قصۂ یک درویش! یحی خان مارشل لا کا نفاذ اور طلبہ کی سیاسی تحریک

(قارئین محترم! پچھلی قسط (چھبیسویں) میں مولانا عامر عثمانی کے شعر میں کمپوزنگ کی ایک غلطی سے شعر کا مزا کرکرا ہوگیا۔ ’’یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں‘‘ میں شروع کا یہ، ’’وہ‘‘ میں بدل گیا۔ اس تسامح کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔)

اُس دور میں جمعیت طلبہ تمام بڑے تعلیمی اداروں میں ایک سیاسی قوت بن چکی تھی، جامعہ پنجاب کی انجمن کا خلا جمعیت کی تنظیم نے اپنی شبانہ روز محنت اور سرگرمیوں سے کسی حد تک پُر کردیا تھا۔ جامعہ میں منتخب انجمن طلبہ کی جگہ ایک کٹھ پتلی نامزد انجمن رئیس الجامعہ نے قائم کی تھی اور جمعیت کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی، مگر جمعیت نے ایسی ناکارہ اور ڈمی یونین میں شمولیت سے انکار کردیا۔ ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ شعبہ جاتی نامزدگیوں کے بجائے جامعہ میں جمہوری بنیادوں پر حقیقی یونین کا انتخاب ہونا چاہیے۔ اس دور کے واقعات میں سے چند اہم واقعات یہاں درج کیے جاتے ہیں۔

ہمارے بعض قریبی ساتھیوں نے بائیں بازو کی مار دھاڑ کرنے والی تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی مشاورت سے ڈیموکریٹک یوتھ فورس کی بنیاد رکھی۔ ڈیموکریٹک یوتھ فورس ایک الگ اور آزاد تنظیم تھی جس کا اپنا دستور تھا، مگر اس تنظیم میں شامل تمام نوجوان ہمارے ہم خیال تھے، لہٰذا اس دور میں جمعیت کے ساتھ یوتھ فورس کا بھرپور تعاون رہا۔ ہمارے مخالفین نے بھی کئی تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ ان کے نام پر ہمارے خلاف اخباری بیانات بھی جاری کیے جاتے اور پوسٹر بھی دیواروں پر لگائے جاتے۔ میں نے ایک دن برادرانِ گرامی زاہد بخاری اور عبدالوحید سلیمانی سے اس موضوع پر گفتگو کی جس کے نتیجے میں ہماری متفقہ رائے یہ بنی کہ مخالفین کو انہی کے ایجاد کردہ ہتھیار سے شکست دی جائے۔ چناںچہ ہم نے تین چار نام تجویز کیے اور اگلے روز ارکانِ جمعیت کے مشورے کے بعد ہمارے پاس بھی چار حامی تنظیمیں موجود تھیں۔ ان سب کے عہدے داران جمعیت کے حامی طلبہ میں سے چنے گئے اور سوائے جمعیت کی سیاسی کمیٹی اور ارکانِ جمعیت کے کسی کو پتا نہ تھا کہ یہ نوجوان کون ہیں۔

جمعیت کی طرف سے لیٹر پیڈ چھپوائے گئے اور مہریں بنوائی گئیں۔ ایک تنظیم کا نام تھا ’’لاہور طلبہ محاذ‘‘۔ اس کے چیئرمین جاوید احمد خان تھے۔ ہماری قائم کردہ کسی بھی تنظیم میں کوئی فرضی نام نہ تھا۔ سارے لوگ باقاعدہ میدان میں موجود تھے اور ان کے اصلی دستخطوں سے بیانات جاری ہوتے تھے۔ جاوید احمد خان کے بیانات اس شان سے اخبارات میں چھپنے لگے کہ کئی لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جاوید احمد خان یونیورسٹی یونین کی بحالی پر آئندہ صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئے گا۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ جاوید اس دور میں وحدت روڈ سائنس کالج میں انٹرکا طالب علم تھا اور جمعیت کا رفیق تھا۔ بعد میں وہ جمعیت کے شعبہ نشرواشاعت میں بطور معاون شعبہ کام کرتا رہا اور پھر عملی زندگی میں بطور صحافی روزنامہ ’’مساوات‘‘ سے منسلک ہوا۔ وہ جہاں بھی گیا، تحریکی روح ہمیشہ اس کے رگ و پے میں موجزن رہی۔

