ممبئی سے محترم پروفیسر ظہیر علی رقم طراز ہیں: ’’جب بھی برصغیر ہند کے افراد، تعلیم میں انگریزی کے غلبے کا ذکر کرتے ہیں تو یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ کوئی ادارہ یا کوئی گروہ ان پر زبردستی انگریزی نہیں تھوپتا۔ اگر آپ اپنے بچوں کو انگریزی نہیں پڑھانا چاہتے ہیں تو نہ پڑھائیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ قوم آج بھی وہی [اُسی] فضول بحث میں اُلجھی ہوئی ہے جس سے سرسید کو اُلجھنا پڑا تھا۔‘‘
خدا شکر خورے کو شکردیتا ہے اور کالم نگار کو موضوع۔ پروفیسر صاحب کو اللہ خوش رکھے، اُنھوں نے ایسا لفظ استعمال فرمایا کہ ’طبیعت اچانک رواں ہوگئی ہے‘۔ اگر پانچوں اُنگلیاں کسی طبلے کو رسید کی جائیں تو ’تھاپ‘ ہے۔ زنّاٹے کے ساتھ کسی کے منہ پر چھاپ دی جائیں تو ’تھپڑ‘۔ یہی تھپڑ اگر ہلکے سے یعنی پیار سے لگایا جائے تو تھاپی یا تھپکی بن جاتا ہے۔ آٹے کے پیڑے کو پہلے پٹرے پر رکھ کر بیلن سے بیلتے ہیں، پھر دونوں ہتھیلیوں سے اس پر ’تھپڑاؤ‘ کر تے ہوئے توے پر یا تندور میں ’تھاپ‘ دیتے ہیں۔ یہ عمل تھاپنا، یا ’تھوپنا‘ کہلاتا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ فرماتی ہے کہ ’ تھوپنا‘ فعل متعدی ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھیری لگانا، بٹورنا، الگ کرنا۔ یوں ہی بن گھڑے توے پر ڈال کر روٹی پکانا۔ ’تھاپنا‘ کے معنوں میں تھوپنا بھی بولا جاتا ہے، جیسے ’روٹی تھوپنا‘۔ مزید معنی ’لِیپنا‘یعنی لِپائی کرنا۔ ’لیسنا‘ یعنی کسی گاڑھی چیز کی موٹی تہ لگانا جیسے اُپلے تھوپنا یا اُپلے تھاپنا، کوئی تہمت یا کوئی الزام کسی کے سر منڈھ دینا۔ کوئی قصور کسی کے ذمے لگا دینا، جنابِ بیخودؔ نے یہ کام خود کیا:
سلوک، غیر سے اتنا ضرور میں نے کیا
کہ اُس پہ تھوپ دیا جو قصور میں نے کیا
ہندوستان کا تو ہمیں نہیں معلوم، مگر پاکستان کا خوب معلوم ہے۔ ہمارے ہاں کوئی اپنے بچوں کو انگریزی نہ پڑھانا چاہے تو ہرگز نہیں پڑھاتا۔ اُنھیں دینی مدارس میں داخل کروا آتاہے۔وہاں ذریعۂ تعلیم اُردو ہے۔گو کہ پاکستان کے کئی دینی مدارس میں انگریزی بھی بطور’مضمون‘ پڑھائی جا رہی ہے، مگر دینی مدارس کا اوڑھنا بچھونا انگریزی نہیں ہے۔ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات اُردو زبان پر اچھی قدرت رکھتے ہیں۔ تحریر و تقریر میں خالص اُردو استعمال کرتے ہیں۔ تحقیقی مقالہ تحریر کرتے ہیں تو اُس کی تیاری میں اپنی فکر اور اپنا ذہن استعمال کر تے ہیں۔ اُردو میں سوچتے ہیں، اُردو میں لکھتے ہیں۔یہ عاجز کالم نگار دینی مدارس کے تیار کیے ہوئے ایسے محققین سے بھی واقف ہے جنھوں نے فقہی مسائل ہی پر نہیں ’جدیدیت‘ جیسے جدید مسائل پر بھی تحقیقی کتب تحریر کی ہیں۔ دینی مدارس کے جو طلبہ و طالبات انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں وہ دونوں زبانوں سے، دونوں زبانوں میں ترجمہ کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں اور کرتے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان میں افراد یا جماعتیں نجی طور پر دینی مدارس قائم کرتی ہیں۔سرکار کو اپنے وطن کے عوام کی اس ضرورت سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ سرکار نے بھی کوئی دینی مدرسہ قائم کیا ہے یا کوئی دینی مدرسہ ’تھوپ‘ دیاہے۔
’تھوپنے‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی کو اُس کی مرضی و منشا کے بغیرکسی کام میں جوت دیا جائے۔ سرکارہم سے محصولات وصول کرکے، سرکاری خرچ پر جو تعلیمی ادارے قائم کرتی ہے اُن میں ہمارے بچوں پر انگریزی زبردستی ’تھوپی‘ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ملک کے نجی تعلیمی اداروں پر بھی سرکار ’تھوپتی‘ ہے کہ اگر اُنھیں کسی سرکاری ’ تعلیمی بورڈ‘ یا کسی سرکاری یونیورسٹی سے اپنے بچوں کو امتحان دلوا کر سند حاصل کرنی ہے تو ان نجی تعلیمی اداروں کو بھی وہی ولایتی نصاب پڑھانا ہوگا جو سرکار نے ’تھوپ‘ رکھا ہے۔ اگر اس کو بھی ’تھوپنا‘ نہیں کہیں گے تو اور کس کو کہیں گے؟ جبراً تھوپے ہوئے انگریزی ذریعۂ تعلیم کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ کچھ طلبہ و طالبات ابتدائی جماعتوںسے، کچھ ثانوی جماعتوں سے، کچھ کالجوں سے اور کچھ جامعات کی سطح پر’ تھوپ تھاپ‘ کے اس نظام کو خیرباد کہہ کر تعلیم ترک کردیتے ہیں۔ یوں ترکِ تعلیم کی شرح چڑھ رہی ہے اور تعلیم یافتگان کی شرح گر رہی ہے۔ ہر شہرکے ہر محلے میں ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں بڑی تعداد میں مل جائیں گے جنھوں نے انگریزی کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ ہمارے ملک کے معروف استاد اور مشہور مزاح گو شاعر انورؔ مسعود نے بھی ایک شعر تھوپا ہے:
