سیاست،طاقت اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ: معیشت کا ڈوبتا جہاز

کفایت شعاری کی حکومتی پالیسی اورماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا استعفیٰ

ایک عرصہ ہوا کہ پاکستان کی سیاست اہم عہدے پر فائز شخصیات سے جڑی ہوئی ہے۔ جب بھی کسی بڑی اعلیٰ شخصیت کے رخصت ہونے یا کسی منصب پر پہنچنے کی اطلاع عام ہوتی ہے، سیاسی حلقوں میں بحث اور تجزیوں کی گھاس اور جڑی بوٹیاں تیزی سے اگنا شروع ہوجاتی ہیں، ہر کوئی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اب تبدیلی ضرور آئے گی، بحث اور تجزیوں کی یہ جڑی بوٹیاں خود ہی گل سڑ جاتی ہیں لیکن ساتھ ہی ابہام چھوڑ جاتی ہیں۔ شہبازشریف کی حکومت قائم ہوئے سات ماہ ہوچکے ہیں، ابھی تک یہ ٹیک آف نہیں کرسکی ہے۔ اسے معیشت، بجلی کے بحران، اپوزیشن کی جانب سے فارم47 کے طعنوں نے سر اٹھانے ہی نہیں دیا۔ ہر روز یہ حکومت کسی نہ کسی بحران میں گھری ہوئی نظر آتی ہے۔ فارم47 کی بحث ایک طرف رکھتے ہیں، اس حکومت کو اپنے قیام کے ساتھ ہی حکومتی اصلاحات کا ایجنڈا ملا، مقصد یہ تھا کہ کفایت شعاری اپنائی جائے اور آمدنی کے ذرائع بڑھائے جائیں، کیونکہ اب عالمی مارکیٹ میں آئی ایم ایف سمیت کوئی دوست ملک بھی آسان قرض دینے کو تیار نہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے متعدد کمیٹیاں تشکیل دیں اور ان میں کفایت شعاری کے لیے سفارشات مرتب کرکے حکومت کو فراہم کی گئیں۔ حکومت میں کیبنٹ ڈویژن کو اس ضمن میں بنیادی کردار سونپا گیا، جہاں اب بھی بہت سی وزارتوں کی تحلیل اور انہیں ایک دوسرے میں ضم کرنے کے لیے سفارشات تیار کی جارہی ہیں، لیکن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کو نج کاری کے فیصلوں کے خلاف ایک بھرپور مزاحمت کا سامنا ہے۔ اسی ماحول میں وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم رائٹ سائزنگ کمیٹی کے اہم رکن اور ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے اور رائٹ سائزنگ کمیٹی کی رکنیت سمیت 3 مختلف حکومتی کمیٹیوں سے بھی الگ ہوگئے ہیں۔ رائٹ سائزنگ کمیٹی کے علاوہ وہ کفایت شعاری کمیٹی اور حکومتی اخراجات کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ کمیٹی سے الگ ہوتے ہوئے اپنے استعفے میں انہوں نے لکھا کہ ’’حکومت نے اخراجات میں کمی کے لیے اچھی کوششیں کیں، اخراجات میں کمی کے لیے 17 ڈویژن اور 50 سرکاری محکمے بند کرنے کی تجویز دی گئی، مگر حکومت نے سنجیدگی سے ان تجاویز پر عمل نہیں کیا اور وہ اس کے برخلاف اقدامات کررہی ہے، اخراجات میں کمی کے لیے افسران کے بجائے چھوٹے ملازمین کو نکالا جارہا ہے اور محکموں سے گریڈ 17 سے 22 کے افسران کی نوکریوں کو بچایا جارہا ہے، اگر بڑے افسران کو ہٹایا جائے تو سالانہ 30 ارب کے اخراجات کم ہوجائیں گے، اس وقت پاکستانی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر ادارے قرض دینے کو تیار نہیں ہیں۔‘‘