اس دور میں جمعیت سیاسی اور صحافتی میدان میں ایک قابلِ ذکر قوت بن چکی تھی۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت وقت، محنت اور بھاگ دوڑ صرف ہوئی، لیکن ان ساری مصروفیات کے باوجود ہم نے تربیتی پروگراموں اور شب بیداریوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہونے دیا۔ اس دور میں ہماری شب بیداریوں میں جن بزرگان نے بطور مربی شرکت فرمائی، ان میں ڈاکٹر نذیر احمدؒ شہید، مولانا عبدالعزیزؒ مرحوم (کوئٹہ، امیر جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان)، مولانا سردار علی خانؒ مرحوم (امیر جماعت اسلامی صوبہ سرحد)، میاں طفیل محمدؒ (مرکز جماعت)، مولانا معین الدین خٹکؒ مرحوم (بنوں)، پروفیسر غلام اعظمؒ شہید (مشرقی پاکستان)، ملک غلام علیؒ مرحوم (مرکز جماعت)، سید اسعد گیلانیؒ مرحوم (امیر صوبہ پنجاب)، مولانا عاصم نعمانیؒ مرحوم (مرکز جماعت) اور سید منور حسنؒ (جماعت اسلامی کراچی) کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ ہماری یہ تربیت گاہیں، اور شب بیداریاں مختلف مقامات پر ہوتی تھیں جن میں نیا مدرسہ اچھرہ، سعید منزل، دفتر جمعیت، انارکلی اور مختلف مساجد اور جامعہ پنجاب کے بعض پارک اور لان خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

اس دوران ایوب خان کی آمریت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریکوں نے خاصا زور پکڑ لیا تھا۔ حکومت اور پولیس کی تشدد آمیز کارروائیوں کے باوجود یہ تحریک دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ ان حالات میں جمہوری تبدیلی کے بجائے آخر بدقسمتی سے مارچ 1969ء میں ملک میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا لگ گیا۔ ہم نے یہ منحوس خبر سعید منزل کے قریب ایک چائے خانے میں ریڈیو پاکستان سے سنی۔ اُس روز اسی چائے خانے میںہم نے جنرل یحییٰ خان کی تقریر بھی ٹی وی پر سنی۔ مارشل لا لگنے کے بعد ایئرمارشل نور خان مغربی پاکستان کے گورنر بنائے گئے، اس کے علاوہ آپ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین بھی تھے۔ مارشل لا لگنے کے کچھ عرصے بعد انھوں نے اپنی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس تعلیمی پالیسی پر جمعیت کے مرکز (کراچی) سے ایک پالیسی نوٹ اور اس بارے میں اپنی رائے پر مشتمل ایک سائیکلو اسٹائل سرکلر نکالا گیا جو تمام مقامی جمعیتوں کو پہنچایا گیا۔

گورنر مغربی پاکستان ائیرمارشل نور خان نے لاہور کے طلبہ رہنمائوں کے ساتھ ایک ملاقات گورنر ہائوس میں رکھی۔ اس ملاقات میں شرکت سے قبل ہم نے جمعیت کی طرف سے اپنا بھرپور نقطہ نظر تیار کیا جسے میں نے گورنر صاحب کی مجلس میں پیش کیا۔ پالیسی کے جن نکات سے ہمیں اتفاق تھا، ان کو سراہا اور جن سے اختلاف تھا ان پر پورے دلائل کے ساتھ بھرپور تنقید کی اور ان کی تبدیلی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ متبادل تجاویز بھی پیش کیں۔ نور خان بڑے انہماک اور توجہ سے ہماری بات سنتے رہے اور نوٹس بھی لیتے رہے۔ جمعیت کے علاوہ بھی کئی طلبہ تنظیمیں اور ان سے منسلک طالب علم رہنما اس اجلاس میں موجود تھے۔ مجھے نور خان صاحب سے وہ پہلی اور آخری ملاقات خوشگوار لگی، کیوںکہ کسی بھی مخالفانہ تبصرے پر اُن کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر نہ آئے تھے۔

