کشمیر کے ایک چھوٹے گائوں سے سب سے بڑے شہر کراچی کا سفر،ممتاز صحافی عارف الحق عارف کی کتھا

20 ستمبر 1971ء کی ایک شام کو خصوصی طیارہ بھیج کر ذوالفقار علی بھٹو کو نیویارک سے راولپنڈی لایا گیا
پیرپگارا نے اپنے برادر نسبتی مخدوم زادہ حسن محمود کا وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا خواب چکنا چور کردیا
بھٹو نے پہلی پریس کانفرنس میں مخالف صحافیوں اور سیاسی رہنمائوں کو ’’فکس اپ‘‘ کرنے کا اعلان کردیا

فرئیڈے اسپیشل:آپ روزنامہ جنگ میں مالکان کے بہت قریب رہے، اس کا کیاراز ہے؟

عارف الحق عارف: اس راز کا ہمیں علم نہیں ہے، یہ تو محترم میر خلیل الرحمٰن ہی جانتے تھے۔ہم تو بڑی محبت، خلوص اور لگن کے ساتھ کام کررہے تھے اور کبھی بھی اُن کے قریب ہونے کی کوشش کی اور نہ ہی ہم جیسے دیہاتی ماحول سے آنے والے کو اس کے طریقے آتے تھے۔ دوسرے، میر صاحب بھی ایسے شخص نہیں تھے جو کسی کی ایسی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔وہ میرٹ پر پختہ یقین رکھنے والے تھے۔انہوں نے جنگ کے آغاز ہی سے جن لوگوں کو اخبار میں رکھا، وہ سارے تجربہ کار صحافی تھے۔انہوں نے ہمیشہ اپنی ٹیم میں میرٹ کا خیال رکھا، وہ ملازمت دینے سے پہلے امیدوار کا کڑا امتحان لیتے تھے اور مطمئن ہو کر ہی ان کو اپنی ٹیم کا حصہ بناتے تھے۔اسی لیے ہم نے اس ٹیم کو جنگ کی کہکشاں قرار دیا ہے۔وہ ہر شعبے کے کارکنوں کے کام پر گہری نظر رکھتے تھے اور ہر ماہ اپنے عملے کے ساتھ ایک بڑی میٹنگ رکھتے، ہر شعبے کی کارکردگی کا جائزہ لیتے، اور ہر شعبے کے کسی نہ کسی شخص کی کوتاہی اور غلطی کی اپنے نوٹس سے نشان دہی کرتے، جس سے ان کا پورا عملہ یہ سمجھنے پر مجبور تھا کہ وہ اس کے کام کی نگرانی کرتے ہیں۔یہ ان کا طریقہ کار تھا، اس سے وہ ہر شخص کی صلاحیت، کارکردگی اور اخبار سے تعلق معلوم کرلیتے تھے۔

فرئیڈے اسپیشل:ایک صحافی رپورٹر کی حیثیت سے صفِ اوّل کے سیاست دانوں،بیوروکریٹس ودیگر سے تو خصوصی اور ذاتی تعلق رکھتے تھے؟

عارف الحق عارف: جیسا کہ آپ جانتے ہیں جنگ کے ادارتی عملے میں شامل ہونے کے ابتدائی چند سال ہم کو نیوز روم میں ڈیسک پر گزارنے پڑے، کبھی دن اور سٹی کی شفٹ میں اور کبھی رات کی شفٹ میں۔ڈیسک پر رہتے ہوئے سیاست دانوں، بیورو کریسی اور دوسرے شعبوں کے لوگوں کے ساتھ رابطہ نہیں تھا تو تعلقات کا کیا سوال! لیکن جوں ہی 1972 ء میں ہمارا تبادلہ رپورٹنگ میں ہوا اور ہماری بیٹ (فرائض) میں وفاقی حکومت، وزیراعظم،صدر،وفاقی کابینہ،غیر ملکی سربراہانِ ریاست اور حکومت،اور دیگر اہم شخصیات،صوبائی حکومت،کابینہ،سندھ اسمبلی، پیپلزپارٹی کے سوا ساری سیاسی، مذہبی جماعتوں اور ان کی سرگرمیوں، ماتحت اور اعلیٰ عدالتوں، لیبر کورٹس،خصوصی ٹریبونل شامل ہوئے تو ان سے روابط بھی شروع ہوگئے۔خبر کے حصول کیلیے ان سے روابط ضروری تھے۔ ان میں سے بعض سے قریبی تعلقات اور دوستیاں قائم ہوئیں۔ایک رپورٹر کیلیے اس شخصی سطح پر تعلقات قائم کرنا اور انہیں برقرار رکھنا ازحد ضروری ہے۔ ان رابطوں اس سے ہمیں بڑا فائدہ ہوا۔ چوں کہ ہم ملک کے بڑے میڈیا ہاؤس سے وابستہ تھے اس لیے ہر ایک ہم ہی سے تعلق اور رابط رکھنے کو ترجیح دیتا تھا، اور ہم نے ان کی توقعات کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔

فرئیڈے اسپیشل: آپ کا سندھ کی سیاست سے گہرا اور عمیق تعلق رہا ہے۔ آپ سندھ اور کراچی کی جوڑتوڑ کی سیاست کے نہ صرف چشم دید گواہ رہے ہیں بلکہ کئی اہم فیصلوں میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔اس حوالے سے آپ کی یادداشت میں کیا ہے؟

عارف الحق عارف:جب ہم نے صحافت میں قدم رکھا تو شروع کے چند سال کے دوران سندھ الگ سے صوبہ نہیں تھا بلکہ وہ مغربی پاکستان کا حصہ تھا، مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم تھا اُس وقت ایوب خان کی حکومت تھی جو اگرچہ سول حکومت تھی لیکن عملی طور پر مارشل لا حکومت ہی کا تسلسل تھی۔اسی لیے ایوب خان کے دور کو 11 سالہ فوجی دور کہا جاتا ہے۔لیکن 1970ء میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ ختم کرکے مغربی پاکستان میں چار صوبے پنجاب،سرحد،سندھ اور بلوچستان قائم کر دیے تھے اور 1970 ء کے عام انتخابات میں سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ جب ہم نے رپورٹنگ شروع کی تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔صوبائی حکومت اور کابینہ، اور سندھ اسمبلی کی کوریج ہماری بیٹ میں داخل تھی، اس لیے سندھ کے گورنر،وزیر اعلیٰ،وزرا اور اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ہر روز کا ملنا جلنا شروع ہوا اور ان میں سے بعض کے ساتھ قریبی تعلقات بھی قائم ہوئے۔لیکن حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کا نہ ہمارا کام تھا اور نہ ہی ہم نے کوئی شعوری کوشش کی۔یہ ضرور ہے کہ وزرا اور اپوزیشن سے ملاقاتوں میں آزادانہ تبادلہ خیالات ہوتا تھا اور ہم مختلف زیر بحث امور پر اپنی رائے بھی دیتے تھے۔

فرئیڈے اسپیشل: اُس دور کا کوئی خاص واقعہ جو آپ کو یاد رہ گیا ہو اور جس کے اثرات سندھ کی یا پیپلز پارٹی کی سیاست پرمثبت یا منفی پڑے ہوں؟

