ٹکرائو کی ’’خطرناک‘‘ سیاست

سب سیاسی فریق اسٹابلشمنٹ اور پنڈی والوں کو خوشنودی کے حصوں تک محدود ہیں

پاکستانی سیاست کے کئی المیے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہم سیاسی، سماجی اور معاشی المیوں کے درمیان جی رہے ہیں، کیونکہ بطور ریاست یا حکومت ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہم وہ سب کچھ کریں گے جو ترقی، خوشحالی اور ریاست کے نظام کی ساکھ کے برعکس ہوگا، کیونکہ ہماری اجتماعی سوچ، فکر اور فیصلے ذاتیات سے شروع ہوکر خاندانی سیاست تک محدود ہوجاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم اجتماعی سطح پر ریاست اور حکومت کے نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کوشش میں چند افراد یا خاندانوں کو تو فائدہ پہنچتا ہے مگر مجموعی طور پر قوم اور خاص طور پر معاشرے کے محروم اور کمزور طبقات کو اپنے استحصال کی صورت میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور اسی وجہ سے ریاست اورعوام کے درمیان خلیج اور ٹکرائو پیدا ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ ریاستی و حکومتی نظام کو درست سمت میں لانا اور ایسی مضبوط حکمت ِعملی بنانا ہے جو ریاستی نظام میں موجود افراد کو ایک دوسرے کے مفاد میں جوڑ بھی سکے اور ملک بھی ترقی اور خوشحالی کی طر ف سفر شروع کرسکے۔

اس وقت ملک شدید مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ عوام کو اندازہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جارہے ہیں۔ اگرچہ حکمران اور طاقت ور طبقہ جھوٹی تسلیوں کی بنیاد پر خوشحالی کے نعرے لگاتا ہے، مگر نجی مجالس میں ان کی گفتگو کا بھی حاصل یہی ہے کہ ہم درست سمت میں نہیں جارہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام سرکاری اعداد وشمار بھی یہی نشاندہی کررہے ہیں کہ ہم غلط حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ریاستی سطح پر جب ہم ان بحرانوں سے گزر رہے ہیں تو اس کا علاج بھی یقینی طور پر ریاستی و حکومتی نظام کو ہی تلاش کرنا ہے۔ لیکن ہمارا ریاستی یا حکومتی نظام اپنی قومی سطح کی ترجیحات کو درست کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہماری توجہ اہم اور حساس مسائل یا معاملات پر کم اور غیر ضروری مسائل پر زیادہ ہے، یعنی ہم نان ایشوز کی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس وقت قومی سیاست اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں شامل جماعتوں اور ان کی سیاسی مخالف پی ٹی آئی اور عمران خان کے درمیان الجھی ہوئی ہے ۔ تضاد اور ٹکرائو کی اس پالیسی نے قومی سیاست میں جہاں بگاڑ پیدا کیا ہے وہیں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی دشمنی کا ایجنڈا بھی غالب ہے۔ ایک مثال پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا بطور چانسلر آکسفورڈ یونیورسٹی کا انتخاب ہے۔ یہ انتخاب دس برس کے لیے ہوتا ہے۔ اس انتخاب میں آکسفرڈ یونیورسٹی مینجمنٹ اور انتخاب میں جو بھی حصہ لے رہے ہیں یا جن لوگوں کو چانسلر کے انتخاب میں ووٹ ڈالنا ہے انہیں کوئی اعتراض نہیں مگر پاکستان کی حکومت عمران خان کی مخالفت میں بہت آگے تک چلی گئی ہے اور ان کو ایک مجرم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان کسی بھی صورت میں یہ انتخاب نہ لڑسکیں یا ان کے انتخاب کو متنازع بنادیا جائے۔ یہ ہے ہماری سیاسی اور جمہوری کہانی، کہ ہم کسی بھی طور پر اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی قومی سیاست میں بھی ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ریاست یا حکومت کے جو بھی اختلافات ہیں ان سے سیاسی حکمت عملی سے نمٹنے کے بجائے انہیں سیاسی و ریاستی دشمنی کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے اور پی ٹی آئی کے جو بھی سیاسی حقوق ہیں یا اس کا جو بھی سیاسی وجود ہے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسی جماعت کے ساتھ ہورہا ہے جو پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت ہے اور ایک صوبے میں اس کی حکومت ہے، اور قومی سطح پر جو سب سے زیادہ ووٹ بینک اور مقبولیت رکھتی ہے۔ ٹکرائو اور انتشار کی یہ سیاست زیادہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے، کیونکہ مقبول جماعت اور ریاستی و حکومتی اداروں میں جو بھی مسائل ہیں ان میں مزید بگاڑ کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔