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے استعفے سے چند روز قبل ہی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ ایک درجہ بہتر قرار دی، اس نے پاکستانی معیشت کا منظرنامہ مثبت قرار دیا اور پاکستان کی ریٹنگ سی اے اے ٹو کردی، اور پاکستان کے پانچ بینکوں کی ریٹنگ بھی اپ گریڈ کردی۔ موڈیز کا خیال ہے کہ مستقبل میں یہ بینک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

حکومت کی طرف سے یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کی رقم مل جائے گی اور پاکستان اس رقم کے حصول کے لیے شرائط پوری کرچکا ہے، اسی لیے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض رول اوور کرنے کی درخواست کررکھی ہے۔ حکومت صرف دوست ممالک سے تعاون کی درخواست ہی نہیں کررہی بلکہ عوام پر بھی ہر طرح سے بوجھ ڈالا جارہا ہے اور عالمی ساہوکار کے کہنے پر عوام کو دی جانے والی سبسڈی بھی بتدریج ختم کی جارہی ہے، لیکن حکمران جماعت نے اپنے ایک اہم اجلاس میں کہا کہ وفاقی اور پنجاب حکومتیں اپنے اخراجات میں کٹوتی اور بچت سے عوام کے ریلیف کے لیے وسائل مہیا کریں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی تشویش، حکومت کی کفایت شعاری کی پالیسی اور ڈاکٹر قیصر بنگالی کے استعفے کی وجوہات تلاش کی جائیں تو ہمیں کہیں نہ کہیں ابہام اور شگاف ضرور نظر آئے گا۔ حکومت بھی درست بات نہیں کررہی اور قیصر بنگالی نے بھی استعفیٰ دیتے ہوئے حکومت کی تعریف بھی کی اور عدم اعتماد بھی کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابہام مزید بڑھ رہاہے۔ قیصر بنگالی کے مؤقف سے پتا چلتا ہے کہ حکومت بیوروکریسی کو تحفظ دے رہی ہے۔اس ملک کی بیوروکریسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور اسی گٹھ جوڑ نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے بے تحاشا مراعات مل رہی ہیں اور ملکی معیشت ان کی مراعات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔ بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں کو دی جانے والی مالی مراعات بیوروکریسی اور اشرافیہ کی مرہونِ منت ہیں، اسی کے سبب معیشت مستحکم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ بجلی کے شعبے میں ہی ہمارا گردشی قرضہ2800 ارب کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ قرض لینا ہے تو پہلے2800 ارب کا بندوبست کرو۔ بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں کا حال یہ ہے کہ جن کارخانوں میں بجلی پیدا ہوئی انہیں تو ادائیگی ہوئی، تاہم دس سال میں صرف 24 آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود 1200 ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی ہے۔ ان 24 پاور پلانٹس کو گیس، آر ایل این جی اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنا تھی۔ آئی پی پیز اور حکومت کے درمیان جو بھی اور جیسے بھی معاہدے ہوئے وہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا ان پر عمل درآمد ناگزیر ہے، ورنہ حکومت کو عالمی اداروں اور عدالتوں کی طرف سے بھاری جرمانے ہوسکتے ہیں۔ آئی پی پیز میں زیادہ تر پاکستانی اور کچھ غیر ملکی کمپنیاں بھی شامل ہیں، لیکن یہاں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن ایک درست اور بروقت سوال اٹھا رہے ہیں کہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں نے جو انکم ٹیکس ادا نہیں کیا اور جو انہیں چھوٹ دی گئی ہے، وہ رقم تو ان سے وصول کی جائے، اور اس کی ابتدا شریف خاندان خود اپنے سے کرے تو یہ سب سے بہتر ہوگا۔

