محترم سمیع اللہ بٹ کے ساتھ ابتدائی تعارف 1970ء میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے زیراہتمام ایک تربیت گاہ میں ہوا۔ میں اُس زمانے میں حافظ آباد میں مقیم تھا، اور بٹ صاحب لاہور میں رہائش رکھتے تھے۔ محترم بٹ صاحب کا بچپن گجرات میں گزرا۔ ادبی اور دینی ذوق اُن کی والدہ مرحومہ نے اُن میں بچپن سے ہی پیدا کردیا تھا۔ اُس زمانے میں گجرات کے معروف دیوبندی خطیب مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری مرحوم کی تقاریر سننے سے انھیں خصوصی شغف تھا، اس لیے ہر نماز جمعہ اُن کی مسجد میں پڑھتے۔ تقریر سننے کے شوق میں خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد میں اگلی صف میں جگہ حاصل کرلیتے۔ بعد میں سمیع اللہ بٹ اپنے چھوٹے بھائی عزیزم رفیع اللہ بٹ کے ہمراہ لاہور تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آئے اور اپنے ماموں یوسف بٹ صاحب کے پاس اچھرہ سے قریب محلے رحمان پورہ میں رہنے لگے۔
اُن دنوں رحمان پورہ کی ایک مسجد میں مولانا امین احسن اصلاحی خطبۂ جمعہ دیا کرتے تھے۔ سمیع اللہ بٹ کو مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ مولانا مودودیؒ اور اُس دور کے بہت سے دیگر ممتاز اہلِ قلم کی کتب پڑھ چکے تھے، جن میں مولانا اصلاحی کی کتب بھی شامل تھیں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی بھی اسی رحمان پورہ کی ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے ہیں، تو بہت ذوق وشوق کے ساتھ اُن کے خطباتِ جمعہ میں شرکت شروع کردی۔ خطبہ سننے کا اتنا ذوق تھا کہ لاہور سے باہرکی کوئی بھی مصروفیت ہوتی تو وہ اس سے معذرت کردیتے کہ ’’مولانا اصلاحی کے خطبۂ جمعہ سے محروم نہیں رہ سکتا۔‘‘ اِس ذوق شوق ہی سے مولانا اصلاحی صاحب سے ذاتی تعارف بھی ہوا۔ مولانا اصلاحی نے اپنے گھر پر قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے نوجوانوں کے ایک گروپ کو چند گھنٹے، اور بعض اوقات روزانہ اور بعض اوقات وقفوں کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کررکھا تھا، جس میں علامہ خالد مسعود صاحب، عبداللہ غلام احمد صاحب اور دیگر حضرات باقاعدگی سے شرکت کرتے۔ اِسی گروپ میں سمیع اللہ بٹ صاحب بھی شامل ہوگئے، اور برس ہا برس مولانا اصلاحی سے براہِ راست فیض حاصل کرتے رہے۔
سمیع اللہ بٹ مرحوم کا یہ کمال تھا کہ جہاں وہ ہر صورت مولانا اصلاحی صاحب کے درس میں بھی شرکت کرتے اور نماز جمعہ میں ان کاخطبہ سنتے، وہیں مولانا مودودی کی عصری مجالس میں بھی اسی اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے۔ مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے علم میں یہ بات تھی کہ اِن کی محبت کا رشتہ دونوں طرف استوارہے، اور دونوں نے کبھی اس پر اعتراض نہ کیا بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے سے علمی مسائل پر رائے بھی معلوم کرتے، اور سمیع اللہ بٹ صاحب مرحوم ہمیشہ ان دونوں عظیم ہستیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے بجائے، فاصلے دورکرنے کے لیے کوشاں رہے۔ اِس طرح برس ہا برس بٹ صاحب مولانا اصلاحی سے فیض حاصل کرتے رہے۔ جب مولانا اصلاحی ضلع شیخوپورہ کے ایک گائوں رحمان آباد منتقل ہوئے، تو وہاں باقاعدگی سے مولانا اصلاحی کی خدمت میں نہ صرف خود حاضر ہوتے بلکہ جب جانا ہوتا تو دیگر احباب کو بھی اِس سعادت میں شامل کرلیتے۔ متعدد بار مجھے، سلیم منصور خالد اور عطا الرحمٰن مرحوم کو مولانا اصلاحی کے گائوں لے جانے، ان کی زیارت کرانے اور ان کی میزبانی کا شر ف دلایا۔ بالکل اسی طرح سمیع اللہ بٹ صاحب مولانا اصلاحی کے تلمیذِ خاص علامہ خالد مسعود صاحب سے مسلسل رابطے میں رہتے۔ بٹ صاحب نے مولانا مودودیؒکی تمام کتب کا تفصیل سے مطالعہ فرمایا۔ اصلاحی صاحب کی یادوں کو تازہ کرنے میں ہمارے دوستوں کی محفل میں ڈاکٹر انوار بگوی صاحب، ڈاکٹر منصورالحمید صاحب اور مرحوم عبدالحفیظ احمد صاحب بھی شریک رہے۔
میں 1974ء میں لاہور منتقل ہوا اور سمیع اللہ بٹ صاحب سے روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ کتب پڑھنے کا اُن کا ذوق و شوق مجھے ان سے قریب تر لے گیا۔ سفر و حضر میں ہمیشہ کتاب اُن کے ساتھ ہوتی۔ صرف دینی کتب کا ہی نہیں بلکہ ادبی اور علمی کتب کا بھی مطالعہ فرماتے۔ وہ اُس دور کے مشہور شاعر احسان دانش کی خدمت میں بھی حاضر ہوتے اور اُن کی ایک غزل ترنم کے ساتھ سنایا کرتے۔ مولانا اصلاحی ؒ اور مولانا مودودیؒ کی صحبت نے قرآن فہمی کا ایک عمدہ ذوق ان میں پیدا کردیا، اور اکثر پروگراموں کے لیے ان سے درخواست کی جاتی کہ وہ درسِ قرآن دیں۔ جب وہ درس دیتے تو لوگ درسِ قرآن میں ان کی علمی وجاہت، عمدہ نکات اور تفسیری گہرائی کو دیکھ کر دنگ رہ جائے۔ اُس وقت وہ بالکل نوجوان تھے۔
جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوا اُن دنوں بٹ صاحب محکمہ زراعت میں ملازمت شروع کرچکے تھے۔ ایک روز مولانا خلیل احمد حامدی صاحب نے محترم عبدالشکور صاحب کے ذریعے ہم دونوں کو بلایا اورکہا کہ ’’کینیا میں اسلامک فائونڈیشن کے ذیلی اداروں کے لیے دو نوجوانوں کی ضرورت ہے۔‘‘ ہم دونوں نے وہاں جانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اُس زمانے میں سعودی عرب میں مقیم رائو محمد اختر صاحب مرحوم جو کینیا کے اس پورے پراجیکٹ کے نگران تھے، ان سے رہنمائی لینے اوکاڑہ گئے۔ ہدایات لینے کے بعد ہم دونوں بذریعہ سعودی عرب عمرہ کرنے کے بعد نیروبی کینیا پہنچے، جہاں محترم حافظ محمد ادریس صاحب کی رہنمائی میں مجھے اسیولو نامی شہر یتیم بچوں کی نگرانی کے لیے قائم ادارے میں بھیج دیا گیا، اور انھیں مچا کوس نامی شہر کے ایک دینی ادارے کی ایڈمنسٹریشن کے لیے بھیج دیا گیا۔ کینیا جانے سے پہلے سمیع اللہ بٹ صاحب نے اپنی سرکاری نوکری سے استعفا دے دیا۔ اگرچہ میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ استعفا نہ دیں، ہوسکتا ہے وہاں ہم کسی بھی وجہ سے اگر نہ رہ سکیں تو واپسی کے بعد آپ کی ملازمت تو محفوظ ہو۔ لیکن کہنے لگے ’’تحریک کے حکم پر جا رہے ہیں تو پھر ہمیں پوری یکسوئی کے ساتھ جانا چاہیے۔ اگر وہاں نہ بھی رہ سکے توکوئی بات نہیں، اللہ مالک ہے، وہ راستہ نکال دے گا۔‘‘
کینیا کے جس شہر میں مَیںمقیم تھا، وہاں کی آب و ہوا مجھے راس نہ آئی اور میں دمے کی شدید بیماری میں مبتلا ہوگیا، اس لیے مجھے مجبوراً واپسی کا ارادہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف بٹ صاحب وہاں دینی ادارے کے چند حضرات کے سخت ناہموار رویّے کی وجہ سے دل گرفتہ تھے، تو اس طرح انھوں نے بھی وہاں رہنے سے معذرت کرکے میرے ساتھ واپسی کا ارادہ کرلیا۔ یوں تقریباً چارماہ بعد ہی ہم دونوں واپس پاکستان آگئے۔
میں نے واپسی کے سفر میں اُن سے پوچھا کہ ’’آپ نے نوکری تو چھوڑ دی ہے، اب واپس جاکر کیا کریں گے؟‘‘ توکہنے لگے ’’اللہ مالک ہے، اور وہی بہترین رازق ہے۔‘‘ یہاں واپس آکر انھوں نے کاغذ مارکیٹ گنپت روڈ میں بغیر سرمائے کے کاغذ کے کاروبار کا آغاز کیا۔ انھیں ماضی میں کسی کاروبار کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن اپنی محنت اور ذہانت سے جلد اُن کا شمار وہاں کے مؤثر کاروباری لوگوں میں ہونے لگا۔ یہ اسی چیز کا نتیجہ تھا کہ وہاں کاغذ کے تاجروں کی آل پاکستان انجمن کے صدر بھی رہے اور کئی سال تک وہاں کی کاروباری سیاست کے کرتا دھرتا اور مرکز و محور رہے۔
محترم لیاقت بلوچ صاحب جمعیت سے فارغ ہونے کے بعد پہلے لاہور جماعت کے سیکریڑی جنرل رہے اور اسعد گیلانی مرحوم کے بعد امیر منتخب ہوئے، تو انھوں نے سمیع اللہ بٹ صاحب کو لاہور جماعت کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔ اِنھوں نے ان تھک محنت سے لاہور میں بطور سیکرٹری کام کیا۔ لیاقت بلوچ صاحب کے بعد لاہور کے امیر فرید پراچہ صاحب کے دور میں بھی وہ لاہور کے سیکرٹری جنرل رہے۔
اِس دوران لاہور کے معروف خیراتی اسپتال ثریا عظیم اسپتال کے بھی ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے اور کئی سال اِس ذمہ داری کو بہت شان دار طریقے سے انجام دیتے رہے۔ اِن ساری مصروفیات کے باوجود اُن کا کتب بینی کا ذوق ہمیشہ برقرار رہا۔ اور مولانا اصلاحی کے انتقال کے بعد تسلسل سے علامہ خالد مسعود صاحب جنھیں مولانا اصلاحیؒ کا شاگردِ خاص ہونے کا اعزاز حاصل تھا، کی خدمت میں نہ صرف خود حاضر ہوتے رہے بلکہ مجھ جیسے ناچیز کو بھی متعدد مرتبہ اُن کی خدمت میں حاضری کے لیے اپنے ہمراہ سمن آباد لے جاتے رہے۔ مجھے محترم سمیع اللہ بٹ صاحب کے ساتھ متعدد مرتبہ بیرونِ ملک سفر کرنے کا بھی موقع حاصل ہوا۔ کینیا کے سفر کا تذکرہ تو ہوچکا ہے، جہاں جانے اور واپسی پر عمرہ کی سعادت بھی ہم دونوں نے اکٹھے حاصل کی تھی۔ واپسی کے سفر میں مجھے دمہ کی تکلیف کی شدت نے نڈھال کر دیا تھا، اس دوران انھوں نے میری تیمارداری کا حق ادا کیا۔ ہر لحاظ اور ہر طرح سے میرا خیال رکھا۔ شدید دمے کا حملہ ہوا تواسپتال داخل ہونا پڑا۔ سمیع اللہ بٹ صاحب نے کئی دن رات اسپتال میں میرے پاس گزارے اور مسلسل تیمارداری کی فکر میں مبتلا رہے۔
1997ء میں لیاقت بلوچ صاحب کی ایما پر امام خمینی کی برسی میں شرکت کے لیے ہم دونوں کو ایرانی حکومت کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے ہم لاہور سے بذریعہ ٹرین پہلے کوئٹہ اور پھرکوئٹہ سے تفتان ایرانی بارڈر تک بذریعہ بس دیگر شرکائے وفد کے ہمراہ پہنچے۔ ایک رات زاہدان میں گزارنے کے بعد تہران پہنچ گئے، جہاں ہوٹل میں ہمیں کمرے الاٹ کر دیے گئے۔ مجھے اور سمیع اللہ بٹ صاحب کو ایک کمرہ ملا۔ ان کے مشہور اور ہلا دینے والے خراٹوں نے ساری رات سونے نہ دیا۔ اگلی رات میں نے خاموشی سے اپنا کمرہ تبدیل کرکے سمیع اللہ بٹ صاحب کے ساتھ کوئٹہ سے آئے ہوئے ایک شیعہ عالم کو جگہ الاٹ کروا دی۔ اگلی صبح میں منتظر تھا کہ معزز شیعہ عالم دین صاحب کے ساتھ کیا گزری، صبح ناشتے میں وہ مِل گئے اور مجھے دیکھتے ہی شدید غصے کے عالم میں دور سے فارسی میں کہنے لگے ’’نیند ما حرام است۔ کمرے میں یہ حالت تھی کہ جیسے رکشہ چل رہا ہو۔‘‘ بہرحال اِس کے بعدقہر درویش برجان درویش کے مصداق مجھے ہی ان کے ساتھ رہنا تھا، میں نے کمرے کی بالکونی میں سوکر اپنا گزارہ کر لیا۔
اِس سفر کے بعد1998ء میں دہلی میں مشہور کتاب میلے میں شرکت کے لیے سمیع اللہ بٹ صاحب اور عثمان شمسی صاحب کے ہمراہ جب ہم اٹاری ریلوے اسٹیشن سے دہلی کے لیے انڈین ٹرین میں سوار ہوئے، تو ہماری بوگی میں انڈین پولیس کے چھے سات سکھ سپاہی بھی سوار تھے، یہ سفر چونکہ رات بھر کا تھا، اِس لیے میں تو سمیع اللہ بٹ صاحب سے کچھ فاصلے پر ایک برتھ پر جاکر سوگیا۔ بٹ صاحب جس برتھ پر سوئے تھے، اس کے ساتھ ہی انڈین پولیس کے سکھ سپاہی تھے۔ صبح اٹھتے ہی ایک سکھ مجھے دیکھ کر کہنے لگا ’’بھائی جی، ہمارا میندر سنگھ بھی بہت خراٹے لیتا ہے، لیکن آپ کے ساتھی کے خراٹوں نے تو رات بھر سونے نہیں دیا اور انھوں نے خراٹے لینے میں اوّل پوزیشن حاصل کرلی ہے۔‘‘
سمیع اللہ بٹ صاحب کتابوں کے رسیا تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سونے سے پہلے مطالعہ نہ فرمائیں۔ قرآن فہمی کا خصوصی ذوق تھا، اور مولانا اصلاحی صاحب کی شاگردی۔ وہ ان سے براہِ راست فیض حاصل کرنے پرہمیشہ فخر کا اظہار کرتے۔ ایک دفعہ میری درخواست پر عمرے کے سفر کے دوران جدہ کے احباب کے ایک اجتماع میں درسِ قرآن دیا، جس میں متعدد اصحابِ علم و فضل بھی شریک تھے۔ درس سننے کے بعد وہ محترم سمیع اللہ بٹ صاحب کی قرآن فہمی سے بے پناہ متاثر ہوئے اور باربار یہ کہتے رہے کہ ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ ایک نوجوان اتنے عالمانہ انداز میں درسِ قرآن دے سکتا ہے۔ مولانا اصلاحی کے بعد مسلسل خالد مسعود صاحب کے ساتھ رابطے میں رہے، اور اُن کی درس و تدریس کی محافل میں کثرت سے نہ صرف خود شرکت کرتے بلکہ احباب کو بھی لے کر جاتے۔
