ایک ہی جیسا ہوتا۔ اس میں وہی روانی اور سلاست ہوتی جو اُن کی تحریر میں ملتی ہے۔ صحافیوں کے ساتھ ان کا رویہ باہمی احترام کا ہوتا، اور اگر کوئی مخالف نظریات رکھنے والا صحافی ان سے کٹ حجّتی کرتا تو اس کا بھی کبھی برا نہ مناتے اور اس کو اپنے مدلّل جواب سے مطمئن کرتے۔ مولانا آج کل کی طرح روزانہ سیاسی بیان نہیں دیتے تھے، بلکہ وقت ِ ضرورت ہی بیان جاری کرتے۔ ہم صحافی اور عام لوگ مولانا کے بیان کے منتظر رہتے۔

ایک اور ملاقات کا تاثر آج تک نہیں بھولا۔ ہمیں تاریخ اور سال تو یاد نہیں لیکن لاہور میں جماعت اسلامی کا مرکز منصورہ منتقل ہوچکا تھا اور ہم لاہور میں تھے۔ مولانا منصورہ پہلی بار جارہے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ مولانا کی طبیعت ان دنوں ٹھیک نہیں تھی لیکن جماعتی قیادت اور کارکنوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے منصورہ تشریف لائے۔ وہ منظر آج بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ ان کے ہزاروں شیدائی منصورہ کے سرسبز میدان میں جمع تھے اور مسلسل ”اللہ اکبر“ اور ”سیّدی مودودیؒ“ کے فلک شگاف نعروں سے ان کا استقبال کررہے تھے۔ مولانا سے محبت اور عقیدت کا یہ بڑا متاثرکن مظاہرہ تھا جس سے وہاں موجود ہر شخص عقیدت کے جذبات کے ساتھ اشک بار تھا۔ صحافیوں کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔ ہم نے اپنے قریب دو ممتاز صحافیوں اور قابل احترام کالم نگاروں محترم م۔ ش اور عبدالقادر حَسن کو اشک بار دیکھا، جو مولانا سے ان کے خصوصی تعلق کا مظہر تھا۔

سوال: مولانا کا امریکہ میں انتقال ہوا تو آپ کہاں تھے؟ اس کا آپ پر کیا اثر ہوا؟

جواب: سیّد مودودیؒ کا انتقال 23 ستمبر 1979ء کو امریکہ کے شہر بفیلو میں ہوا جہاں وہ اُسی سال مئی میں علاج کی غرض سے اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے پاس گئے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ دنیا کے کونے کونے میں موجود اُن کے لاکھوں عقیدت مندوں نے یہ خبر بڑے صدمے کے ساتھ سنی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر باربار نشر کررہے تھے اور مولانا کی شخصیت، ان کے علمی کارناموں اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ان کی کاوشوں کا ذکر کررہے تھے۔ ہم اُس دن جنگ کے رپورٹرز روم میں تھے کہ نیوز روم میں ٹیلی پرنٹر کی گھنٹیاں بجنے کی تیز تیز آوازیں آنے لگیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کوئی بڑی بریکنگ نیوز ہے۔ اُس دَور میں کسی بڑی خبر سے نیوز روم کو متوجہ کرنے کا یہی طریقہ تھا اور اخبارات فوری طور پر وہ خبر قارئین تک پہنچانے کے لیے اخباری ضمیمہ بھی شائع کیا کرتے تھے۔ یہ بریکنگ نیوز مولانا مودودیؒ کے انتقال پُرملال کی تھی۔ خبر سنتے ہی ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے اِس دنیا میں ہماری سب سے عزیز ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہو۔ ہماری آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا اور آنکھوں سے ایک جھڑی کی صورت آنسو رواں ہوگئے۔ ہم اِسی حال میں تھے کہ نیوز ایڈیٹر محمود مدنی نے ہمیں اپنے کمرے میں طلب کیا۔ ان کا بھی غم سے برا حال تھا، وہ بھی مولانا کے فدائی تھے۔ انہوں نے ہمیں مولانا کے سانحہ ارتحال کی خبر لکھنے کی ہدایت کی۔ اس طرح روزنامہ جنگ میں ان کے انتقال کی خبر لکھنے کی سعادت ہمیں ہی حاصل ہوئی جو شہ سرخیوں کے ساتھ سب سے بڑی خبر کے طور پر شائع ہوئی۔