عارف الحق عارف:پیپلزپارٹی نے اپنے قیام کے تین سال بعد مغربی پاکستان اور خاص طور پر سندھ میں مثالی کامیابی حاصل کی تھی، اس لیے وہ اقتدار کے نشے میں ہر وہ کام کرلینا چاہتی تھی جو اس کے منشور میں تھا، یا اس سے بھی بڑھ کر کچھ ایسا کرنا چاہتی تھی کہ سندھی عوام کی ہمدردیاں حاصل ہوسکیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اقتدار کے نشے میں مدہوش تھی۔ اس حالت میں اُس سے ایک ایسا فیصلہ ہوگیا جس سے اُس کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔وہ فیصلہ سندھی زبان کو سندھ میں لازمی قرار دینے کا بل اسمبلی میں پیش کرنے کا تھا۔ اُس وقت گورنر رسول بخش تالپور اور وزیراعلیٰ وزیراعظم کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو تھے۔اس بل کا پیش ہونا تھا کہ اپوزیشن نے سابق کمشنر کراچی جی اے مدنی کی قیادت میں شدید احتجاج کیا، اسمبلی بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں اور واک آؤٹ کرگئی۔ اس بل کی خبر ایوان سے نکل کر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے،جلوس نکلنا شروع ہوئے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے جلاؤ،گھیراؤ شروع ہوگیا۔ہم اسمبلی کی پریس گیلری سے باہر چھت پر آئے تو شہر کے مختلف علاقوں سے دھویں کے سیاہ بادل آسمان کی طرف بلند ہوتے نظر آئے۔اُس دن اردو سے محبت کرنے والے ہر فرد نے اس احتجاج میں حصہ لیا۔جلتی پر تیل کاکام گورنر سندھ رسول بخش تالپور کے اس بیان نے کیا کہ یہ احتجاج اور ہڑتال اتوار کی چھٹی کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہے،ورنہ کبھی کامیاب نہ ہوتی۔ لوگوں کے دل پہلے ہی زخمی تھے،اس کا شدید ردعمل ہوا اور اس سے اردو تحریک کا آغاز ہوا۔ دنیا بھر میں اردو کا سب سے بڑا اخبار جنگ کیسے پیچھے رہتا؟ ہم نے اسمبلی کی ساری کارروائی کی رپورٹ لکھی اور ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ کی جلی سرخی اور سیاہ حاشیے کے ساتھ اخبار شائع ہوا جو لاکھوں کی تعداد میں دن بھر چھپتا اور ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوتا رہا۔

فرئیڈے اسپیشل:آپ نے کہا کہ آپ کی بیٹ (فرائض) میں اعلیٰ عدالتیں بھی تھیں۔ پیپلز پارٹی کا پہلا دور تھا۔ کہا جاتا ہےبھٹو کا وہ دور اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کے خلاف معاندانہ کارروائیوں، جبر و تشدد اور قتل و غارت گری کا ظالمانہ دور تھا، اخبارات پر سنسر تھا، عوامی حقوق اور آزادیوں کو ہنگامی حالات کے نام پر سلب کیا جا چکا تھا۔ اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟ کوئی ایسا واقعہ جو آپ بیان کرنا چاہیں؟

عارف الحق عارف: آپ کے سوال میں کئی سوالات پوشیدہ ہیں، سب کے جوابات دینا چاہیں تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔ آپ نے جو کچھ بھٹو دور کے بارے میں بیان کیا ہے وہ بالکل ویسا ہی تھا۔ اس دور کا آغاز ہی مخالفین سے انتقام کے اعلان سے ہوا تھا۔ ایک خصوصی جہاز بھیج کر بھٹو کو نیویارک سے 20 دسمبر 1971ء کی شام کو راولپنڈی لایا گیا تھا۔ انہوں نے آتے ہی پنجاب ہاؤس میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اس میں ملک کے مشہور ایڈیٹر اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین زیڈ اے سلہری کو صحافت میں کالی بھیڑوں میں شامل کرتے ہوئے کہا ’’سلہری از آؤٹ‘‘۔ یہ انتقامی کارروائی کا پہلا حکم تھا۔ پھر رات کو پی ٹی وی پر قوم سے طویل خطاب کیا جو رات ڈیڑھ دو بجے تک جاری رہا۔ ہم نے بھی یہ خطاب سنا تھا اور پوری قوم نے جاگ کر نئے پاکستان کے اس لیڈر کی تقریر سنی تھی۔ اس میں اپنے سیاسی اور کاروباری مخالفین کو فکس اپ کرنے کا اعلان کیا گیا، جن میں جہازراں سہگل، الطاف گوہر اور نقی نواب کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تو رکا ہی نہیں۔ چودھری ظہور الٰہی، عبدالحمید جتوئی، جنرل شیر محمد مری، جسارت کے ایڈیٹر محمد صلاح الدین، اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر الطاف حسن قریشی، ہفت روزہ زندگی کے ایڈیٹر مجیب الرحمٰن شامی، پنجاب پنج کے ایڈیٹر حسین قریشی،میاں طفیل محمد اور ایسے ہی دوسرے بے شمار اہم لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ مخالف اخبارات اور جرائد کے ڈیکلریشن منسوخ کیے گئے اور خلاف لکھنے والے صحافیوں کو بھی پابندِ سلاسل کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے خلاف حبسِ بے جا کی درخواستوں کی اعلیٰ عدالتوں میں بھرمار ہوگئی۔ ہم عدالتی کارروائیوں کی خبر نگاری پر متعین تھے، اس لیے صبح نو بجے ہائی کورٹ پہنچ جاتے تھے، پھر اور بِیٹوں کی کوریج میں سارا دن گزر جاتا تھا اور ان سب کو لکھنے اور نیوز ایڈیٹر کو پیش کرنے میں رات ہوجاتی تھی، اور واپسی رات کو کبھی بارہ بجے اور کبھی کبھی ایک بجے ہوتی تھی۔