اگر آئی پی پیز معاہدوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ فریقین کے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر دکھائی دیتے ہیں۔ معاہدوں کے تحت آئی پی پیز اپنی کیپیسٹی کے مطابق بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، حتیٰ کہ بالکل بھی نہ بنائیں تب بھی ان کو کیپیسٹی پیمنٹ کی صورت میں پوری ادائیگی کی جاتی ہے۔ کسی کا ضمیر ملامت نہیں کرتاکہ وہ گاہک کو کم مقدار میں شے دے کر کئی گنا زیادہ قیمت وصول کررہے ہیں! کیپیسٹی پیمنٹ کی اصل صورت یہی ہے۔ کیپیسٹی پیمنٹ کاسلسلہ جاری رہا تو پاکستان دیوالیہ کی طرف جا سکتا ہے۔ حکومت سنجیدگی سے آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کرے اور ان کا جو جائز منافع بنتا ہے وہی وصول کرنے پر انہیں آمادہ کرے۔ کم از کم ملکی نجی بجلی گھروں کے مالکان کو تو یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ اگر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی ہو جاتی ہے تو بجلی کی قیمتوں یعنی بلوں میں کم از کم نصف کمی ضرور ہو جائے گی۔ اگر حکومت ایسا کرلیتی ہے تو عوام سُکھ کا سانس لیں گے اور معیشت اور سیاست بچ جائے گی۔

کوئی وجہ ضرور ہے کہ بجلی پیدا کرنے والا شعبہ جس نے معیشت کو پٹری سے اتار دیا ہے اور اسے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے، ایک معمّا بنا ہوا ہے۔ کوئی بھی اسے درست نہیں کرنا چاہتا۔ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے اور اس میں اتنے گروہوں کا مفاد وابستہ ہے کہ اس کا کوئی حل نہیں نکل پاتا۔ مسئلہ کیا ہے؟ اس بحران کی تہہ میں کچھ مستقل مسائل ہیں۔ اس کا آغاز 1990ء کی دہائی میں ہوا جب آئی ایف آئی نے اس شعبے میں پیداواری گنجائش کی کمی پوری کرنے کے لیے نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی سفارش کی تھی۔ بجلی کی قلت اور لائن لاسز نے معیشت کو مفلوج کر رکھا تھا۔ حکومت نے واپڈا کے کئی ایک افعال، جیساکہ بجلی کی پیداوار، ترسیل، تقسیم اور توانائی کی خریداری کے شعبوں کو الگ الگ کردیا۔ نئی سرمایہ کاری کے لیے واپڈا کو حکومت کی طرف سے فنڈز نہیں ملتے تھے لیکن اسے کسی بہت بڑی جراحت کی ضرورت نہیں تھی۔ آئی ایف آئی نے 1994ء میں توانائی کی نجی کاری پالیسی کی تشکیل میں مدد کی۔ اس کے بعد یہ شعبہ اس طرح الجھ گیا کہ ہر حکومت کے لیے اسے راہِ راست پر لانا مشکل ہوگیا ہے۔ اُس وقت حکومت کی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی قلت تھی۔ آج ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کی اضافی گنجائش ہے لیکن وہ لاگت اور ترسیل کے مسائل کی وجہ سے صارف تک نہیں پہنچ پاتی، اس کے باوجود صارفین کو اس کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ دراصل واشنگٹن کا معاشی منصوبہ تھا جس نے ہمیں نقصان پہنچایا۔ معاہدہ یہ ہوا کہ ’بجلی لو یا ادائیگی کرو‘۔ اسی بنیاد پر کیپیسٹی ادائیگی کے معاہدے کو حکومت نے قبول کرلیا۔ ایندھن کی لاگت ایک تبدیل ہونے والی شے تھی اور سرمائے کی واپسی کی بھی ضمانت تھی۔ ایف بی آر پاور پروڈیوسرز کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ منصوبوں کو 80 فیصد تک قرض کی اجازت دی گئی تھی، جن کی واپسی گارنٹی کے ذریعے یقینی بنائی گئی تھی۔ بغیر کسی حد کے اوپن اینڈ ڈانڈیکسیشن، جو روپے کی قدر میں گراوٹ سے بدتر ہوگئی ہے، جس کا صاف صاف مطلب ہے کہ ٹیرف کا حجم ہمیشہ بڑھتا رہے گا۔ حکومت نے شاید یہ فرض کرلیا ہے کہ صارفین کے پاس بجلی خریدنے کے لیے لامحدود وسائل ہیں۔ لیکن صارفین تو اس قابل ہی نہیں، لہٰذا حکومت کو سبسڈی دینا پڑی، اور اب حکومت کے پاس بھی وقت پر واجبات ادا کرنے کے ذرائع نہیں ہیں، سو اس طرح گردشی قرضہ ایک بوجھ بن گیا ہے۔

