جب ہم نہیں ہوں گے۔۔۔۔

بچھڑے ہوئے پیاروں سے ملانے والی
ڈیجیٹل آفٹر لائف ٹیکنالوجی کی کھٹی میٹھی کہانی

کون ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ جب وہ دُنیا سے جائے تو لوگ اُسے اچھی طرح اور دیر تک یاد رکھیں! اس بات کے لیے کہ لوگ تادیر یاد رکھیں، انسان کئی پہلوؤں سے کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی تصویریں اور وڈیوز چھوڑ جاتا ہے اور آواز بھی۔ فی زمانہ کسی بھی انسان کو اپنے درمیان رکھنا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ لوگ اپنی وڈیوز بھی چھوڑ جاتے ہیں اور آواز کی ریکارڈنگز بھی۔ تصویریں بھی ایک زمانے سے عام ہیں۔
اب ایک نیا تصور ابھرا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کچھ ایسا کیا جائے کہ جو ہمارے درمیان نہیں رہا وہ ہمارے درمیان رہے، ہم سے ملے، ہم سے بات کرے، ہماری بات سُنے اور جواب دے، ہم سے مشورے لے اور ہمیں مشورے دے۔ جی ہاں، اب کسی بھی انسان کو ورچوئل سیلف بنانا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ ورچوئل سیلف یعنی کسی بھی انسان کا ایسا وجود جو دکھائی دیتا ہے مگر ہوتا نہیں ہے۔ جس طور آپ ٹی وی یا سیل فون کی اسکرین پر کسی کو دیکھتے ہیں بالکل اُسی طرح اب دنیا سے گزرے ہوئے لوگوں کو بھی دیکھنا ممکن ہوگیا ہے۔ یہ لوگ مرنے کے بعد سائبر اسپیس میں یعنی ورچوئل رئیلٹی میں رہتے ہیں۔ ڈراموں اور فلموں کے فنکاروں میں اور بعد از مرگ ورچوئل سیلف کی شکل میں زندہ کیے جانے والوں میں صرف اِتنا فرق ہے کہ فنکار باتیں نہیں کرتے جبکہ یہ ورچوئل سیلف اُسی اصلی آواز میں بات کرتے ہیں جو مرے ہوئے فرد یا افراد میں ہوتی تھی۔

دنیا بھر میں آفٹرلائف ٹیکنالوجی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ لوگ مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے اُن لوگوں کے ورچوئل سیلف بنواتے ہیں جو اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ ورچوئل سیلف مختلف گیجیٹس کی مدد سے ہر وقت ساتھ رہتے ہیں۔ متعدد کمپنیاں ڈیجیٹل فٹ پرنٹس کی مدد سے مرے ہوؤں کا ورچوئل وجود اِس طور تیار کرتی ہیں کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔

ذرا اُس وقت کا تصور کیجیے کہ کوئی شخص سو رہا ہو اور اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگے۔ سیل فون کی اسکرین چیک کرنے پر معلوم ہو کہ اُس کے والد کا ڈیجیٹل لافانی بوٹ تیار ہے۔ ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹ کی مدد سے اُن تمام پیاروں سے ورچوئل ملاقات اور بات چیت ممکن ہے جو اِس دنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کبھی تو ایسا ہوگا اور انسان کی ایک بڑی خواہش پوری ہوگی۔ ٹھیریے جناب! ایسا ہو نہیں سکتا بلکہ ہورہا ہے۔ یہ سب کچھ کبھی سائنس فکشن موویز میں ہوا کرتا ہے، اب حقیقت کی دنیا کا حصہ بنتا جارہا ہے۔

اگر کسی کو اپنے مرے ہوئے والدین، بھائی بہن یا کسی اور رشتے دار کے ورچوئل سیلف سے ملاقات کا موقع ملے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس کے جذبات کا عالم کیا ہوگا۔ وہ تو یوں محسوس کرے گا جیسے اِس دنیا ہی میں نہیں ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی مرے ہوئے رشتے دار سے گفتگو کے دوران چند ایک ایسی باتوں کا پتا چلے جن کے بارے میں اُس نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔

یہ سب کچھ آفٹر لائف کے ذریعے ممکن بنایا جارہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ بہت بعد کا معاملہ ہے۔ یہ مستقبلِ بعید کا قصہ نہیں۔ ہماری آج کی دنیا میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ ڈیجیٹل آفٹر لائف انڈسٹری پوری آب و تاب کے ساتھ ہماری دنیا میں موجود ہے۔ بہت سی کمپنیاں اس وعدے اور دعوے کے ساتھ میدان میں ہیں کہ فراہم کی جانے والی معلومات اور ڈیجیٹل فٹ پرنٹس کی مدد سے وہ کسی بھی انسان کا ایسا ورچوئل وجود تیار کرسکتی ہیں جو انسان کو شدید حیرت سے دوچار کردے۔