سیّد مودودیؒ کے انتقال کے بعد بفیلو میں پہلی نمازِ جنازہ ہوئی اور ان کے جسدِ خاکی کو 25ستمبر کی صبح نیویارک سے پاکستان کے لیے روانہ کیا گیا۔ ان کے جہاز کا پہلا پڑاؤ لندن میں تھا جہاں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر ان کی دوسری نمازِ جنازہ پڑھی گئی، اور لندن اور برطانیہ کے دُور دراز شہروں اور علاقوں سے ان کے چاہنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں مولانا کی شخصیت اور علمیت سے متاثر الطاف گوہر بھی شامل تھے جو چند برس قبل مولانا سے قیدِ تنہائی کے دوران میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کے ذریعے متعارف ہوئے تھے اور ڈان میں تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی شائع کیا تھا۔ الطاف گوہر نے مولانا کے جنازے میں شرکت کا احوال بی بی سی کے ایک پروگرام میں ’’عزیز ِ جہاں‘‘ کے نام سے پیش کیا تھا، جس کو بہت سنا اور پسند کیا گیا تھا۔

لندن سے اُن کا جسدِ خاکی پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لایا گیا۔ اس کی اطلاع پہلے سے عاشقان ِ مودودیؒ کو تھی، اس لیے جہاز کی آمد سے پہلے ہی ہزاروں لوگ ایئرپورٹ پہنچے اور اشک بار آنکھوں سے ان کا جسدِ خاکی وصول کیا۔ ایئرپورٹ کے سامنے کھلے میدان میں نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا گیا تھا، وہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں کراچی اور سندھ کے بڑے شہروں سے آنے والے ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد ان کی میّت لاہور لے جائی گئی۔ یہ اعلان پہلے سے کردیا گیا تھا کہ اگلے روز لاہور میں مولانا کی نماز جنازہ اور تدفین ہوگی۔

سوال: ہم نے سنا ہے کہ لاہور کے مشہور قذافی اسٹیڈیم میں مولانا کی نماز جنازہ لاہور اور ملک کی تاریخ کا بڑا جنازہ تھا۔آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: ہم نے خود اس جنازے میں شرکت کی تھی اور اسی دن رات 8 بجے کی پرواز سے واپس کراچی جاکر ان کے اس جنازے اور تدفین کی خبر بھی فائل کی تھی۔ کراچی میں مولانا کی نمازِ جنازہ کے بعد ان کے جسدِ خاکی کو اسی دن لاہور لے جایا گیا۔ ہم بھی دوسرے دن صبح کی پرواز سے لاہور پہنچے اور ایئرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم کے لیے روانہ ہوئے جہاں ان کی نماز جنازہ ہونی تھی۔ ائیرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم جاتے ہوئے ہم نے پورے لاہور کو سوگوار دیکھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ لاہور کے سب راستے قذافی اسٹیڈیم کو جارہے ہیں۔ اُس دن ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ ایک عالِم کی موت عالَم (دنیا) کی موت ہوتی ہے۔ لوگ بسوں، ویگنوں، کاروں، ٹیکسیوں، موٹر سائیکلوں، تانگوں کے ذریعے اور پیدل قذافی اسٹیڈیم کی طرف رواں تھے۔ قذافی اسٹیڈیم میں عوام کا جم ِ غفیر نماز جنازہ کے لیے اُمڈا چلا آرہا تھا۔ پورے پاکستان سے لوگ ان کا آخری دیدار اور ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور میلوں قطار میں بڑے منظم انداز میں عالم اسلام کے اس عظیم مفکر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ جماعت کے کارکن اس وقت بڑے ہجوم کی جگہ جگہ رہنمائی اور انہیں منظم کرنے کے لیے موجود تھے اور اس امر کا ثبوت دے رہے تھے کہ جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم جماعت ہے۔ یہ بڑا ہی دل خراش منظر تھا۔ ہزاروں لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور مولانا کو دعاؤں کے ساتھ آخری منزل کے لیے رخصت کررہے تھے۔ مولانا کی نمازِ جنازہ امام کعبہ کو پڑھانا تھی لیکن ان کے نہ آنے کی وجہ سے عالمِ اسلام کی سب سے بڑی علمی شخصیت علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھائی جو علمی میدان میں مولانا کے خوشہ چین تھے۔ اس جنازے میں اُس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر ضیاء الحق کے علاوہ ملک کے سیاسی لیڈروں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔ نماز جنازہ کے وقت پورا قذافی اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ باہر اس کے چاروں طرف کی گلیوں میں موجود تھے۔ بلاشبہ یہ جنازہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا جنازہ تھا۔ ہم نے کچھ بزرگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ قائداعظم کے جنازے کے بعد یہ سب سے بڑا جنازہ تھا، جس میں لوگوں نے سیاسی اور مذہبی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر شرکت کی تھی۔

