کشمیر میں بی جے پی کو سینگوں سے پکڑنے کی حکمت عملی
مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے انتخابات کے لیے فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، آل انڈیا کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے درمیان انتخابی اتحاد کے قیام کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی کے منصوبوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی ہوگئی ہے۔ اتحاد کے باضابطہ اعلان کے لیے راہول گاندھی نے کانگریس کے مرکزی صدر ملک ارجن گھرکے، کے ہمراہ کشمیر کا دورہ کیا۔ فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے اور یہیں پر باضابطہ انتخابی اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ راہول گاندھی نے کہا کہ کشمیریوں کے ساتھ ان کا خون کا رشتہ ہے۔ وہ غالباً نہرو خاندان کے کشمیری پس منظر کا حوالہ دے رہے تھے۔ پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ دونوں صرف دوست ہی نہیں بلکہ کشمیر کی قدیم ذات کول سے تعلق رکھتے تھے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ ہم نے اپنے قومی منشور میں جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے جمہوری حقوق بحال کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ میں نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں۔ اُن کا کہنا تھا کہ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ مرکز کے زیرانتظام علاقوں کو ریاستوں کی شکل دی گئی، مگر تاریخ میں پہلی بار کسی ریاست کو توڑ پھوڑ کر مرکز کے زیرانتظام علاقہ بنایا گیا ہے ۔ اس کے بعد فاروق عبداللہ نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ان کی جماعت برسراقتدار آکر اسمبلی سے قرارداد منظور کرکے آرٹیکل 370 اور35Aکو بحال کرائے گی اور 2001ء میں کشمیر اسمبلی سے منظور ہونے والی داخلی خودمختاری کی بحالی کی قرارداد پر عمل درآمد کی کوشش کرے گی۔ نیشنل کانفرنس نے یہ سخت لائن اپنے منشور میں بھی پیش کی ہے۔ فاروق عبداللہ نے کہا: ہم وہی وعدے کررہے ہیں جنہیں پورا کیا جا سکتا ہے۔
نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد نے جموں وکشمیر کی 90 نشستوں پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اتحاد میں وادی کی ایک اہم جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی شامل نہیں۔گوکہ فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ پی ڈی پی سمیت تمام جماعتوں کے لیے اتحاد کے دروازے کھلے ہیں، مگر سیٹوں کی تقسیم کے بعد کسی نئی جماعت کی اتحاد میں شمولیت کا امکان کم ہی رہ جاتا ہے۔ یہ وادی کے مسلمان ووٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی جنوبی کشمیر میں اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے۔ اس جماعت کی تنہا پرواز سے وادی کا مسلمان ووٹ تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی برائے نام سی ایک سیاسی جماعت ہے جو ایک پرانے سیاسی کھلاڑی یوسف تاریگامی کا ہی دوسرا نام ہے۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور اور بیانات میں کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کا دوٹوک اعلان کررکھا ہے، اس کے برعکس کانگریس کا زور اس بات پر صرف ہورہا ہے کہ جموں وکشمیر کو مرکز کے زیرانتظام علاقے سے واپس ریاست کا درجہ دلانا ہے۔ یوں دونوں جماعتوں میں اتحاد کے باوجود مؤقف کا ایک واضح فرق ہے۔ آرٹیکل 370 بھی حقیقت میں دو کشمیری النسل سیاسی شخصیات پنڈت جواہر لعل نہرو اور شیخ محمد عبداللہ کے درمیان ذاتی تعلق، دوستی اور عہد وپیماں کا نتیجہ تھا۔ اب ان دونوں راہنمائوں کی تیسری نسل عمر عبداللہ اور راہول گاندھی کی صورت میں ایک بار پھر اسی مقام پر آن کھڑی ہوئی ہے جہاں انہیں آرٹیکل 370کے بارے میں اہم فیصلے لینا ہیں۔ بی جے پی اپنے ترکش کے سارے تیر آزماکر کشمیر کی الگ حیثیت اور صدیوں پر محیط منفرد شناخت کو ملیا میٹ کرچکی ہے۔ اب اس ملبے سے کشمیر کی شناخت کی بازیافت کے دعوے تو ہورہے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس فیصلے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات منجمد ہوکر رہ گئے ہیں، اور چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا آتش فشاں اُسی وقت سے مسلسل لاوہ اُگل رہا ہے۔ چین کے خیال میں بھارت نے یہ فیصلہ کرکے اسٹیٹس کو توڑ دیا ہے۔ پاکستان بھی اسے ایک تاریخی دھوکا قرار دے چکا ہے۔ خود کشمیریوں کے ایک نمائندے روح اللہ مہدی نے لوک سبھا میں کھڑے ہوکر اسے کشمیریوں کے ساتھ تاریخی دھوکا قرار دیا۔ اس طرح بھارت یک طرفہ طور پر اپنی ڈفلی اور اپنا راگ بجا رہا ہے، اور بھارت میں بھی یہ دائرہ سکڑ کر بی جے پی اور نریندرمودی تک محدود ہوگیا ہے، کیونکہ کانگریس کی صورت میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نے کشمیر میں ایک ایسی جماعت سے انتخابی اتحادکیا ہے جس نے اپنے منشور میں جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019کے خاتمے کا اعلان کررکھا ہے۔ اس طرح کانگریس بھی مودی کے فیصلے سے واضح طور پر فاصلے پر کھڑی ہے۔ ایسے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے ہندو توا ایجنڈے کا دائرہ کشمیر تک پھیلانے کے لیے اپنا وزیراعلیٰ لانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ بی جے پی کو وادی کشمیر سے کسی کامیابی کی توقع نہیں، اس کی نظریں جموں کی 37نشستوں پر ہیں ،جس کے بعد وہ مخصوص نشستیں حاصل کرکے اور آزادامیدواروں کو ملا کر جموں وکشمیر میں اپنا وزیراعلیٰ بناسکتی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس جموں کے ہندو ووٹر کو کس حد تک متاثر کر تی ہے۔فی الحال تو فاروق ،راہول اتحادکے ذریعے جموں وکشمیر میں نریندرمودی کی سیاست کے خود سر بیل کو سینگوں سے پکڑ نے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے، اس سے کم ازکم بی جے پی کو کشمیر کا خالی انتخابی میدان نہیں ملے گا۔