ریاست یا حکومت کا نظام محض پی ٹی آئی سے ٹکرائو تک محدود نہیں ہے، بلکہ عدلیہ کے ساتھ بھی ٹکرائو کی پالیسی نمایاں ہے۔ اگرچہ حکومت نے یہ کوشش کی کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے یا چیف جسٹس کی تقرری کے اختیار کو وزیراعظم تک محدود کیا جائے، اور یہ سب کچھ ایک آئینی ترمیم کی مدد سے کیا جانا ہے۔ لیکن حکومت کو اس محاذ پر ناکامی کا سامنا ہے، اس کی عددی اکثریت بھی کم ہے اور سیاسی ماحول بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔ اب کوشش کی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوںکی تعداد میں اضافہ کردیا جائے تاکہ نئے آنے والے چیف جسٹس پر دبائو بڑھایا جاسکے۔ حکومت کو خطرہ ہے کہ آنے والے نئے چیف جسٹس کہیں الیکشن ٹریبونل کے معاملات کو نہ کھول دیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے پورے انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی۔ اس لیے حکومت کو موجودہ عدلیہ سے خطرات ہیں اور اس پر دبائو ہے کہ عدلیہ کو کنٹرول کیا جائے اور اپنی مرضی کے فیصلوں کو ممکن بنایا جائے۔ اسی طرح حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کو تو کنٹرول کرلیا ہے مگر ڈیجیٹل میڈیا پر بدستور خطرات ہیں اور اس سے نمٹنے میں مشکلات اور ناکامی کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر ریاست اور حکومت کی پالیسی طاقت کے ذریعے مسائل کے حل کی ہے اور اسی وجہ سے ہماری سیاسی ناکامیاں بڑھ رہی ہیں۔ جو کچھ بلوچستان اور کے پی کے کی سطح پر ہورہا ہے وہ خطرناک ہے۔ یہ دونوں صوبے بالخصوص سیکورٹی اور دہشت گردی کے تناظر میں اسٹرے ٹیجک اہمیت کے حامل ہیں، لیکن وہاں جو لوگ آئینی، قانونی، سیاسی وجمہوری فریم ورک میں اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں، اور جو لوگ ریاستی رٹ کو دہشت گردی یا بندوق کی بنیاد پر چیلنج کررہے ہیں، ان دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جارہا ہے جو مزید شورش پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ہم افغانستان پر تو الزامات لگارہے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کی سہولت کاری کررہا ہے اور ٹی ٹی پی کو روکنے کے بجائے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں پیش پیش ہے، لیکن افغانستان میں طالبان حکومت ہماری بات ماننے کو تیار نہیں اور ہم بیک وقت بھارت اور افغانستان سے سیکورٹی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری تمام تر توجہ کا مرکز علاقائی تناظر میں مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے داخلی سیاست ہے یا ہم ٹکرائو کا شکار ہیں۔ اس طرح ہم بنیادی طور پر ریاست کے نظام کو جہاں غیر محفوظ کررہے ہیں، وہیں دہشت گردوں کی مدد بھی کررہے ہیں کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر سفارت کاری کے محاذ پر ہماری بات کوئی نہیں سن رہا اور ہم سیاسی تنہائی کا شکار ہیں، اور بہت سے داخلی اور علاقائی معاملات میں اپنے لیے آگے بڑھنے کے راستے محدود کررہے ہیں۔ اگرچہ ہم سب مفاہمت اور بات چیت پر زور دیتے ہیں اور اسی کو بنیاد بناکر مسائل کے حل کی بات بھی کرتے ہیں، مگر عملی طور پر سبھی مفاہمت کی سیاست سے دور ہیں اور مفاہمت اور مذاکرات کو بھی قومی سیاست میں ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ سب فریق، سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ اور پنڈی والوںکو خوش رکھنے اور اُن کی خوشنودی کے حصول تک محدود ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں مفاہمت ہوتی ہے تو ہم پر دبائو ڈالا جائے گا کہ ہم اپنے سیاسی کردار کو محدود کریں۔ اس لیے سیاسی قیادتوں یا سیاسی جماعتوں میں اگر مفاہمت کی طرف پیش رفت ہوگی تو وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ہوگی، اور خاص طور پر حکمران اتحاد کسی صورت میں پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اتحاد کا حامی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال ہوں یا خواجہ آصف سمیت دیگر وزراء… سب کھل کر پی ٹی آئی سے مذاکرات کے مخالف ہیں۔ محمود خان اچکزئی کوشش کررہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن میں مذاکرات کا راستہ کھولیں، مگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ حکومت کے مقابلے میں اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے، اور حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اس کے اقتدار کا کھیل اُسی وقت تک جاری رہے گا جب تک اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ہے۔ محمود خان اچکزئی کے بقول ملک کو آگے لے جانے کے لیے حکومت سے مذاکرات واحد آپشن ہے، مگر عمران خان اس حکومت کے مینڈیٹ کو ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اصل مسئلہ مذاکرات کی راہ میں 9مئی کے واقعات ہیں، اور حکومت اسی کارڈ کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی مخالف سیاست کا حصہ ہے۔