سوال: مولانا کی تدفین کہاں ہوئی؟

جواب: جنازے کے بعد مولانا کے جسدِ خاکی کو اُن کی رہائش گاہ، 5 اے ذیل دار پارک، اچھرہ لایا گیا۔ ہم بھی وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جماعت اسلامی مولانا کی تدفین جماعت کے نوتعمیر مرکز منصورہ میں کرنا چاہتی تھی لیکن اُس نے مولانا کے اہلِ خانہ کی اچھرہ میں تدفین کی خواہش کے احترام میں اس پر زیادہ زور نہ دیا۔ مولانا کی تدفین اُن کی کوٹھی کے صحن کے اُسی مقام پر ہوئی جہاں وہ برسوں نمازِ عصر کے بعد اپنے ملنے والوں سے ملاقات کرتے اور ان کے سوالوں کے جوابات دیتے تھے۔ ہم بھی اس محفل میں دو چار بار شریک ہوئے تھے۔ تدفین کے موقع پر کوٹھی کو ہجوم سے بچانے کے لیے اندر سے داخلے کے بڑے گیٹ کو بند کردیا گیا تھا، لیکن ہم اُس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور تدفین کے آخر تک وہیں موجود رہے۔ مولانا کو جب قبر میں اتارا گیا تو بڑے ہی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ وہاں موجود تمام افراد افسردہ تھے اور ان کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ اس موقع پر ہمیں جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے قائدین کے علاوہ وہ لوگ بھی نظر آئے جو 1957ء میں مولانا محترم سے اختلافِ رائے کی وجہ سے جماعت سے الگ ہوگئے تھے، ان میں راؤ خورشید علی اور دیگر شامل تھے۔ ان سب کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔ ہم مولانا کی تدفین کے بعد اُسی رات واپس کراچی پہنچے، ائیرپورٹ سے سیدھے دفتر گئے اور مولانا کے جنازے اور تدفین کا آنکھوں دیکھا حال خبر کے طور پر لکھا، جو اخبار کی دوسرے دن کی اشاعت میں شامل ہوا۔ اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی قبر کو نور سے بھر دے جنہوں نے ہماری طرح لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو اپنی عظیم تفسیر تفہیم القرآن اور دوسری لاتعداد کتب اور اپنے اُجلے کردار کے ذریعے بدل دیا تھا۔

سوال: سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک انٹرویو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا، انٹرویو لینے والے پینل میں ریڈیو کے سلیم گیلانی، مشہور ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار سلیم احمد اور کالم نگار عبدالقادر حسن شامل تھے، لیکن اس کے بعد کسی بات پر فتنہ یا فساد پیدا ہونے کا خدشہ ہوا۔ اس کی کیا تفصیلات ہیں؟

