اسرائیل کے جنگی جرائم ،نیتن یاہو پر خارجی اورداخلی دبائو

برطانیہ نے اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرنے والی 30 کمپنیوں کے ایکسپورٹ لائسنس معطل کردیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کمپنیاں اب اسرائیل کو اسلحہ سپلائی نہیں کرسکیں گی۔ اس بات کا اعلان حکومت نے انسانی حقوق کے حوالے سے غزہ میں سنگین صورتِ حال کے تحت انکوائری کے بعد کیا، جہاں یہ بات سامنے آئی کہ ان کمپنیوں کے ہتھیار غزہ میں جنگی جرائم اور انسانی نسل کُشی کا باعث بن رہے ہیں۔ گوکہ مجموعی طور پر برطانیہ کی تین سو سے زائد کمپنیاں اسرائیل کو جنگی ساز و سامان یا ان کے پرزے فراہم کرتی ہیں، لہٰذا ان 30 کمپنیوں پر کسی پابندی کا بظاہر اسرائیل کے دفاع پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، لیکن بحیثیتِ مجموعی اس پابندی کا مطلب اس بات کا ماننا ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم و نسل کُشی میں ملوث ہے۔

اس اعلان کے سامنے آنے کے بعد چہار جانب سے زبردست ردعمل آیا ہے۔ برطانوی میڈیا جوکہ اسرائیل کے ہر جرم کو دفاع کا نام دیتا ہے وہ اس فیصلے کی مذمت کررہا ہے، دوسری جانب غزہ میں انسانی حقوق کی بحالی اور نسل کُشی رکوانے کے لیے کوشش کرنے والے گروہ اس کو محض ایک نمائشی اقدام قرار دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں نسل کُشی کے لیے استعمال ہونے والے ایف 35 طیارے اور ان کے پرزے برطانیہ میں تیار ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی ایکسپورٹ پر پابندی لگائے بغیر یہ محض ایک نمائشی اقدام ہی سمجھا جائے گا۔ تاہم اس پر ردعمل دیتے ہوئے برطانوی سیکریٹری دفاع (وزیر دفاع) جان ہیلی نے کہا کہ ایف 35 دراصل ایک گلوبل پروگرام کا حصہ ہیں جس میں 20 ممالک شامل ہیں، برطانیہ یہ طیارے یا ان کے پرزے اس گلوبل پول میں دیتا ہے جہاں سے یہ پرزے و طیارے متعلقہ ممالک کو فراہم کیے جاتے ہیں، اس وقت تقریباً 1000 ایف 35 طیارے دنیا بھر میں زیر استعمال ہیں اور ان کے پرزوں کی سپلائی روکنے کا مطلب عالمی طور پر جدید ترین جنگی جہازوں کو گراؤنڈ کردینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ گلوبل پول سے یہ پرزے یا طیارے کس ملک کو دیے جارہے ہیں، لہٰذا برطانیہ اس بین الاقوامی ڈیل کا حصہ ہے جس میں برطانیہ کے دفاعی معاہدے ہیں اور اس میں نیٹو و دیگر ممالک شامل ہیں۔ برطانوی وزیر دفاع نے بی بی سی ریڈیو 4 سے 2 ستمبر 2024ء کو بات کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیل کو حقِ دفاع حاصل ہے۔ تاہم غزہ کی سنگین صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ ان ہتھیاروں پر پابندی عائد کی جائے۔

اسرائیلی وزیر دفاع یو گیلنٹ نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب اسرائیل سات محاذوں پر جنگ میں مصروف ہے اور ہمارے 6 یرغمالی قتل کردیے گئے ہیں، جبکہ ہم مزید 101 یرغمالیوں کی زندہ بازیابی کے لیے کوشش کررہے ہیں۔

برطانیہ کی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرنے والی چند کمپنیوں پر پابندی سے بظاہر اسرائیل کی دفاعی صلاحیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا، تاہم یہ بات اس وجہ سے اہمیت کی حامل ہے کہ برطانوی حکومت نے غزہ میں نسل کُشی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو تسلیم کرلیا ہے۔ یہ بات دراصل ایک ایسی حقیقت ہے جس کے مستقبل میں مزید اثرات مرتب ہوں گے۔

غزہ میں جاری نسل کُشی کو گیارہ ماہ ہوگئے ہیں، اور ان گیارہ ماہ میں 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ مغربی اقوام کا اسرائیل کے حقِ دفاع کا بار بار اعلان اب گیارہ ماہ کے بعد کسی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک جانب مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب مغربی اقوام کے زبردست احتجاج کے بعد مغربی حکومتیں اس بات پر مجبور ہیں کہ وہ اپنے طور پر غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیں، اور اگر کسی بھی سطح پر وہ براہِ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں تو اس پر نظرثانی کریں۔ اس ضمن میں دو یورپی ممالک اسپین اور بیلجیم اسرائیل کو جنگی ساز و سامان کی فراہمی پر پابندی عائد کرچکے ہیں، اور اب برطانیہ تیسرا ملک ہے جس نے مکمل یا کسی حد تک جنگی ساز و سامان کی اسرائیل کو فراہمی پر پابندی عائد کی ہے۔