فرئیڈے اسپیشل: پیر پگارا کو پہلی بار کہاں اور کب دیکھا؟ ملاقات کیسی رہی؟

عارف الحق عارف:ہم نے پیر پگارا کا نام تو پہلے ہی سن رکھا تھا۔ اخبارات میں کبھی کبھی حر فورس اور ان کے روحانی پیشوا کے بارے میں کوئی بیان یا کوئی تذکرہ نظر سے گزرتا تھا۔ لیکن پہلی دفعہ ان کو دیکھنے کا اتفاق 1968ء میں ہوا جب ہم اپنے ایک روم میٹ دوست پیر سید اختر گیلانی کے ساتھ لسبیلہ چوک پر مخدوم زادہ حسن محمود کے بنگلے پر ان کی طرف سے سیاست دانوں کے اعزاز میں ایک عشائیے میں شریک ہوئے۔ اختر گیلانی بھی پیر اور سید حسن محمود کے قریبی رشتے دار اور ان سے رابطے میں تھے۔ بعد میں ان کی شادی ان کی فرسٹ کزن سے ہوئی۔ اس دعوت کا مقصد پیر پگارا اور سیاست دانوں کی باہمی ملاقات تھا۔ ہماری پیر پگارا سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ہم نے ان کو صرف دور ہی سے دیکھا۔ اس کے بعد اختر گیلانی ہمیں ایک اور بار کنگری ہاؤس بھی لے گئے اور ہم بڑے ڈرائنگ روم سے باہر تہ خانے میں رہے۔ وہیں خاطر مدارات کے لیے آم پیش کیے گئے۔

فرئیڈے اسپیشل: ملاقات کب ہوئی؟

عارف الحق عارف:ہم جنگ کے ادارتی عملے میں اپریل 1967ء میں شامل ہوئے۔ تین سال بعد ڈسٹرکٹ ایڈیٹر بنے، اور اس کے دو سال بعد 1972ء میں رپورٹنگ میں تبادلہ ہوا تو مسلم لیگ کی بیٹ ملی۔ پیر پگارا اس کے صدر تھے۔ لیکن دو تین سال تک ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا۔ انہوں نے 1973ء یا 1974ء میں کنگری ہاؤس میں ایک اہم پریس کانفرنس طلب کی۔ ہم پہلی بار رپورٹر کی حیثیت سے اس کی کوریج کے لیے گئے۔ یہ ان سے ہماری پہلی براہِ راست ملاقات تھی۔ وہ دوسرے سیاست دانوں سے خاصے مختلف نظر آئے۔ اس پریس کانفرنس کی ہم نے اچھی کوریج کی۔ خبر پہلے صفحے پر نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ ان کی بارعب شخصیت، ذومعنی اندازِ گفتگو، سوالات کے مختصر جواب اور چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ نے ہم پر بڑا اثر کیا۔ اس کے بعد ہم اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوگئے۔ ایک دن ہم پریس کلب میں دوپہر کا کھانا کھانے گئے تو اچانک ایک بزرگ ہمارے پاس آئے جو شکل صورت سے بڑے افسر لگ رہے تھے۔ انہوں نے اپنا تعارف اویس کے نام سے کرایا اور کہا میں ریٹائرڈ جج ہوں اور پیر پگارا کے انگریزی ہفت روزہ کا ایڈیٹر اور ان کا سیکریٹری ہوں۔ پیر صاحب نے آپ کو یاد کیا ہے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا بس مجھے حکم ملا کہ جنگ کے اس رپورٹر کو بلا لاؤ جس نے پریس کانفرنس کور کی ہے۔ ہم تھوڑے سے گھبرائے کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہوئی ہو۔ ہم جب ان کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے اٹھ کر استقبال کیا اور سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے طلب کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ جنگ میں آپ نے میری پریس کانفرنس کی جو رپورٹنگ کی ہے وہ اچھی لگی ہے، اس لیے آپ سے ملنا چاہتا تھا۔ آپ جب چاہیں کنگری ہاؤس آیا کریں۔ اس طرح پیر پگارا سے دوستی کا آغاز ہوا جو ہم جیسے ایک نئے سیاسی رپورٹر کے لیے بڑی کامیابی تھی۔ پھر یہ دوستی ان کے انتقال تک جاری رہی۔