جواب: کیا یاد دلادیا آپ نے۔ یہ بڑی دلچسپ اور طویل کہانی ہے۔ یہ 1978ء کی بات ہے۔ بانی جماعت سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک انٹرویو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا جس کی بڑے پیمانے پر ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی پر تشہیر کی گئی تھی۔ اِس لیے اس کا بڑا چرچا تھا۔ انٹرویو لینے والے پینل میں ریڈیو کے سلیم گیلانی، مشہور ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار سلیم احمد اور کالم نگار عبدالقادر حسن شامل تھے۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نافذ ہوئے دوسرا سال تھا اور ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی بعض جماعتیں بھی عبوری حکومت میں شامل تھیں جن میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، چودھری رحمت الٰہی، محمود اعظم فاروقی اور پروفیسر خورشید احمد بھی شامل تھے۔

سوال: تو یہ انٹرویو اُس وقت ہوا جب وزارتِ اطلاعات جماعت کے محمود اعظم فاروقی کے پاس تھی؟

جواب: جی ایسا ہی تھا۔ محمود اعظم فاروقی، وفاقی وزیراطلاعات و نشریات تھے۔ اس انٹرویو کا پینل ابلاغِ عامہ کے تین بڑے لوگوں پر مشتمل تھا جن میں ملک کے مایہ ناز ادیب، شاعر، نقاد، ڈراما نگار اور کالم نگار سلیم احمد، مشہور شاعر، صداکار اور ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر سلیم گیلانی اور ملک کے صفِ اوّل کے اخبار نویس اور کالم نگار عبدالقادر حسن شامل تھے۔ اس لحاظ سے یہ بہترین پینل تھا جس کا مرتبہ علمی طور پر بھی بہت بلند تھا۔ ہم اُس زمانے میں عربی کی کلاسیں لینے روزانہ دارالعلوم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن جاتے تھے اور کلاس کے بعد مفتی ولی حسن کے پاس کچھ وقت گزارتے تھے۔ ہم نے مفتی ولی حسن سے اس انٹرویو کا تذکرہ پہلے ہی کردیا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ اسے ضرور سنیں اور اس پر اپنی رائے بھی دیں۔ جس رات یہ انٹرویو نشر ہوا ہم کسی دفتری مصروفیت کی وجہ سے اسے سن نہ سکے، اس لیے اُس کے دوسرے دن ہم عربی کی کلاس میں شرکت کے بعد معمول کے مطابق مفتی ولی حسن کے کمرے میں گئے تو چائے پینے کے دوران میں ہم نے اُن سے پوچھا ’’آپ نے مولانا کا انٹرویو سنا؟‘‘ جس کا جواب انہوں نے اثبات میں دیا۔ ہم نے دریافت کیا ’’انٹرویو کیسا تھا؟ اور کیا مولانا نے کوئی متنازع بات تو بیان نہیں کردی؟‘‘ اس پر انہوں نے تھوڑی دیر سوچا، پھر کہنا شروع کیا ’’مجموعی طور پر تو انٹرویو ٹھیک تھا مگر ایک جگہ ایسی بات بیان ہوگئی ہے جس سے اگر کوئی چاہے تو فتنہ پیدا کرسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انٹرویو میں کاٹ چھانٹ کی گئی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا۔‘‘ جہاں تک ہمیں یاد ہے وہ متنازع جملہ یہ تھا: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے کی پابندی لازمی نہیں، اختیاری ہے۔‘‘ انٹرویو میں اس کی تفصیل نہیں تھی اور نہ کسی واقعے یا حدیث کا ذکر تھا، جس سے مولانا نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا۔ ہم دونوں کی رائے تھی کہ ممکن ہے، مولانا نے اس حدیث کا ذکر کیا ہو جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورے کے بعد کھجوروں کے پودے لگائے تھے اور ان سے پھل نہ آنے پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ وہ میری ذاتی رائے تھی اور تم کھجوروں کی فصل کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہو اس لیے میری رائے پر عمل کرنا ضروری نہیں تھا۔ لیکن انٹرویو میں اس کا یا کسی اور حدیث کا ذکر نہیں تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔

سوال: اچھا، تو پھر کیا ہوا؟

جواب: اصل قصہ تو اب شروع ہوتا ہے۔ ہم دونوں نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ ایک نوجوان دفتر میں داخل ہوا۔ السلام علیکم کے بعد اس نے کھڑے کھڑے کہا ’’مجھے مفتی ولی حسن صاحب سے ملنا ہے۔‘‘ مفتی صاحب نے کہا ’’جی میں ہوں، بتائیے کیا مسئلہ ہے؟ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘ اس نے کہا ’’میں لانڈھی میں رہتا ہوں اور وہاں سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر ایک کاغذ ان کے آگے رکھ دیا۔ مفتی صاحب نے تحریر پڑھی اور مسکراتے ہوئے وہ کاغذ ہمارے سامنے رکھ دیا جو دراصل ایک استفتیٰ(سوال) تھا جس میں لکھا تھا ’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے۔ (اس میں وہی جملہ درج تھا جو انٹرویو میں نشر ہوا تھا) تو کیا وہ پھر بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟‘‘ مفتی صاحب اس بات پر حیران ہورہے تھے کہ ہم ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ یہ نوجوان وارد ہوگیا۔ مفتی صاحب نے اس نوجوان سے کہا ’’تم سوال چھوڑ جاؤ اور اپنا پتا لکھ دو۔ ہم باری آنے پر اس کا مفصل جواب ڈاک سے بھیج دیں گے۔‘‘ نوجوان نے کہا ’’نہیں، مجھے تو ابھی فتویٰ چاہیے۔‘‘ جب اس نے زیادہ اصرار بلکہ ضد کی تو مفتی صاحب نے کہا ’’اگر تمہیں جلدی ہے تو مہتمم صاحب سے مل لو، ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارے مسئلے کا کوئی حل نکال دیں۔‘‘ چناں چہ وہ ان کے کہنے پر سوال کا پرچہ وہیں چھوڑ کر مفتی احمد الرحمٰن سے ملنے ان کے دفتر چلا گیا۔ اس دوران میں مفتی صاحب نے ہم سے کہا کہ اس کے استفتیٰ کی فوراً فوٹو اسٹیٹ مشین سے کاپی کرالو۔ ہم نے باہر جاکر کاپی کرائی اور چند منٹ میں واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اسی دوران میں وہ نوجوان بھی واپس آگیا۔ اس نے کہا ’’مفتی احمد الرحمٰن صاحب نے کہا ہے کہ فتویٰ جلدی دے دیں۔‘‘ اس پر مفتی ولی حسن صاحب کو غصہ آگیا اور بولے ’’اگر تمہیں بہت جلدی ہے تو جاکر مفتی احمد الرحمٰن ہی سے فتویٰ لے لو۔ وہ بھی تو مفتی ہیں۔ میں تو طریقے کے مطابق باری آنے پر ہی جواب دوں گا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، حوالے کی کتب دیکھنا ہوتی ہیں، پھر فتویٰ لکھا جاتا ہے۔‘‘

ہم استفتیٰ کی عبارت کا رسم الخط دیکھ کر معاملے کی تہ تک پہنچ چکے تھے کہ دراصل اس کے پیچھے کون ہے؟ اس لیے فیصلہ کیا کہ اس نوجوان کی آمد کی اصل حقیقت مفتی ولی حسن کی موجودگی میں بے نقاب کی جائے۔ چناںچہ ہم نے اس سے کہا کہ وہ اطمینان سے بیٹھ جائے، ہم اس مسئلے کا کوئی حل نکالتے ہیں۔ اس طرح ہم نے اُس پر وکیلوں کی طرح جرح شروع کردی۔ ہم نے اس سے کہا ’’دیکھو! تم اسلامی ذہن و فکرکے مالک لگتے ہو، جب ہی یہ مسئلہ پوچھنے آگئے ہو۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ غلط بیانی نہیں کرو گے اور ہم جو پوچھیں گے اس کا صحیح جواب دو گے۔‘‘ پھر اس سے سچ اگلوانے کے لیے مزیدکہا ’’جس جگہ تم بیٹھے ہو یہ اگرچہ مفتی صاحب کی لائبریری اور دفتر کا ایک کمرہ ہے لیکن یہ جامع مسجد بنوری ٹاؤن کے احاطے کے اندر ہی واقع ہے اور اس طرح یہ بھی مسجد ہی کا حصہ ہے۔ ہم سب اس وقت مسجد ہی میں بیٹھے ہیں، اس لیے توقع کرتے ہیں کہ سچ بولو گے۔

