اردو شاعری خصوصاً غزل کی دنیا میں میرتقی میرؔ کا نام ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ لیکن میرؔ کی زندگی، شخصیت اور اُن کی شاعری کے حوالے سے جس انداز میں تحقیق ہونی چاہیے تھی شاید ابھی تک بوجوہ نہ ہوسکی۔ آپ کے حالاتِ زندگی کا بنیادی ماخذ ’’ذکر ِمیر‘‘ نامی کتاب ہے، جس میں میرؔ کے اپنے الفاظ میں اُن کی زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔ مختلف تحقیقات کی روشنی میں آپ کا سالِ پیدائش 1723ء قرار دیا جاتا ہے۔ بہرحال میرتقی میرؔ کی زندگی،شخصیت اور فنِ شاعری کے حوالے سے جہاں پر بہت سی کتب تحریر ہوچکی ہیں وہاں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ کتب کے علاوہ پاک وہند کے کئی رسائل نے میر تقی میرؔ پر خصوصی اشاعتیں شائع کرکے اس عظیم شاعر کو نہ صرف خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، بلکہ دُنیائے ادب کو ان کی شاعری کے اسرارورموز سے بھی آگاہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔
مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کے قدیم تحقیقی جریدہ ’’صحیفہ‘‘ نے مجلس کے ناظم اور رسالے کے مدیر اعلیٰ جو نہ صرف وطنِ عزیز پاکستان بلکہ بیرونِ وطن کے معروف شاعر، نقاد اور ادیب جناب عباس تابش ہیں، کی زیرادارت ایک عظیم الشان ’’میر تقی میرؔ نمبر‘‘ شائع کرکے میرؔ کے حوالے سے قدیم و جدید مقالات و نگارشات کا ایک ایسا خوبصورت گلدستہ پیش کیا ہے جو بلاشبہ ’’میرشناسی‘‘ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
مجلہ ’’صحیفہ‘‘ کا شمارہ نمبر 246تا 252 جو کہ ’’میرتقی میر‘‘ نمبر کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، کے بارے میں محقق، ادیب، شاعر اور ’’صحیفہ‘‘ کے مدیر ارشد نعیم اپنے ’’اداریے‘‘ میں لکھتے ہیں:
”میر تقی میرؔ اردو کے ان خوش قسمت شعرا میں سے ایک ہیں جن کی شاعری کو اہلِ نقد و نظر نے اردو کے ادب ِعالیہ میں شمار کیا ہے… میر تقی میرؔ 1723ء میں پیدا ہوئے، اسی مناسبت سے 2023ء کو ان کے تین سو سالہ جشنِ ولادت کا سال قرار دیا گیا ہے۔ ’’صحیفہ‘‘کا زیرِ نظر میر تقی میرؔ نمبر بھی اسی جشنِ ولادت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور میرؔ کی ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کوشش۔ ہم نے ’’صحیفہ‘‘ کے موجودہ نمبر کی ترتیب میں بالخصوص یہ خیال رکھا ہے کہ قارئین میرؔ کی تفہیم و تحسین کے اس تسلسل سے پوری طرح روشناس ہوسکیں… ہر اُس تحریر کو اس خاص نمبر کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے جس کی مدد سے میرؔ کی شاعری کی کسی اہم فکری و فنّی جہت کو منظرِ عام پر لایا جاسکے۔‘‘
میر تقی میرؔ پر اس خصوصی اشاعت میں… ابواب کے تحت مقالات کو تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب ’’حیات و شخصیت‘‘ میں میر کی زندگی اور سوانح کے حوالے سے مضامین پیش کیے گئے ہیں۔ باب دوم ’’میرؔ اور اُن کا عہد‘‘ میں میرؔ کے عہد اور اُن کے ہم عصروں کے حوالے نگارشات شامل ہیں۔ تیسرا باب ’’فنی و فکری مطالعہ‘‘ میں میر کی زندگی کے علاوہ اُن کی شاعری کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔ چوتھا باب ’’میر شناسی کی روایت‘‘ ہے جس میں اس خصوصی نمبر سے قبل میرؔ پر ہونے والے تحقیقی و تنقیدی کام پر محققین کی آرا پیش کی گئی ہیں۔
باب پنجم ’’میرؔکی مثنوی نگاری‘‘ اور باب ششم ’’میرؔ کی فارسی شاعری‘‘ پر مشتمل ہے۔ باب ہفتم میں ”میر کا فلسفہ تصوف‘‘ بیان کیا گیا ہے۔ آٹھواں باب ’’میرؔ کا شہرِ آشوب‘‘ کے بارے میں ہے۔ نویں باب میں ’’میر کی مذہبی شاعری‘‘ پر گراں قدر مقالات شامل ہیں۔ باب دہم ’’میرؔ کی واسوخت نگاری‘‘ اور گیارہواں باب ’’میر اور جدید تنقیدی مباحث‘‘ پر مشتمل ہے۔
اس ادبی اور تحقیقی و تنقیدی خاص نمبر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ میرتقی میرؔ کی سوانح، حالاتِ زندگی، شاعری کے علاوہ اس رسالے میں نہ صرف قدیم نایاب مقالات کا بہترین انتخاب سامنے لایا گیا ہے بلکہ قدیم و جدید محققین سے باقاعدہ طور پر میرؔ شناسی کے حوالے سے نئے مضامین لکھوا کر اس رسالے کی زینت بنائے گئے ہیں۔ اس لیے یہ شمارہ قدیم و جدید نگارشات کی اشاعت کی بدولت ’’میرشناسی‘‘ کے میدان کے علاوہ اُردو ادب میں دیگر شعرا کے حوالے سے کام کرنے کے لیے بطور نمونہ و حوالہ ثابت ہوگا۔
اس خصوصی اشاعت میں جن مصنّفین کی تحریریں پیش کی گئی ہیں اُن میں مسعود حسن رضوی ادیب، انتظار حسین، کالی داس گپتا رضا، تنویر احمد علوی، شمس الرحمٰن فاروقی، پروفیسر نیّر مسعود، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، فراق گورکھ پوری، مالک رام، ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر، ڈاکٹر مولوی عبدالحق، ڈاکٹر ناصر عباس نیّرکے علاوہ اور بہت سے نامِ گرامی شامل ہیں۔
میر شناسی کے حوالے سے شائع شدہ ’’صحیفہ‘‘ کا یہ خاص نمبر 624 صفحات پر بڑے سائز میں نہایت خوبصورت سفید کاغذ، اعلیٰ طباعت، چہار رنگی سرورق اور مضبوط جلد بندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ رسالے کے نائب مدیر راول حسین صاحب ہیں، جب کہ مجلسِ مشاورت میں ڈاکٹر ناصر عباس نیّر، ڈاکٹر شیبہ عالم، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر صائمہ ارم، شاکر حسین شاکر، شکیل جاذب اور خالد ندیم شانی شامل تھے۔