بلوچستان میں 25 اور 26 اگست کی رات دہشت گردی و مردم کشی کے واقعات وفاق میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت کی نااہلی و ناکامی تو ہیں ہی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی نری ناکامی کا بیّن اظہار بھی ہیں۔ صوبے میں طاقت کی زبان پر یقین رکھنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ نواز لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی اتحادی ہے۔ 26 اگست کے دن پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اتحادی ارکان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کی۔ سرفراز بگٹی کی زبان اور بیان طاقت کا استعمال ہی تھا۔ حکومتی ارکان کی قطار میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ملک محمد نعیم بازئی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سرفراز بگٹی نے حکومتی پالیسی بیان دیا، مطلب یہ ہوا کہ عوامی نیشنل پارٹی بھی بلوچستان میں طاقت کے استعمال کی حکومتی پالیسی کی حامی ہے۔
27 اگست کو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کوئٹہ پہنچے، جہاں سرفراز بگٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ پیش ازیں اعلیٰ سطحی اجلاس کے انعقاد کی روایت پوری کی۔ یہاں ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں محسن نقوی نے شیخی بگھاری کہ آپریشن کے بجائے دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ اس غیر سنجیدہ گفتگو پر بہت تنقید ہوئی ہے۔ ایس ایچ او کی مار ہوتی تو پُرتشدد سیاست تین عشروں پر محیط نہ ہوتی، جس کے آئندہ برسوں میں مزید ہولناکیوں کے ساتھ جاری رہنے کے قوی آثار بدستور موجود ہیں۔
29 اگست 2024ء کو وزیراعظم میاں شہبازشریف وفد کے ہمراہ کوئٹہ پہنچے۔ ان کے ساتھ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزراء احسن اقبال، محسن نقوی، عطا تارڑ اور جام کمال خان عالیانی بھی تھے۔ کوئٹہ میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا جس میں افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر، گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی، آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری اور دوسرے حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں پاکستان مسلم لیگن کے سردار یعقوب خان ناصر، سردار عبدالرحمٰن کھیتران، پیپلز پارٹی کے ظہور بلیدی، مینا بلوچ، نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرمالک بلوچ، نیشنل پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی رحمت صالح بلوچ، بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر رکن قومی اسمبلی خالق مگسی، سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سابق سینیٹر میر کبیر محمد شہی، عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی زمرک اچکزئی، صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، جبکہ جمعیت علماء اسلام کی جانب سے سینیٹر مولانا عبدالواسع اور جے یو آئی کے اسمبلی میں رکن اور قائد حزبِ اختلاف یونس عزیز زہری نے بھی شرکت کی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ اسی طرح پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے بھی نمائندہ نہیں بھیجا۔
بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف انتہائی کمزور ہے، اس کا کردار پھسپھسا ہے، اور وہ محض مراعات بٹورنے میں مصروف ہے۔ درحقیقت حکومت کو بھی حزبِ اختلاف سے کوئی تکلیف اور مشکل نہیں ہے۔ سو، بلوچستان کے حساس مسئلے کو پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے ایپکس کمیٹی جیسے فورمز پر اٹھایا جاتا ہے، جہاں کچلنے، طاقت کے استعمال کی باتوں اور مُکّے لہرانے کے سوا دوسری تدابیر پیش نظر ہی نہیں رہتیں۔ اجلاس کے بعد افسر شاہی کو مراعات دینے کے اعلانات ہوئے، سیکورٹی کے نام پر بھاری رقومات مختص کرنے کا اعلان کیا گیا،کہا گیا کہ 48کامن ٹریننگ پروگرام والے افسران کی بلوچستان میں ایک سال کے لیے تعیناتی کی جائے گی اور 49کامن ٹریننگ کے باقی افسران کی ایک سال بعد ڈیڑھ سال کے لیے تعیناتی کی جائے گی، اور بلوچستان میں تعینات ہونے والے افسران کو خصوصی مراعات دی جائیں گی، ان افسران کو ہر تین ماہ بعد اہلِ خانہ کے لیے ہوائی جہاز کے چار ٹکٹ دیے جائیں گے۔ پرفارمنس رپورٹ اور کارکردگی پر تین اضافی پوائنٹ ملیں گے۔ یہ سب اس بات کا اظہار و اقرار ہے کہ بلوچستان میں حالات انتہائی خراب ہے۔ افسران یہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ ماضی میں بھی دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈی ایم جی افسران کو بلوچستان میں کام کرنے پر اضافی مراعات دی گئیں مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گرد تنظیموں اور گھس بیٹھیوں نے ناپاک اسکیم بنائی تھی، اور کوئی شک نہیں کہ آرمی چیف کی قیادت میں اس مرحلے کو عبور کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے عزم اور ارادے کے ساتھ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یاد رہے کہ جب میاں نوازشریف اقتدار سے بے دخل تھے تو نواز لیگ صوبے میں لاپتا افراد کے حق میں احتجاج کرتی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن روکنے کے مطالبات کرتی۔ 26 اکتوبر 2020ء کو مریم نواز کوئٹہ آئیں۔ ایوب اسٹیڈیم میں پی ڈی ایم کے تحت جلسہ تھا۔ میاں نوازشریف نے ویڈیو لنک کے توسط سے خطاب کیا۔ اسٹیج پر لاپتا بلوچ افراد کے خاندانوں کی خواتین اور بچے بیٹھے ہوئے تھے جن سے مریم نواز نے اظہار یکجہتی کیا اور انہیں دلاسہ دیا۔ اور اب مذکورہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد میاں شہباز شریف نے قرار دیا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ انہیں کچل دیں گے۔ آپریشن عزم استحکام کے لیے وفاقی کابینہ پہلے ہی 20ارب روپے مختص کرچکی ہے، اور بلوچستان کے حالیہ واقعات کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے لیے 5 ارب روپے مختص کردیے ہیں، اور ہرڈویژن کے لیے ایک ایک ارب روپے الگ مختص کیے جاچکے ہیں جو مقامی ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ یعنی یہ ہے امن کی بحالی کی اسکیم جو نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے وضع کی ہوئی ہے۔ بلاشبہ یہ رقم اراکینِ صوبائی و قومی اسمبلی کو نوازنے کا حربہ ہے، جو صوبے اور عوام کی بہبود و ترقی کے بجائے سیاسی رشوت، اور حمایت بٹورنے کی کوشش ہے۔ یہ رقم ضرور بدعنوانی کی نذر ہوگی۔ بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے حل ہونا ہوتا تو ان تین عشروں میں حل ہوچکا ہوتا۔ حکومتی کارندے کہتے رہتے ہیں کہ جو آئینِ پاکستان کو نہیں مانتے اُن سے بات نہیں ہوگی۔ یہی بات شدت پسند بھی کرتے ہیں کہ وہ آئینِ پاکستان کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے۔ اب یہ کام پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ امن اور مفاہمت کی فضا ہموار کرنے اور پائیدار حل نکالنے کے لیے سوچ بچار کرے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پُرتشدد سیاست اور آزادی کا نعرہ کسی طور تسلیم نہیں کیا جاسکتا، لیکن المیہ یہ ہے کہ صوبہ آئینی حقوق اور وسائل سے بھی محروم ہے۔ وفاق کی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ تو جعلی ڈومیسائل تک کو تحفظ دے رہی ہے، چہ جائے کہ حقوق اور وسائل پر دسترس۔ خصوصاً پنجاب کے لوگوں نے جعلی ڈومیسائل حاصل کررکھے ہیں۔ جعلی ڈومیسائل پر ان کے بچے اندرون اور بیرونِ ملک بلوچستان کے کوٹے پر اسکالرشپ حاصل کرتے ہیں، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے جاتے ہیں، ملازمتیں حاصل کرتے ہیں، بلوچستان کے کوٹے پر مقابلے کے امتحانات دیتے ہیں۔ اس طرح صوبے کے نوجوانوں کی حق تلفی ہورہی ہے۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے جعلی ڈومیسائل کی تحقیقات کے بعد فہرست مرتب کرلی ہے، مگر مقتدرہ نے عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ اِس بار سینیٹ آف پاکستان میں ڈپٹی چیئرپرسن کے عہدے کے لیے نواز لیگ کی ایک خاتون سینیٹر جن کا تعلق پنجاب سے ہے، بھاگ دوڑ کررہی تھیں۔ خاتون سینیٹر نے خود کو بلوچستان کا شہری ظاہر کیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کے والد ملازمت کے دوران بلوچستان میں تعینات رہ چکے تھے، اور اسی دوران انہوں نے ڈومیسائل بھی حاصل کرلیا تھا۔