امام حسن البنا ؒ

تاریخِ اسلام نے لاتعداد داعی دیکھے ہیں، لیکن دعوت و تشہیر ایک چیز ہے اور تعمیر بالکل دوسری۔ ہر داعی معمار نہیں ہوسکتا اور ہر معمار بھی یہ عبقریت اور عظمت نہیں پا سکتا۔ یہ عظیم الشان عمارت جسے ’’اخوان المسلمون‘‘ کہتے ہیں اسی تعمیر و عبقریت کا ایک مظہر ہے۔ یہ لوگ محض کوئی ایسا گروہ نہیں ہیں کہ خطیب نے ان کے جذبات کو گرما دیا ہو، ان کے احساسات بیدار کردیے ہوں اور وہ کسی سطحی سوچ کے تحت کسی عارضی ہدف کے گرد جمع ہوگئے ہوں۔ اخوان وہ عمارت ہیں کہ تعمیر کی خوبی و استحکام اس کے ایک ایک زاویے سے اجاگر ہوتی ہے۔ اسرہ جات، شعبہ جات، علاقہ جات، تنظیمی مراکز، تاسیسی مجلس اور مکتبِ ارشاد، ہر خشت اپنی مثال آپ ہے۔

یہ تو ہوئی اس کی ظاہری شکل و صورت، لیکن معمار کی اصل عبقریت صرف ظاہری شکل سے نہیں، جماعت کے داخلی نظام اور فکر کی ہمہ گیریت سے اجاگر ہوتی ہے۔ پورا نظامِ کامل نہایت باریک بینی اور محکم انداز سے تشکیل دیا گیا ہے۔ تنظیم و ترقی کا اصل شکوہ اس کی روحانی تعمیر سے واضح ہوتا ہے، جس میں اسرہ جات، کتیبوں اور شعبہ جات کے افراد باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا اکٹھا مطالعہ کرنا، مشترکہ نماز و عبادات، مشترکہ احساسات، مشترکہ ہدایات، مشترکہ سفر، مشترکہ تربیت گاہیں اور پھر بالآخر مشترکہ اطاعت اور یکساں سوچ… اس سب کچھ نے دین کی خاطر برپا اس جماعت کو، دلوں میں پرورش پانے والے ایسے عقیدے اور ایمان کی صورت دے دی ہے، جو احکام و تعلیمات اور تنظیمی ضوابط سے پہلے ہی نفوس کو متحرک کردیتا ہے۔

حسن البناؒ کی عبقریت اپنے ساتھیوں کی انفرادی اور اجتماعی توانائیوں کو بہتر طور پر استعمال کرنے سے ظاہر ہوتی تھی۔ انھیں ایسی مسلسل و مفید سرگرمیوں میں کھپا دینے میں تھی کہ جن کے بعد وہ اوقات کو فارغ جان کر اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں نہ مارتے پھریں۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ صرف لوگوں کے دینی احساسات و جذبات ابھار دینا کافی نہیں ہوتا۔ اگر ایک داعی اپنی ساری سرگرمی اسی ایک نکتے پر مرتکز کردے، تو وہ نوجوانوں کو مخصوص دینی ہوس کا شکار تو کردیتا ہے، لیکن کسی تعمیری سرگرمی میں نہیں کھپاتا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عقیدے کی علمی تاویلات کا مطالعہ کافی نہیں ہوتا۔ اگر داعی صرف انھی میں کھو جائے تو وہ بالآخر تمام روحانی سرچشموں کو خشک کردینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہ اس روحانیت سے محروم رہتا ہے جو علمی مطالعے کو حرارت و گداز اور زرخیزی عطا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ صرف وجدان کو اپیل کرنا اور مطالعے کا اہتمام کرنا بھی توانائیوں کا پورا استعمال نہیں ہے۔ عمل کی طاقت، جسمانی توانائی، اکتساب و عطا، قتال و انفاق… غرض کتنے پہلو ہیں جو اْدھورے اور تشنہ تکمیل رہیں گے۔

انھوں نے ان تمام پہلوئوں پر سوچ بچار کی، یا یوں کہیے کہ انھیں ان تمام پہلوئوں کے احاطے کی توفیق نصیب ہوئی۔ انھوں نے جماعتی دائرے میں شامل ہونے والے ہر مسلمان بھائی کو ان تمام میدانوں میں متحرک کردیا۔ یہ سب جماعتی نظام کی برکات تھیں۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کی تمام فطری توانائیوں کو تعمیر و عمل میں کھپا دیا۔ کتیبہ جات، تربیت گاہیں، اخوانی تنظیمیں اور کمپنیاں، داعیوں کا نظام، جہاد اور شہادتی کارروائیوں کے لیے افراد کی تیاری (تاکہ وہ جہادِ فلسطین میں عملاً شریک ہوسکیں)۔ غرض ہر پہلو اس نظام کے عظیم وبے مثال ہونے کا عملی ثبوت تھا۔

(سید قطب شہید/ اشاعتِ خاص، حسن البنا شہید، ماہنامہ ترجمان القرآن)