فرئیڈے اسپیشل: مشہور تو یہ تھا کہ کنگری ہاؤس میں کسی صحافی کو جانے کی اجازت نہیں تھی؟

عارف الحق عارف:یہ بات ٹھیک ہے، ہر وقت کوئی نہیں جا سکتا تھا۔صرف پریس کانفرنس یا سیاسی تقریب میں دعوت ناموں کے ذریعے داخلہ تھا، لیکن ہم نے کچھ عرصے کے بعد پیر صاحب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ آپ سیاسی لیڈر ہیں، صحافیوں کا کنگری ہاؤس میں داخلہ آسان ہونا چاہیے۔ تو آہستہ آہستہ اُن کا رویہ نرم ہوا اور صحافی اُن سے ملنے آنے لگے۔

فرئیڈے اسپیشل: کہا جاتا ہے کہ پیر پگارا روزانہ دو تین گھنٹے اپنے خاص دوستوں سے حالاتِ حاضرہ پر تبادلہ خیالات کرتے تھے؟

عارف الحق عارف:یہ بات صحیح ہے، پیر پگارا کا معمول تھا کہ وہ 11 بجے صبح ڈرائنگ روم میں آجاتے تھے اور ان کے دوست بھی آجاتے تھے۔ پیر صاحب ملکی سیاسی اور امن و امان کے تازہ حالات پوچھتے کہ کیا کیا خبر ہے؟ اور ان کے دوست ایک ایک کرکے ان کو جواب دیتے۔ اس میں حالات پر تبصرہ بھی ہوتا، ہنسی مذاق بھی اور لطیفہ گوئی بھی۔ چائے کافی کے دور چلتے رہتے۔ درمیان میں کوئی اہم ملاقاتی آجاتا تو اس کو بھی بلا لیا جاتا، وہ اپنا مدعا بیان کرکے چلا جاتا، اور پھر بات وہیں سے شروع ہوتی جہاں سلسلہ ٹوٹا تھا۔ یہ گویا ان کی مجلسِ مشاورت تھی۔

فرئیڈے اسپیشل: اس میں کون کون شامل تھا؟

عارف الحق عارف:اس میں ان کے چھوٹے بھائی پیر نادر شاہ راشدی، جنرل (ر) غلام عمر (اسد عمر اور زبیر عمر کے والد)، بوستان علی ہوتی، شفیع بوئی خان، پروفیسر شیخ رشید، جنرل(ر) بشیر خان پہلے سے شامل تھے، اور جب ہماری دوستی ہوئی تو پیر صاحب نے ہمیں بھی اس میں شامل کرلیا جو ہم اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔ حیدرآباد سے نواب یامین اور میرپور خاص سے شیخ سراج بھی جب کراچی میں ہوتے تو اس محفل کا حصہ بنتے۔ شیخ سراج بڑے لطیفہ گو تھے، ان کی موجودگی سے یہ مجلس اور پیر پگارا بہت لطف اندوز ہوتے۔ 1990ء کے عشرے سے ہمارے صحافی دوست زاہد حسین، منیر الدین منیر، الیاس شاکر، مجید عباسی اور آغا خان اسپتال کے سینئر تھراپسٹ ڈاکٹر نصراللہ بھی اس محفل میں آنے لگے۔ کبھی کبھی آنے والوں میں ضیا الدین یونیورسٹی کے ڈاکٹر عاصم حسین، مسلم لیگ کے جاوید سنگجی، ہمارے دوست ڈاکٹر محمد انور بھی شامل تھے۔