جب بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانے آئے تو سب سے پہلے بیرونی سرمایہ کاری اُن فرموں نے کی تھی جو پاور سیکٹر میں تجربہ رکھتی تھیں۔ کئی سال کے بعد انہوں نے اپنی ایکویٹی پاکستانی فرموں کو بیچ دی۔ کسی پاکستانی فرم کو اس کاروبار کا تجربہ نہیں تھا، یوں مسائل مسلسل بڑھنے لگے۔ اب مسئلہ حل کرنے کے بجائے پچھلے دس سال میں حکومتی اقدامات نے بگاڑ کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ حکومت صارفین کو تحفظ دینے کے بجائے خود آئی پی پیز کے چکر میں آگئی ہے۔ سرکاری ملکیت میں اب 6650 میگاواٹ تھرمل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے آئی پی پیز موجود ہیں۔ یہاں تک کہ واپڈا کی ملکیت جینکو کو بھی آئی پی پی میں تبدیل کردیا گیا۔ صرف 2023ء میں حکومتِ پاکستان کی ملکیت والے آئی پی پیز نے 67بلین روپے کا خالص منافع کمایا، جس میں 1263 میگاواٹ پنجاب تھرمل شامل نہیں۔ آئی پی پیز میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ ایک محتاط تجزیے کے مطابق حکومت نے آئی پی پی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سی پیک اور سعودی امداد کا بڑا حصہ استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ 2014ء تا 2023ء کے دوران 16318 میگاواٹ کے آئی پی پیز کو شامل کیا تو پیداواری صلاحیت بڑھ کر45000 میگاواٹ ہوگئی۔ دوسری طرف ہماری بجلی کی ترسیل کی صلاحیت 25000 میگاواٹ سے کم ہے۔ اس کے باوجود فیصلہ سازوں کی نئے آئی پی پیز میں دلچسپی برقرارہے۔ 2021ء کے بعد سے، جب وزارتِ خزانہ نے سبسڈی کو الگ رقم کے طور پر ظاہر کیا ہے، حکومت نے تقریباً دس کھرب روپے سالانہ ادا کیے ہیں۔

حکومت اس معاشی بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف کے علاوہ صدر آصف علی زرداری متحرک ہیں۔ دونوں نے الگ الگ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی ہے۔ مولانا سے ان ملاقاتوں میں حفظِ مناصب کی ترتیب کس نے آراستہ کی، یہ نہایت دلچسپ اور قابلِ توجہ پہلو ہے، کہ سب سے پہلے پروٹوکول میں صدر مملکت آتے ہیں، پھر وزیراعظم۔ لیکن یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں کیا ان دو شخصیات کی ملاقاتیں مولانا فضل الرحمٰن سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرسکیں گی؟ یا وہ مولانا فضل الرحمٰن کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟ اس ساری صورتِ حال میں خود مولانا کے لیے فیصلہ کرنا بھی کسی آزمائش اور چیلنج سے کم نہیں ہے، پیچھے ہٹنا اُن کی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

 