دوسری جانب اسرائیل میں 6 مغویوں کی لاشیں پہنچنے کے بعد زبردست احتجاج جاری ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ہے جس میں اب براہِ راست اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس احتجاج کے سلسلے میں تمام ٹریڈ یونینوں نے عوام کے ساتھ مل کر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی جس پر زبردست ہڑتال ہوئی اور پورے اسرائیل میں کاروبارِ زندگی معطل رہا، اور اب اسرائیلی حکومت کے مکمل مفلوج ہونے کے بعد اسرائیلی کورٹ نے ہڑتال کے خاتمے کا فیصلہ دیا ہے۔

اسرائیل کے اندر اور اسرائیل کے باہر اب اسرائیلی حکومت کے لیے حالات انتہائی سخت ہیں۔ ایک جانب بن یامین نیتن یاہو کے عالمی عدالت سے وارنٹ گرفتاری کا اجراء اور اس کے بعد اب مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور نسل کُشی کا ملزم قرار دینا یقیناً اہم ترین ہے، تاہم اب تک برطانیہ میں اسرائیل کے حق میں اٹھنے والی آوازیں کم نہیں ہوئیں، برطانوی حکومت کے اقدام پر سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اسرائیل کے دفاع میں سامنے آگئے ہیں، انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ

”Hamas is still holding many innocent Jewish hostages while Israel tries to prevent a repeat of the 7th October massacre. Why are Lammy and Starmer abandoning Israel? Do they want Hamas to win?”

(حماس ابھی بھی کئی بے گناہ یہودی یرغمالیوں کو قید کیے ہوئے ہے، جبکہ اسرائیل 7 اکتوبر کے قتل ِعام کو دوبارہ ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیمی (برطانوی وزیر خارجہ) اور اسٹارمر (برطانوی وزیراعظم) اسرائیل کو کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ حماس جیت جائے؟)

دوسری جانب حکمران لیبر پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان زہرہ سلطانہ نے حکومت کے اس اقدام کو ناکافی قرار دے دیا، انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ

”When Israel is carrying out a genocidal assault in Gaza, we shouldn’t just ban a small fraction of arms licences to Israel.

This ban still allows the UK to sell parts for F-35 fighter jets, known as ”the most lethal” in the world.

The government needs to ban ALL arms sales.”

(جب اسرائیل غزہ میں نسل کُشی کا حملہ کررہا ہے، تو ہمیں صرف اسرائیل کو ہتھیاروں کے لائسنس کا ایک چھوٹا حصہ روکنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔

یہ پابندی اب بھی برطانیہ کو F-35 لڑاکا طیاروں کے پرزے فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہے، جو دنیا کے’’سب سے مہلک‘‘ طیارے مانے جاتے ہیں۔

حکومت کو تمام ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگانی چاہیے۔)

اسرائیل کے حوالے سے برطانوی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی اس بات کا مظہر ہے کہ اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے اور دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں نکلنے والوں نے حکومتوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ گوکہ یہ کام انتہائی سست روی کا شکار ہے اور بظاہر کوئی بہت بڑی تبدیلی مغرب کے حکومتی مؤقف میں نظر نہیں آتی، تاہم یہ ضرور ہے کہ مغربی حکومتیں بتدریج ’اسرائیل کو لامحدود حقِ دفاع‘ کے اپنے بیانیے سے رجوع کررہی ہیں۔ مغرب میں 7 اکتوبر 2023ء کے بعد جو صورتِ حال مسئلہ فلسطین کے حوالے سے تھی اس میں ایک بہت بڑی تبدیلی یہ ہے کہ جو کل تک مسئلہ نہ تھا اب ہزاروں میل دور حکومتوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اب باضابطہ طور پر اسرائیل کے کردار کے حوالے سے حکومتیں تحقیقات کررہی ہیں، اور یہی وہ قدم ہے کہ جس سے حقائق نہ صرف واضح ہورہے ہیں بلکہ حکومتی دستاویزات کا حصہ بن کر ریکارڈ میں محفوظ ہورہے ہیں جس کی بنیاد پر نئی قانون سازی و اقدامات بھی اب سامنے آرہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کا حل شاید ابھی اتنا قریب نہ ہو لیکن اب مغرب میں یہ بات مسلمہ ہے کہ اسرائیل انسانی نسل کُشی کا مجرم ہے، اور یہی بات اسرائیل کو اقوام عالم میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر معتبر بنارہی ہے، اور شاید یہی اس مسئلے کا منطقی نتیجہ ہے۔