دوستو! انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے
سرکار نوکری بھی اُنھیں کو دیتی ہے جو اپنے سرپر بلکہ اپنے سراپا پر انگریزی تھوپ کر آئیں۔ ملک کے کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیے، ایسا محسوس ہوگا کہ یہ دفتر امریکہ، برطانیہ یا کناڈا کے شہریوں کی سہولت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ ہر کمرے، ہر عہدے دار، حتیٰ کہ بیت الخلا کی تختی بھی انگریزی میں ہوگی۔ کمروں کی میزوں پر دھری ہوئی ہر مسل انگریزی لکھے ہوئے اوراق سے بوجھل ہوگی۔ اندر پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ دنیا ایک الگ دنیا ہے۔ اس دنیا کا ’گلی کوچوں کی مخلوقِِ فراواں‘ سے کوئی تعلق ہے نہ اُن کی زبان سے۔ وہ لوگ اِن کی زبان سمجھتے ہیں نہ یہ لوگ اُن کی زبان سمجھتے ہیں۔ یہ ایسا ہوائی قلعہ ہے جس میں انگریزی ’تھوپے‘ بغیر کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔ جب قانون سازی کی زبان انگریزی ہو، عدالت کی زبان انگریزی ہو اور ملازمت کی زبان انگریزی ہو تو بھلا کیسے کہا جا سکتا ہے کہ
’’کوئی ادارہ یا کوئی گروہ ان پر زبردستی انگریزی نہیں تھوپتا۔‘‘
ہندوستان ہو یا پاکستان، اُردو زبان میں بڑی جان ہے۔ سرکاری سرپرستی کے بغیر بھی یہ زبان خوب پھل پھول رہی ہے۔ اس میں نمو کی طاقت ہے۔ نمو کی طاقت آپ نے دیکھی تو ہوگی۔ کس طرح نرم ملائم کونپل، کھردرے سخت تنے چیر کے رکھ دیتی ہے۔ اُردو نے اپنے اوپر پڑنے والی تمام آفات اور حوادث کا بے جگری سے مقابلہ کیا ہے۔ یہ اُردو کے ’زندہ زبان‘ ہونے کا ثبوت ہے۔ آج یہ زبان محض اپنے بل بوتے پر دنیا کی طاقتور زبانوں کے شانے سے شانہ ملائے نہ صرف عالمی ربط کے برقی صفحات پرموجود ہے بلکہ جدید ترین ابلاغی آلات پر بھی۔ اُردو محض شعر و سخن کی زبان نہیں۔ اُردو میں تمام علوم و فنون پر وقیع کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سائنسی علوم پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔
کوئٹہ سے محترم نوید شہزاد نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ
’’اُردو کو انگریزی زبان سے اعلیٰ و ارفع ماننے کو دل نہیں کرتا، کیوں کہ سائنس کے سارے مضامین انگریزی میں ہیں‘‘۔
نوید صاحب کو معلوم ہو کہ وطنِ عزیز پاکستان میں ایک عرصے تک تمام سائنسی مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ نہ پڑھانے سے یہ نوبت آگئی ہے کہ لوگ اُردو کو ادنیٰ زبان سمجھنے لگے ہیں۔ تاہم اُردو کو ایک بار پھرتعلیم کی زبان بنانے کے لیے ہمارے ہاں کئی توانا تحاریک چل رہی ہیں۔ کوشش مسلسل کی جاتی رہے تو کبھی نہ کبھی کامیاب ہو ہی جائے گی۔ بقول ثروتؔ حسین:
لے آئے گا اِک روز گُل و برگ بھی ثروتؔ
باراں کا مسلسل خس و خاشاک پہ ہونا
اپنی بات کے آخر میں پروفیسر ظہیر علی صاحب نے سرسید کے الجھنے کا ذکر کیا ہے۔ سرسید کا اُلجھیڑا آزادی سے قبل کا اُلجھیڑا تھا۔ دورِ غلامی کی اُلجھنوں کو سُلجھانے کے لیے اُنھوں نے ایک تدبیر کی۔ اُس تدبیر کے مثبت اور منفی اثرات پر بحث آج بھی ہورہی ہے۔ ماضی کے اقدامات پر بحث سے مستقبل کا لائحہ عمل متعین ہوتا ہے۔ مگر منشا سرسید کا بھی شاید یہ نہیں ہوگا کہ ہم اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور اپنا تمدن سبھی کچھ انگریزی کی بھٹی میں جھونک ڈالیں اور اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے۔ اُدھر تو انگریز ہمیں سینٹتے ہی نہیں، ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا۔ اِدھر ہماری نئی نسل پر انگریزی اس قدر تھوپ دی گئی ہے کہ ایک روز ایک صاحبزادی ہر آئے گئے سے پوچھتی پھر رہی تھیں:
’’سر! اُردو کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟‘‘