اجلاس کے آخر میں ایک ’’بزرجمہر‘‘ قسم کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طالب علم لیڈر نے گورنر صاحب سے درخواست کی کہ وفد کو گورنر ہائوس کی سیر کرائی جائے۔ گورنر نور خان نے ایک نظر اُس لیڈر کی جانب دیکھا اور ایک نظر سے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب دیکھا، غالباً وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ’’تم اپنے ناقدانہ مؤقف اور متبادل مطالبات پر زیادہ نہ اترائو، ہمارے پاس ایسے طالب علم لیڈر بھی کافی ہیں۔‘‘ بہرحال گورنر نے اٹھتے ہوئے اپنے پی اے کو اشارہ کیا اور سیر کے شائقین کے لیے اس کا اہتمام کردیا گیا۔ گورنر ہائوس کے مغربی دروازے سے ہم باہر مال روڈ پر نکلے تو بارک اللہ خان اور جہانگیر بدر کو باہر کھڑے ہوئے دیکھا۔ دونوں طالب علم لیڈر دیر سے پہنچے تھے اس لیے اندر نہ آسکے۔ واضح رہے کہ جہانگیر بدر اُس وقت تک ہمارے تنظیمی حلقے میں تو باقاعدہ کارکن نہیں تھے مگر وہ طلبہ سیاست میں ہمارے ہی ایک سیاسی کارکن تھے جو ہیلے کالج میں زیر تعلیم اور ہماری حمایت سے کالج یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت تک ہمارے باہمی ذاتی تعلقات بہت خوشگوار تھے۔

نور خان تعلیمی پالیسی میں یونیورسٹی آرڈی نینس اور یونیورسٹی یونین کے بارے میں بھی کچھ سفارشات تھیں، مگر اِس وقت مجھے ان کی صحیح نوعیت اور تفصیل یاد نہیں، البتہ ہم نے عرض کیا تھا کہ جامعہ پنجاب کی یونین بحال ہونی چاہیے کیوںکہ یہ ہمارا اور سبھی طلبہ و طالبات کا متفقہ مطالبہ ہے۔ اس دور میں پنجاب یونیورسٹی میں اساتذہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ شعبہ انگریزی کے استاذ پروفیسر سراج تھے، انہی کے نام کی نسبت سے یہ کمیٹی سراج کمیٹی کے نام سے معروف ہوئی۔ سراج کمیٹی کو یونین کی بحالی کے بارے میں طلبہ نمائندوں سے صلاح مشورہ کرکے اپنی سفارشات مع مجوزہ دستور کے یونیورسٹی سینیٹ کو پیش کرنا تھیں۔ اس کمیٹی کی تشکیل ہوتے ہی جمعیت نے مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کی طلبہ یونینز کے دساتیر کی مدد سے ایک نہایت جامع دستوری خاکہ مرتب کیا۔

جمعیت کے ناظم کی حیثیت سے مجھے کمیٹی کے سامنے یہ خاکہ پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ سراج کمیٹی نے بھی اپنی طرف سے ایک خاکہ شائع کیا تھا اور اس میں طلبہ نمائندوں کو ترامیم پیش کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ کمیٹی نے سینیٹ ہال میں اجلاس منعقد کیا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ طلبہ تنظیموں کی طرف سے عملی دستوری خاکہ صرف جمعیت ہی نے پیش کیا تھا۔ ہم نے کاپیاں سائیکلو اسٹائل کرلی تھیں۔ کمیٹی کے ہر رکن کو میں نے کاپی پیش کی اور اجلاس کے دوران اپنے مجوزہ خاکے کے متن کی تشریح بھی کی۔ کمیٹی کے ارکان کے نام یاد نہیں رہے، بہرحال ایک رکن پروفیسر صاحب نے اپنی گفتگو میں جمعیت کی مثبت تجاویز کی تحسین فرمائی۔

تاریخ اب مجھے یاد نہیں مگر یہ وہی دن تھا جس دن ہیلے کالج یونین کے انتخابات ہورہے تھے۔ ہم یونیورسٹی سینیٹ ہال سے اجلاس ختم ہونے کے بعد باہر نکل ہی رہے تھے کہ ہیلے کالج کے طلبہ کا ایک جلوس یونیورسٹی کیمپس آ پہنچا، جمعیت کے دو حامی طلبہ اور میرے ذاتی دوست صدر اور سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ یہ تھے بالترتیب جہانگیر بدر اور اعظم ملک۔ جہانگیر بدر جس کو بعد میں حالات نے ہمارے مخالف کیمپ میں پہنچا دیا تھا، ہمارے بڑے اچھے سیاسی مزاج رکھنے والے حامیوں میں سے تھا۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھنے کو ہے، مگر زیادہ تفصیل میں جانے کو جی نہیں چاہ رہا۔ آگے شاید کچھ جھلکیاں آجائیں گی۔ وہیں پر یعنی سینیٹ ہال کے باہر ہم نے جہانگیر بدر (صدر) اور اعظم ملک (سیکرٹری) کو کامیابی پر مبارک باد دی اور باہم گلے ملے۔ دونوں طالب علم رہنمائوں نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی کامیابی کو جمعیت کی کامیابی قرار دیا۔ طلبہ سیاست کے معروضی حالات میں ہمارے لیے ان کی کامیابی بڑی خوش آئند اور مسرت کا باعث تھی۔ ملک محمد اعظم مرحوم جوانی ہی میں وفات پا گئے۔ مرحوم آخری دم تک تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ رہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔

اجلاس سے فارغ ہونے کے بعد جب میں ہال سے باہر آیا تو ہمارے بہت سے حامی طلبہ نے نتائج کے بارے میں پوچھا۔ میں نے مختصراً کہا: ’’مثبت اور نتیجہ خیز، ان شاء اللہ!‘‘ سراج کمیٹی کے ارکان نے اپنی کئی مجلسوں میں طلبہ یونین کے امور و معاملات اور الیکشن کے موضوع پر بحث کی تھی۔ یہ آخری اجلاس طلبہ تنظیموں کے ساتھ اس روز سینیٹ ہال میں ہوا جو خاصا طویل تھا۔ اس کے بعد کمیٹی نے یونین کی بحالی کی سفارش کی اور یہ سفارش منظور بھی ہوگئی، مگر یونین کے عملاً بحال ہونے اور باقاعدہ انتخاب منعقد ہونے میں مزید کئی ماہ لگ گئے۔ یہ مارشل لا کا زمانہ تھا اور ملک میں سیاسی جماعتوں کی سیاسی جدوجہد اور پبلک سرگرمیوں پر مکمل پابندی تھی، تاہم چار دیواریوں کے اندر سب پارٹیوں کے اجلاس حسب ِحال منعقد ہوتے رہتے تھے۔

یحییٰ خانی مارشل لا کے دور میں مغربی پاکستان میں بھٹو نے اور مشرقی پاکستان میں مجیب اور بھاشانی نے اسلامی جمعیت طلبہ کے مقابلے پر اپنی حامی تنظیموں کو منظم کرنے کی جانب خاصی توجہ دی۔ مشرقی پاکستان میں تو جمعیت کے مخالفین نے 6 نکات کے طوفانی اثرات سے فائدہ اٹھا کر خاصی قوت بہم پہنچائی تھی مگر مغربی پاکستان میں بھٹو کا روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ طلبہ کو اس طرح مسحور نہ کرسکا جس طرح اس نے مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب اورسندھ میں عوام الناس کو متاثر کیا تھا۔ عوام نے تو بھٹو کو نجات دہندہ اور مسیحا کا درجہ دے کر دیوانہ وار اس کے نعرے لگانا شروع کردیے تھے۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و اساتذہ کے درمیان بھٹو کے حامی دن بدن بڑھتے جا رہے تھے، اگرچہ عوام کی نسبت طلبہ و اساتذہ میں ان کی تعداد کم تھی۔

مغربی پاکستان میں بحیثیتِ مجموعی اس دور میں بھی بائیں بازو کے طلبہ کی کہیں دال نہ گلی۔ پی ایس ایف کے ساتھ پی ایس او کی بنیاد رکھی گئی۔ پھر دونوں میں اتحاد بھی کرایا گیا، مگر وہ کوئی میدان نہ مار سکے۔ مشرقی پاکستان میں جمعیت مخالف طلبہ تنظیمیں خاصی طاقتور تھیں۔ اس دور کا مشہور تاریخی واقعہ ہمارے نہایت عزیز دوست اور پُرعزم ساتھی عبدالمالک کی شہادت ہے۔ عبدالمالک شہید ڈھاکہ جمعیت کے ناظم اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے نہایت ہونہار طالب علم تھے۔ ان کی جرأت اور بے باکی عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ اور دیگر لادین طلبہ تنظیموں کو بہت کھلتی تھی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ کے ایک جلسہ عام میں عبدالمالک بھائی نے ان لادین عناصر کو چیلنج کیا اور اپنی بے پناہ ذہانت اور فصاحت و بلاغت سے ان کو لاجواب کرکے حاضرین کے دل موہ لیے۔ اس ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے بدبخت غنڈوں نے اگلے ہی روز بڑی تعداد میں اس عظیم نوجوان پر یونیورسٹی کے احاطے میں حملہ کیا جس کے نتیجے میں عبدالمالک حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے شدید زخمی ہوئے (جاری ہے)