سوال: آپ نے تو وکیلوں کی طرح جرح شروع کی۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟

جواب: ہم نے یہ انداز اس لیے اختیار کیا کہ ایک تو ہم سوال کی عبارت کے رسم الخط سے اس کے لکھنے والے کو پہچان چکے تھے۔ دوسرے ہم چھے سال سے اعلیٰ عدالتوں کی رپورٹنگ کررہے تھے اور بڑے بڑے ہائی پروفائل مقدمات میں وکیلوں کی جرح کو دیکھ اور رپورٹ کرچکے تھے۔ اس لیے ہم جرح کی تکنیک سے واقف تھے۔ اس لیے اس طریقے کو اختیار کیا۔ ہم نے اُس سے سوال جواب شروع کردیے۔ ہمارا پہلا سوال تھا ’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘ اُس نے اونچی آواز میں بڑے طمطراق سے کہا ’’جی میں صحافی ہوں۔‘‘ ہمیں خوشی ہوئی کہ اپنی برادری کا بندہ ہے۔ ہمارا اگلا سوال تھا ’’کس اخبار میں کام کرتے ہو؟‘‘ اُس نے جواب دیا کہ وہ روزنامہ ’’وفاق‘‘ راولپنڈی میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ ہم نے اِس کا ثبوت مانگا تو اُس نے ادارے کا شناختی کارڈ دکھا دیا۔ واقعی اس کا کارڈ اصلی تھا۔ اب ہمیں اُس سے سوال جواب کرتے ہوئے مزہ آرہا تھا، تاہم اپنی صحافتی شناخت صیغۂ راز ہی میں رکھی اور بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’روزنامہ وفاق کے مالک غالباً مصطفیٰ صادق ہیں اور راولپنڈی ایڈیشن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اُن کے بیٹے وقارالمصطفیٰ ہیں؟‘‘ یہ سن کر اُس کی آواز تھوڑی دھیمی پڑی۔ اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تو اخبار کے مالک کو بھی جانتے ہیں۔ بہرحال اُس کا انداز اب بھی جارحانہ تھا۔ ہم نے کہا’’تم نے بتایا تھا کہ لانڈھی سے آئے ہو، جب کہ کام تو پنڈی میں کرتے ہو۔ کراچی میں یقیناً رشتے داروں سے ملنے کے لیے آئے ہوگے۔ تمہیں اس کام پر کس نے لگا دیا؟ تم تو کراچی میں مہمان ہو۔‘‘ اس نے کہا ’’مجھے میرے ماموں نے بھیجا ہے۔‘‘ اب ہم نے فیصلہ کیا کہ اُس کے جھوٹ اور سچ کو اُس کی زبان سے دو اور دو، چار کی طرح کھول کر مفتی صاحب کے سامنے رکھ دیا جائے۔ چناں چہ سیدھا سوال کیا ’’سچ سچ بتاؤ۔ اگر میں تم سے کہوں کہ تم لانڈھی سے نہیں آئے تو تمہارا کیا جواب ہوگا؟‘‘ وہ پہلے تو کچھ دیر اپنی بات پر اَڑا رہا لیکن جب ہم نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور کہا ’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم ہرگز لانڈھی سے نہیں آئے‘‘، تو وہ گڑبڑا گیا۔ پھر ہم نے یہ سوال پوچھ کر تو گویا اُس کا سارا کروفر ہی نکال دیا ’’بھائی! تم کب تک جھوٹ بولو گے؟ تمہارے سوال کی تحریر خود بتا رہی ہے کہ اسے آدھا گھنٹہ پہلے لکھا گیا ہے۔ ابھی تو اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی۔ آدھے گھنٹے میں تو کوئی شخص تیز رفتار کار میں اس رش کے وقت لانڈھی سے یہاں نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں پہنچنے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ اب تم سچ سچ بتاؤ، کہاں سے آئے ہو اور تمہیں کس نے بھیجا ہے؟‘‘ اس پر وہ بری طرح چکرا گیا مگر جگہ اور بھیجنے والے کا نام بتانے سے پھر بھی گریزاں ہی رہا۔ تاہم اب اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ چکا تھا اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اُس کا راز فاش ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب کے لیے ہمارا نوجوان سے یوں سوال کرنا اور وکیل کی طرح جرح کرنا بڑا حیران کن تھا۔ وہ اس صورتِ حال پر حیران تھے مگر ساتھ ساتھ اس سے لطف بھی لے رہے تھے۔ جب ایک بار پھر اُس نے سچ بتانے سے پہلوتہی کی کوشش کی تو ہم نے اُس سے آخری اور فیصلہ کن سوال کردیا ’’اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم کہاں سے آئے ہو اور تمہیں کس نے بھیجا ہے۔‘‘ پھر کہا ’’تم جہاں سے آئے ہو اگر کوئی نوجوان وہاں سے موٹر سائیکل پر یہاں آئے تو پانچ منٹ میں، تیز قدموں سے پیدل چلے تو پندرہ منٹ میں، اور اگر آرام سے چلے تو بیس، پچیس منٹ میں بآسانی پہنچ سکتا ہے اور یہ تحریر ٹھیک آدھا گھنٹہ پہلے لکھی گئی ہے۔‘‘ اب وہ حیرت سے ہمارا منہ دیکھ رہا تھا۔ ہم نے مزید کہا ’’ہم تمہیں وہ جگہ اور اُس شخص کا نام بھی بتا سکتے ہیں جس نے تمہیں یہ تحریر لکھ کر دی اور اس ’’نیک‘‘ کام پر لگایا۔ تم بی ہائینڈ جیکب لائن میں اُس جگہ سے آئے ہو جہاں لبِ سڑک حبیب بنک قائم ہے۔ اسی بلڈنگ میں ایک دفتر ہے جہاں ایک پڑھا لکھا شخص بیٹھا ہے۔ اُس کا نام بھی بتادیا اور بتایا کہ اسی نے یہ سوال لکھا اور تمہارے حوالے کیا ہے۔ یہ تحریر اسی کی ہے۔‘‘ اس پر مفتی صاحب اور نوجوان، دونوں پر گویا حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ نوجوان نے فوراً ساری باتیں قبول کرلیں اور شرمندہ ہوتے ہوئے کہا ’’جی آپ سچ کہہ رہے ہیں، میں اُن کے کہنے میں آگیا تھا۔‘‘ اس نے بڑی کوشش کی کہ ہم اپنا تعارف کرا دیں لیکن ہم نے اپنا نام نہیں بتایا اور مفتی صاحب کو بھی اشارے سے منع کردیا کہ وہ بھی نہ بتائیں۔ یوں وہ نوجوان اپنے منصوبے میں ناکام ہوکر واپس چلا گیا۔