اپنی صحت کی وجہ سے ثریا عظیم اسپتال اور جماعت کی تنظیمی ذمہ داری سے معذرت کردی، لیکن محترم لیاقت بلوچ صاحب جن کا وہ بے پناہ احترام کرتے تھے، کے اصرار پر صوبہ پنجاب جماعت میں تعلیم و تربیت اور شہدائے اسلام فائونڈیشن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری قبول فرمالی، اور دم واپسیں تک اِس ذمہ داری پر فائز رہے۔ اِسی دوران ادارہ معارف اسلامی منصورہ میں مطالعے کے لیے برابر جاتے رہے۔ سیدمودودی میموریل ٹرسٹ کے لیے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ساتھ بطور سیکرٹری بڑی شان دار خدمات انجام دیں۔
ہمیشہ عزم کے ساتھ مشکل حالات کا سامنا کرتے تھے۔ نوازشریف کے دورِ حکومت میں بھارتی وزیراعظم واجپائی کی آمد پر فروری 1999ء میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس نے انھیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، اور اسی حالت میں بغیر کسی وقفے کے پولیس کی گاڑی میں لاہور سے میانوالی جیل منتقل کردیا۔ راستے میں نہ کھانے کو کچھ دیا اور نہ فطری حاجات کے لیے وقفہ کیا۔ لیکن ان بدترین حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔ سابق امیر جماعت سید منورحسن مرحوم کے ہمراہ میانوالی جیل میں رہے۔ محترم سید منور حسن صاحب بھی رہائی کے بعد اِن کے خراٹوں کا لطیف انداز میں ذکر کرتے اور اِن کی ثابت قدمی پر داد دیتے۔ محترم نعیم صدیقی اور بزرگ پروفیسر عثمان غنی کی وفات پر اِن کی یادیں تازہ کرنے والے مضمون لکھے، جو تمام حلقوں میں سراہے گئے۔ اِس سے قبل مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کے تعلقات اور اُس میں اپنے کردار پر ایک مضمون لکھا، جو یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے درخواست کی کہ ہمارے محترم بزرگ اور رہنما جناب رانا اللہ داد خان مرحوم پر بھی ایک تحریر لکھیں، جس کا انھوں نے بہت مثبت جواب دیا، لیکن صحت نے اجازت نہ دی۔
سمیع اللہ بٹ صاحب جن سے تقریباً54 سال کا تعلق تھا، اُن کا اِس دنیائے فانی سے اٹھ جانا… علم و عرفان کے پیکر، قرآن کے طالب علم، تحریک اسلامی کے مخلص، مدّبر اور متحرک رہنما کا اٹھ جانا ہے۔ مجھے ہمیشہ اُن کی کمی محسوس ہوتی رہے گی۔ جن دنوں ان کا انتقال ہوا، میں ملک سے باہر تھا، اس لیے نماز ِ جنازہ میں شرکت کی سعادت سے محروم رہا، جس کا بہت دکھ ہے۔ اللہ کریم سے اِن کی مغفرت، درجات کی بلندی اور جنت الفردوس میں جگہ کے لیے دعاگو ہوں۔