بجلی گھروں سے معاہدے خلافِ آئین ہیں

مکرمی، السلام علیکم!
میں متوسط درجے اور بیاسی سال کا ایک ریٹائرڈ عام پاکستانی ہوں اور فرائیڈے اسپیشل خرید کر پڑھنے والا۔
آپ کے شمارہ نمبر34 میں ’’آئی پی پی اسکینڈل کی ہوشربا داستان، اشرافیہ کی بدمعاشی کا خاتمہ کب ہوگا؟‘‘ کے عنوان سے اے اے سید کا مضمون پڑھا اور دل ہی دل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ پر ایک مرتبہ پھر تبّرا بھیجا۔ میں عوام کا خون چوسنے والی اس اشرافیہ کو ’’بدمعاشیہ‘‘ اور ’’ارذالیہ‘‘ کہتا ہوں۔
اس خط کے لکھنے کا مقصد مضمون نگار کی پرائیویٹ بجلی گھروں کی لوٹ کھسوٹ کے ایک دو اور پہلوئوں پر توجہ دلانا ہے۔
میری ناقص رائے میں ان پرائیویٹ بجلی گھروں سے کیے گئے تمام معاہدے خلافِ آئین ہیں اور شاید خلافِ قانون بھی۔ میں قانون دان نہیں ہوں۔ (کبھی، تقریباً پچاس سال پہلے ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگری ضرور لی تھی) مجھ سے بہتر رائے کوئی آئینی ماہر قانون دان ہی دے سکتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 3 ریاست (بشمول حکومت) کو اس امر کا پابند بناتا ہے کہ وہ ملک میں Exploitation، خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، کا مکمل خاتمہ کرے گی۔ اوکسفرڈ انگریزی، اردو لغت کے مطابق Exploitation کا مطلب ہے ’’استحصال کرنا، (کسی کو) زبردستی یا ناواجب طور پر نقصان پہنچا کر اپنا بھلا کرنا‘‘۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے ان پرائیویٹ بجلی گھروں کی بنیاد رکھی۔ ان بجلی گھروں سے کیے گئے معاہدے سراسر خلافِ آئین تھے کیونکہ یہ معاہدے جن شرائط پر کیے گئے تھے وہ سراسر عوام کے استحصال پر مبنی تھیں، اور یہ استحصال حکومت کے ذریعے ہی کیا جانا تھا۔ کیا اس میں کوئی کرپشن شامل نہیں تھی؟
آئی پی پیز یعنی پرائیویٹ بجلی گھروں سے کیے گئے ان معاہدوں کا ایک بھیانک پہلو اور بھی ہے۔ ان میں موجود ایک اہم، ناقابلِ یقین لیکن قابلِ مذمت شق کے ذریعے اپنے ملک کی عدالتوں کا دائرۂ اختیار (Jurisdiction) ختم کردیا گیا اور معاہدے کے فریقین کے درمیان پیدا ہونے والی کسے ممکنہ تنازعے کے فیصلے کا اختیار بین الاقوامی عدالت یا ثالث کو دے دیا گیا۔ کیا یہ حب الوطنی کا نمونہ ہے؟
آئین کا آرٹیکل 38(a) ریاست (بشمول حکومت) کو پابند کرتا ہے کہ وہ عوامی مفاد کے خلاف دولت، ہر قسم کی پیداوار اور اس کی تقسیم کو چند ہاتھوں کی حد تک محدود نہ ہونے دے۔ علاوہ ازیں یہ شق خاص طور پر اس لیے بھی شامل کی گئی کہ معاملہ اگر پاکستانی عدالت میں جاتا ہے تو معاہدے کو Exploitation قرار دے کر ختم (کالعدم) کیا جاسکتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 173(3) واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومت کی انتظامیہ کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی معاہدہ صدرِ مملکت یا صوبائی گورنر کے نام سے کیا جائے گا۔ کیا پرائیویٹ بجلی گھروں (IPPs) سے کیے گئے معاہدوں میں یہ شق شامل ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ بے نظیر حکومت سے لے کر اب تک کی تمام حکومتیں ان بدنام زمانہ معاہدوں کو عوام سے خفیہ رکھنے پر مُصر رہی ہیں؟ کیا دال میں کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے؟
(شمیم احمد… کراچی)