فرئیڈے اسپیشل: آپ کی جماعتی نظریاتی وابستگی اس دوستی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنی؟

عارف الحق عارف:آپ کا یہ بڑا اچھا سوال ہے۔ ہم نے روزنامہ جنگ میں بھی کبھی یہ بات نہیں چھپائی کہ ہمارا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے ہے۔ اسی طرح ہم نے پیر پگارا سے اپنی پہلی تفصیلی ملاقات میں ہی واضح طور پر بتادیا تھا کہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے ہے لیکن ہم اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں اس سے بالاتر ہوکر کام کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود انہوں نے ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ یہی معاملہ ان کا پروفیسر غفور کے ساتھ تھا۔ آخر وہ پیر پگارا تھے، ان کو یہ حق تھا کہ وہ خود فیصلہ کریں کون ان کا دوست ہے اور کون نہیں ہے۔

فرئیڈے اسپیشل:کہا جاتا ہے کہ محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنانے والے آپ ہی تھے، اس کی کیا حقیقت ہے؟

عارف الحق عارف:جونیجو کو وزیراعظم بنانے والے ہم نہیں بلکہ پیر پگارا اور جنرل ضیاالحق تھے، جن کا انتخاب قومی اسمبلی نے کیا تھا۔ لیکن یہ درست ہے کہ ان کا نام وزیراعظم کی حیثیت سے پیش کرنے والے ہم تھے۔

فرئیڈے اسپیشل: اس کی کچھ تفصیل تو بتائیں۔

عارف الحق عارف: یہ 1981ء کی بات ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس کا سندھ میں خاص طور پر شدید ردعمل تھا۔ ایم آر ڈی کی تحریک زوروں پر تھی۔ ہر طرف جلاؤ گھیراؤ جاری تھا۔ جنرل ضیا الحق کی حکومت پر بڑا دباؤ تھا۔ شہرِ اقتدار سمیت ملک بھر میں سینہ گزٹ یہ چل رہا تھا کہ حکومت اس احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لیے عبوری حکومت کا چکر چلا سکتی ہے۔ ان افواہوں کی موجودگی میں ایک دن ہم نے کنگری ہاؤس میں پیر پگارا سے ون ٹو ون ملاقات کی اور ان کے سامنے عبوری حکومت سازی کی افواہوں کا ذکر کیا اور پوچھا کہ چوں کہ آپ متحدہ مسلم لیگ کے سربراہ ہیں، آپ کی پارٹی ہی ملک کی خالق اور بڑی پارٹی ہے، اگر ضیاالحق آپ کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دیں تو آپ کس کو وزیراعظم دیکھنا چاہیں گے؟ ہم اُن سے اس وقت پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں کے نام لے کر پوچھتے رہے اور وہ ان کو مسترد کرتے رہے، اور ہر ایک کو مسترد کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی بتاتے رہے۔ جب وہ سارے نام پیش کرچکے تو ہم نے کہا ’’سائیں جو شریف آدمی وزیراعظم بن سکتا ہے آپ اُس کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے پوچھا ’’وہ کون ہے؟‘‘ ہم نے کہا ’’وہ محمد خان جونیجو ہے، جو شریف بھی ہے اور تجربہ کار بھی۔ ایوب خان کے دور میں پہلے بھی وزیر رہ چکا ہے‘‘۔ جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو ہم نے کہا ’’آج ہم جنگ میں یہ خبر دیں گے کہ اگر ضیاالحق نے عبوری حکومت کے لیے ہم (پیر پگارا) سے نام مانگا تو ہم جونیجو کو وزیراعظم کے طور پر ادھار دے دیں گے، کامیاب ہوگیا تو ٹھیک، ورنہ واپس لے لیں گے۔