نوازشریف کی اہمیت بھی کم ہوتی جارہی ہے، وہ اگرچہ کہتے ہیں کہ مفاہمت ہو اور سیاسی قیادت مل کربیٹھے، مگر وہ بھی پی ٹی آئی کے بارے میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے، اور جوابی وار میں عمران خان بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت حکومت میںشامل دونوں بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے مولانا فضل الرحمٰن کو پی ٹی آئی کی سیاست سے دور رکھا جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو احساس ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے لیے اہم کارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور ان کی پہلی کوشش اس سیاسی بارگیننگ سے اپنے دو سینیٹر کو منتخب کروانا اور گورنر کے پی کے کا عہدہ حاصل کرنا ہے، اور مسلم لیگ ن کو بتادیا گیا ہے کہ مولانا کیا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی ان کو گورنرشپ تو نہیںدے سکتی لیکن اگر مولانا فضل الرحمٰن پی ٹی آئی کی مدد سے اپنے دو سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی اور حکومت کو اس پر ایک بڑے دبائو کاسامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اس وقت حکومت کے سامنے بڑا چیلنج عدلیہ سے نمٹنا ہے، اور کوشش کی جارہی ہے کہ نئے چیف جسٹس کو کمزورکرنے یا اُن پر حکومتی دبائو بڑھانے کے لیے ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، یا دوسرا آپشن ججوں کی ملازمت کی عمر میں اضافہ کرنا ہے تاکہ موجودہ چیف جسٹس کو بھی توسیع مل سکے۔ یہ ایک نئی لڑائی ہے جو عدلیہ اور حکومت کے درمیان نئی محاذ آرائی پیدا کرے گی جس سے ملک میں ٹکرائو بڑھے گا، اور اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی جو سیاسی مہم جوئی پر تلی ہوئی ہے، اور یہی اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہم داخلی سیاسی تماشوں سے باہر نہیں نکل پارہے۔