آپ نے کبھی ورچوئل چیٹ بوٹس کے بارے میں سوچا تھا؟ نہیں نا؟ اِسی طور مصنوعی ذہانت کے بارے میں آپ کا کبھی یہ تصور نہیں رہا کہ وہ کسی بھی انسان کا ایسا ورچوئل وجود تیار کرسکے گی جس پر اصل کا گمان ہو۔ مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس اور ورچوئل ایویٹار سے ہولو گرامز تک ایسا بہت کچھ ہے جو حقیقت جیسا دکھائی دیتا ہے تاہم حقیقت ہے نہیں، اور ذہن سب کچھ جانتے ہوئے بھی یقین کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی کسی کے بارے میں فراہم کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر اُس کا ایسا ورچوئل سیلف تیار کیا جاتا ہے کہ اُس کے پیاروں کو بھی یقین نہیں آتا کہ ورچوؤسٹی کی بنیاد پر ایسا ڈیجیٹل سیلف تیار کیا جاسکتا ہے۔ ہر انسان زندگی بھر بہت کچھ سوچتا اور کرتا ہے، اُس کی تصویریں لی جاتی ہیں، وڈیوز بنائی جاتی ہیں، آواز ریکارڈ کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اصطلاحاً ڈیجیٹل فٹ پرنٹ کہلاتا ہے۔

یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اخلاقیات اور نفسیاتی اثرات کا معاملہ بھی تو ہے۔ کسی مرے ہوئے انسان کے ورچوئل وجود سے ہم کنار ہونا ہمارے لیے نفسیاتی اثرات بھی پیدا کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اخلاقیات کا بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کرنا، کسی کا ورچوئل وجود تیار کروانا، اُس سے بات کرنا اور اُس کے ساتھ زندگی بسر کرنا اخلاقی اعتبار سے کیسا ہے۔ ایسا کرنا چاہیے یا نہیں؟

آئیے دیکھیں کہ ڈیجیٹل آفر لائف انڈسٹری آخر ہے کیا چیز؟ ایک چیز ہوتی ہے ورچوؤسٹی، اور دوسری چیز ہے مصنوعی ذہانت۔ آپ نے ورچوئل رئیلٹی کا نام تو سُنا ہی ہوگا، ایک بکس ہوتا ہے جس کے ساتھ ہیڈ سیٹ ہوتا ہے تاکہ آپ سُن سکیں۔ بکس میں ایک موبائل فون فِٹ کردیا جاتا ہے۔ اس موبائل پر کوئی بھی وڈیو دیکھتے ہوئے آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی بہت بڑے ہال میں بیٹھے ہیں اور جو مناظر آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں وہ محض گزر نہیں رہے بلکہ آپ کو بھی ساتھ لیے ہوئے ہیں۔ ورچوئل رئیلٹی ٹیکنالوجی کی مدد سے آپ جو کچھ دیکھتے ہیں اُس کا حصہ بن جاتے ہیں، مثلاً آپ اسکرین پر کسی جنگل کے مناظر دیکھ رہے ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ جنگل میں موجود ہیں اور سب کچھ آپ کے ساتھ ہورہا ہے۔

اب آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بھی مرے ہوئے انسان کا ورچوئل سیلف کس طور تیار کیا جاسکتا ہے۔ ورچوئل رئیلٹی اور مصنوعی ذہانت سے جُڑی ہوئی ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لاتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہت سے ادارے مرے ہوئے انسانوں کا ڈیجیٹل یا ورچوئل وجود تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ دعویٰ تو کوئی بھی نہیں کرتا کہ سب کچھ بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے کیونکہ یہ نیا شعبہ ہے جس میں ٹیکنالوجیز کو بروئے لانے کے حوالے سے خامیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں، تاہم اِتنا ضرور ہے کہ اب تک کی پیش رفت بھی انسان کو حیرت زدہ کردینے کے لیے کافی ہے۔ جو ادارے یہ کام کررہے ہیں وہ کسی بھی انسان کے بارے میں بنیادی باتیں معلوم کرتے ہیں۔ تصویروں اور وڈیوز کا جائزہ لیتے ہیں، تجزیہ کرتے ہیں، اُن کی ای میلز کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے ہیں، سوشل میڈیا پوسٹوں کی جڑوں میں اترتے ہیں، ٹیکسٹ میسیجز کے ڈھیر کو کھنگالتے ہیں اور وائس ریکارڈز کے تجزیے کی مدد سے متعلقہ فرد یا افراد کا ایسا حقیقت نما ہیولا تیار کرتے ہیں جو زندہ انسانوں سے رابطوں کے لیے خوب استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کہنے کو یہ سب کچھ نیا نیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اچھی خاصی پیش رفت ہوچکی ہے اور یہ شعبہ خاصی مالی منفعت کے حصول کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔

آئیے دیکھیں کہ کون سی کمپنی کون سی خدمات فراہم کرنے میں مصروف ہے۔

آفٹر لائف انڈسٹری میں HereAfter نامی کمپنی اپنے صارفین یعنی یوزرز کو زندگی بھر اپنی باتیں، پیغامات ریکارڈ کرنے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔ اس مواد تک متعلقہ افراد کے مرنے پر اُس کے پس ماندگان کی رسائی ہوتی ہے۔

MyWishes نامی کمپنی اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ کسی مرے ہوئے شخص کی طرف سے پیغامات مختلف مواقع پر اُس کے زندہ رشتے داروں تک پہنچائے جائیں۔ اس صورت میں وہ شخص مرنے پر بھی اپنی موجودگی ممکن بنانے میں کامیاب رہتا ہے۔

مرے ہوئے انسانوں کی بہت سی یادوں اور شخصی اوصاف کی بنیاد پر تیار کیے جانے والے روبوٹک بسٹز سے Hanson Robotics اُن کے زندہ رشتے داروں کو ملواتی ہے۔ اِسی طور پراجیکٹ ڈسمبر نامی ادارہ اپنے صارفین کو نام نہاد ”ڈیپ اے آئی“ تک رسائی دیتا ہے تاکہ وہ اپنے مرے ہوئے رشتے داروں سے ٹیکسٹ کی بنیاد پر گفتگو کرسکیں۔

ڈیجیٹل آفٹر لائف انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا کلیدی کردار ہے۔ یہ ٹیکنالوجیز کسی بھی مرے ہوئے انسان کا ایسا ورچوئل وجود تیار کرنے میں معاونت کرتی ہیں جو انتہائی اصلی دکھائی دیتا ہو اور میل جول کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ سب کچھ حقیقت سے اِتنا قریب ہوتا ہے کہ انسان کو یاد ہی نہیں رہتا کہ کب اُس نے معقولیت کی حد پار کرلی۔ یہ سب کچھ کسی بھی صارف کے لیے ایک زبردست تجربے کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم اِس سے جذبات اور نفسی ساخت پر شدید اثرات بھی تو مرتب ہوتے ہیں۔

ڈیجیٹل آفٹر لائف انڈسٹری کی ٹیکنالوجیز مرے ہوئے افراد کے ورچوئل وجود سے جو ملاقاتیں کرواتی ہیں اُن سے رنج و غم میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کسی پیارے کی آواز سُن کر یا اُس کا ورچوئل وجود دیکھ کر دل کو عجیب سی راحت نصیب ہوتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں اُس سے جدا ہونے کے غم کے اثرات بھلانے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کے پیارے الگ ہوجانے کے بعد بھی اُن کے ساتھ رہیں، اُن کی یادیں کبھی دم نہ توڑیں۔

ایسا نہیں ہے کہ جو بچھڑ گئے ہیں اُن کا ورچوئل وجود سبھی کے لیے بہت اچھا ثابت ہوتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ جب وہ اِس دنیا سے رخصت ہوجانے والے اپنے پیاروں کی کوئی چیز دیکھتے ہیں، آواز سُنتے ہیں تو اُن کا رنج بڑھ جاتا ہے، دل کو زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔ کسی بھی یاد کو قبول اور برداشت کرنے کے معاملے میں سب کی سطح الگ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو اپنے کسی بچھڑے ہوئے پیارے کی کوئی چیز دکھائی دے جائے تو راحت کے بجائے تکلیف ملتی ہے۔ بہت سوں میں حساسیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بہت سوں کے لیے اپنے پیاروں کا ورچوئل وجود کسی حد تک ڈراؤنے خواب جیسا ہوجاتا ہے۔