فرئیڈے اسپیشل: یہ خبر شائع ہوئی؟

عارف الحق عارف:ہاں، پہلے صفحے پر دو کالمی خبر شائع ہوئی۔ اور پھر پیر پگارا اسی بات کو اُس وقت تک کہتے رہے جب تک 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن نہیں ہوگئے۔ اس طرح جونیجو کا نام اقتدار کے ایوانوں اور سیاست دانوں کے ذہنوں میں آگیا۔

فرئیڈے اسپیشل: 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے اثرات کے بارے میں اپنی یادداشت سے آگاہ کریں۔

عارف الحق عارف:اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات پڑے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے ایک اور سوال پر غور کرنا ہوگا کہ ان انتخابات کو جماعتی کے بجائے غیر جماعتی کیوں منعقد کیا گیا؟ اس کی وجہ جنرل ضیا الحق کی یہ سوچ تھی کہ اگر یہ انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوئے تو پیپلز پارٹی بھٹو کی پھانسی کی ہمدردیاں سمیٹ کر بھاری اکثریت سے کامیاب ہو سکتی ہے، اور اگر ان کو غیر جماعتی بنیاد پر کرایا جاتا ہے تو پیپلز پارٹی سمیت سیاسی جماعتیں اسے تسلیم نہیں کریں گی اور اس میں یا تو احتجاجاً شرکت کریں گی یا بائیکاٹ کا فیصلہ کریں گی۔ ان کا ٹارگٹ تو پیپلز پارٹی کا خاتمہ تھا۔ ہوا یہی کہ جب 1984ء میں ریفرنڈم کے بعد مارچ 1985ء میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی مجلسِ عاملہ نے لندن میں ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور اس کے کسی امیدوار نے ان میں حصہ نہیں لیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ بے نظیر بھٹو کے جن انکلز نے کرایا تھا، وہ اندرونِ خانہ ضیا الحق کے لوگ تھے، انہوں نے وہی فیصلہ کرایا جو حکومت چاہتی تھی۔

فرئیڈے اسپیشل: انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی پر بیان کے حوالے سے آپ نے پیر پگارا کو کیا مشورہ دیا؟ اس مشورے کا نتیجہ کیا نکلا؟

عارف الحق عارف:انتخابات غیر جماعتی تھے اس لیے سیاسی جماعتوں نے تو اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہیں کیے تھے لیکن ان سے وابستہ لوگوں نے ان میں حصہ لیا اور کامیاب بھی ہوئے، لیکن ایسے سیاسی لوگوں کی تعداد بہت ہی کم تھی، زیادہ تر نئے چہرے تھے اور دو منتخب ارکان ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ ہمیں علم تھا کہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے لوگوں نے ان میں حصہ لیا تھا، اس لیے ایک دن ہم نے سائیں سے پوچھا کہ پورے ملک میں مسلم لیگ کے کتنے لوگ کامیاب ہوئے ہیں؟ انہوں نے دو تین دن کے بعد بتایا کہ ان کے ہم خیال 82 لوگ ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔ ہم نے انہیں یہ تعداد کسی اور اخبار نویس یا کسی اور کو بتانے سے روک دیا اور کہا اسی میں اب آپ کی کامیابی ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم آپ کی طرف سے یہ بیان شائع کریں گے کہ قومی اسمبلی کے حالیہ الیکشن میں ہمارے ہم خیال یعنی مسلم لیگ کے حامی بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہی آئندہ حکومت بنائیں گے۔

فرئیڈے اسپیشل: اس کا نتیجہ کیا نکلا؟

عارف الحق عارف:اس کا نتیجہ ہماری توقع سے زیادہ اچھا نکلا۔ نومنتخب ارکانِ قومی اسمبلی میں دو افراد ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے،کیوں کہ وہ تو نئے چہرے تھے۔ ہر ایک ایسی پارٹی میں شامل ہونا چاہتا تھاجو حکومت بنائے۔ اس بیان نے ان کو یقین دلادیا کہ پیر پگارا کی مسلم لیگ ہی وہ پارٹی ہے جو حکومت بنائے گی۔ اس لیے مسلم لیگ میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور کنگری ہاؤس میں رونقیں لگ گئیں۔ ایک ہفتے میں مسلم لیگ میں شامل ہونے والوں کی تعداد سو سے متجاوز ہوگئی، اور یہ سلسلہ 22 مارچ تک جاری رہا جب محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ اس طرح ہماری حکمتِ عملی کامیاب رہی۔