سوال: آپ نے بڑی حکمت اور وکیلوں کی طرح جرح کرکے سچ اگلوا لیا۔ پھر کیا ہوا؟ قارئین کے لیے مزید تفصیل بتائیں۔

جواب۔ مفتی صاحب بڑے حیران تھے کہ ہم نے کس طرح یقین کے ساتھ اُس کو سچ بولنے پر مجبور کیا۔ وہ تھوڑی دیر بعد بولے ’’دیکھو! ابھی تو ہم نے بڑی حکمت سے اس نوجوان کو ٹال دیا ہے، لیکن فتنہ اٹھانے کے خواہش مند چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وہ دوسرے علماء کے پاس جائیں گے اور فتویٰ لے کر اخبارات میں شائع کرا دیں گے۔ اس کا کوئی مؤثر حل نکالنا چاہیے۔‘‘ پھر انہوں نے خود ہی تجویز کیا کہ اگر مولانا مودودی خود اِس انٹرویو کے متنازع حصے کی تفصیل سے وضاحت کردیں تو فتنے کو بپا ہونے اور بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس سوال کی فوٹو کاپی لی اور ادارہ معارف اسلامی، فیڈرل بی ایریا میں سیّد منورحسن صاحب کے پاس پہنچے، جو اُس وقت ادارے کے ڈائریکٹر تھے، اُنہیں اِس واقعے کی پوری تفصیل بتائی اور مفتی ولی حسن کا پیغام پہنچایا کہ مولانا سے بات کرکے وضاحتی بیان جاری کیا جائے۔ سیّد منور حسن نے اُسی وقت اچھرہ، لاہور فون کیا۔ تھوڑی دیر بعد مولانا لائن پر تھے۔ سیّد منورحسن نے انہیں واقعے کی تفصیل بتائی اور سوال پڑھ کر سنایا، جس کے جواب میں مولانا نے وضاحت کی کہ ’’یہ انٹرویو کوئی ڈھائی تین گھنٹے کا تھا جس کو ایڈٹ کرکے مختصر کردیا گیا۔ اس مذکورہ سوال سے متعلق میری بات پوری طرح نشر نہ ہوسکی۔‘‘ انہوں نے مفتی ولی حسن صاحب کی بات سے اتفاق کیا کہ وضاحت جاری ہونی چاہیے۔ تاہم اُنہوں نے کہا ’’میری طرف سے مفتی ولی حسن کو سلام کہیں، ان کا شکریہ ادا کریں اور ان ہی سے عرض کریں کہ وہ خود پورا واقعہ لکھ کر اس کی وضاحت شائع کرا دیں۔ میری طرف سے ان کو اجازت ہے۔‘‘ مولانا نے ان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کردیا تھا۔ چناں چہ ہم یہ ہدایات لے کر دوبارہ بنوری ٹاؤن آئے جہاں مفتی صاحب نے مولانا مودودی کی طرف سے وضاحتی بیان لکھا جو ہم نے دوسرے دن روزنامہ جنگ کے پہلے صفحے پر شائع کردیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ بات اب ختم ہوگئی ہے لیکن جب دوسرے دن شام کو دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ 43بریلوی علمائے کرام نے اسی استفتیٰ پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جو دوسرے دن کے اخبارات میں شائع ہوا۔ اسی دن کے اخبار جنگ میں بھی اندر کے صفحے پر ان کا یہ بیان شائع کیا گیا تھا۔ اصل میں دیوبندی علمائے کرام کا بیان حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد بریلوی علماء سے مشترکہ بیان حاصل کرلیا گیا تھا۔ مولانا کی وضاحت سے واقعی یہ معاملہ دب گیا اور زیادہ نہ پھیل سکا، اسی وجہ سے دیوبندی علماء سے فتویٰ یا کوئی مشترکہ بیان بھی جاری نہ ہوسکا جس میں ہماری بھی حقیر سی کوشش شامل تھی۔

سوال: اس کے بعد بھی کیا آپ کا رابطہ مفتی صاحب سے رہا؟

جواب: مفتی ولی حسن سے ہمارا رابطہ اُن کے انتقال تک جاری رہا۔ اور جب بھی اس واقعے کا ذکر آتا تو اُن کو ساری باتیں یاد آجاتیں اور کہتے کہ اُس دن تو تم نے کمال کردیا تھا اور اپنی ذہانت سے ملک کو، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کو ایک بڑے فتنے سے بچا لیا تھا۔ مفتی ولی حسن شدید بیمار ہوئے اور کئی سال تک بستر تک محدود ہوگئے۔ وہ دوسروں کی باتیں سن سکتے تھے لیکن بول نہیں سکتے تھے۔ ہم جب بھی اُن کے پاس عیادت کے لیے جاتے تو اُن سے اور باتوں کے علاوہ اس واقعے کا بھی ذکر کرتے تو اُن کی آنکھوں میں چمک آجاتی اور وہ خوش ہوکر مسکرانے کی کوشش کرتے۔(جاری ہے)