یہ بھی تو دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی بھی انسان کا ورچوئل وجود تیار کرنے سے دوسروں کی پرائیویسی میں کس حد تک مداخلت ہوسکتی ہے اور خود اُس شخص کی اپنی پرائیویسی کس حد تک متاثر ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ بہت سی باتوں کو کسی سے شیئر کرنا پسند نہ کرتا ہو اور ہم کسی نہ کسی طرح تلاش کرکے اُن تمام باتوں کو سرِعام بیان کردیں اور بہت سوں کی زندگی میں الجھنیں پیدا ہوجائیں۔ اگر کسی شخص کو یہ بات پسند نہ رہی ہو کہ اُس کی ذات سے جُڑی ہوئی کچھ باتیں کسی کو معلوم ہوں تو پھر ہم اُن باتوں کو طشت از بام کرنے والے کون ہوتے ہیں!

ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ کسی مرے ہوئے شخص کی ذاتی معلومات کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرلیا جائے۔ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ کسی کو اپنی حساس ترین باتیں اس لیے چُھپاکر رکھنے کا شوق ہو کہ اُن کے منظرِعام پر آنے سے بہت سوں کی زندگی میں انتہائی نوعیت کی خرابیوں کی راہ ہموار ہونے کا اندیشہ ہو۔ کسی کی ذاتی معلومات کو مالیاتی فائدے کے لیے بھی تو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ کسی کے وجود کو اشتہارات یا خدمات کے لیے بھی تو استعمال کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

ڈیجیٹل آفٹر لائف ٹیکنالوجیز کے حوالے سے معقول قوانین اور ضوابط ناگزیر ہیں۔ ایک تیزی سے ابھرتے ہوئے شعبے کے لیے ہمیں قانونی دائرہ کار بھی تو متعین کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کسی بھی انسان کے مرنے پر اُس کے ڈیجیٹل یا ورچوئل وجود پر قانونی حق کس کا ہوگا، ڈیجیٹل میموری اونرشپ کس کی ہوگی۔

یورپی یونین کی جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) کسی بھی انسان کے مرنے کے بعد اُس کی پرائیویسی کے حق کو تسلیم کرتی ہے، تاہم متعلقہ قانون کے نفاذ میں اُسے مشکلات کا سامنا ہے۔

بیشتر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پس ماندگان یا ورثا کی مرضی کے خلاف کسی بھی مرے ہوئے شخص کے ڈیٹا تک رسائی رکھتے ہیں اور ”نو رائٹ آف سروائور شپ“ جیسی دفعات معاملات کو مزید الجھا رہی ہیں۔ ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کم ہی ہیں جو کسی بھی شخص کے مرنے کی صورت میں اُس کے ڈیٹا کو استعمال کرنے کے معاملے میں متعلقہ قانون یا ضوابط کی پاس داری کرتے ہوں۔ یہ معاملہ غیر معمولی احساسِ ذمہ داری کا متضاضی ہے۔

ماہرین نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اُس کے ورچوئل وجود کی تیاری کے لیے تمام متعلقین کی رضامندی کا حصول لازم ہو تاکہ کوئی قانونی اور اخلاقی پیچیدگی پیدا ہی نہ ہو۔ اس حوالے سے سخت تر قوانین کا نفاذ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔

ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ اُس کی پرائیویسی کا احترام کیا جائے۔ جو اِس دنیا سے جاچکے ہیں اُن کا بھی حق ہے کہ اُن کی ہر بات سامنے نہ لائی جائے اور اُن کا ایسا ورچوئل وجود تیار نہ کیا جائے جو اُن کی شخصیت کو بہت سوں کی نظر میں مسخ کردے یا بدمزگی پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔ اس سلسلے میں پالیسی سازوں، اہلِ علم و فن اور پروفیشنلز کے درمیان مکالمہ لازم ہے۔ کسی بھی شخص کو اپنے کسی پیارے کے ورچوئل وجود سے تفاعل بروقت اور عمدگی سے ختم کرنے کا اختیار بھی ملنا چاہیے۔ سروس پرووائڈرز اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تھوڑی سی توجہ سے مستقبل میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں ڈیجیٹل آفٹر لائف ٹیکنالوجیز کو معنی خیز اور احترام سے مزین انداز سے بروئے کار لایا جائے۔

ورچوئل وجود سے تفاعل غیر معمولی احتیاط اور توازن کا متقاضی ہے تاکہ اپنے پیاروں کی حسین یادوں سے راحت بھی ملے اور کوئی اخلاقی یا نفسیاتی پیچیدگی بھی پیدا نہ ہو۔