فرئیڈے اسپیشل: جونیجو کی وزیراعظم کے طور پر نامزدگی کیسے ہوئی؟ سنا ہے ضیاالحق تو الٰہی بخش سومرو کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔

عارف الحق عارف:آپ کی یہ بات درست ہے۔ اخبارات میں یہ خبریں آرہی تھیں۔ ایک نام بلوچستان سے میر ظفراللہ جمالی کا بھی تھا۔ ہم نے اس کے لیے ایک حکمت عملی بنائی۔ یہ تو طے تھا کہ حکومت پیر پگارا کے تعاون سے مسلم لیگ ہی بنائے گی، جس کی ازسرنو تنظیم سازی کی جائے گی۔ وہ حکمتِ عملی یہ تھی کہ اگر وزیراعظم سندھ کے سوا کسی اور صوبے سے لانا مقصود ہوگا تو جس کو پیر صاحب کی مشاورت سے مسلم لیگ سے ضیاالحق نامزد کریں وہ قابلِ قبول ہوگا، لیکن اگر سندھ سے ہوگا تو جونیجو ہی ہوگا۔ الٰہی بخش سومرو کا تعلق سندھ سے تھا اس لیے پیر پگارا نے جونیجو ہی کو ترجیح دی۔ سومرو کے بارے میں پیر صاحب کے تحفظات تھے کہ اس خاندان کا ماضی میں کانگریس سے تعلق رہ چکا تھا۔

فرئیڈے اسپیشل: آپ نے کہا کہ آپ پیر پگارا کے ساتھ اسلام آباد چلے گئے؟

عارف الحق عارف:جی ہاں۔ ہمیں میر خلیل الرحمٰن نے پیر صاحب کی قربت کی وجہ سے اسلام آباد بھیجا تاکہ حکومت سازی کی خبریں دے سکیں۔

فرئیڈے اسپیشل: اسلام آباد میں کیا ہوا؟

عارف الحق عارف:اسلام آباد کے کنگری ہاؤس میں بھی پیر پگارا کی آمد سے کراچی جیسی رونقیں قائم ہوگئیں اور مسلم لیگ میں شامل ہونے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ ہماری موجودگی میں روزانہ نومنتخب اراکین قومی اسمبلی آتے، وہ پیر پگارا سے ملتے اور مسلم لیگ میں شامل ہوتے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے والد ایئر کموڈور (ر) خاقان عباسی بھی ہمارے سامنے ہی مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ کنگری ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں ہر وقت سیاسی کارکنوں اور اراکین قومی اسمبلی کی بڑی تعداد موجود رہتی۔

فرئیڈے اسپیشل: کوئی اور بات جو قابلِ ذکر ہو؟

عارف الحق عارف:شاید 22 مارچ کا دن تھا جو سیاسی فیصلوں کا دن تھا۔ اس دن کا آغاز ہی بڑی گہماگہمی سے ہوا۔ ہم ایم این اے لاج میں کنور قطب الدین کے کمرے میں تھے۔ جلدی تیار ہوکر کنگری ہاؤس پہنچے تو وہاں بھی بڑا رش تھا۔ ہم پیر سائیں کے ساتھ کنگری ہاؤس کے بڑے کچن کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ پیر سائیں کا خادم آکر بتاتا کہ کون کون باہر بیٹھا ہے اور ملنا چاہتا ہے۔ پیر سائیں جس کو چاہتے اندر بلا لیتے، ایک دو منٹ میں اُس کی بات سنتے اور وہ چلا جاتا۔ خادم نے اطلاع دی کہ مخدوم زادہ حسن محمود ملنا چاہتے ہیں۔ وہ پیر سائیں کے برادر نسبتی تھے اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار۔ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی سے کامیاب ہوئے تھے۔ آج کسی ایک نشست سے مستعفی ہونے کا آخری دن تھا۔ ان کو اند بلا لیا گیا۔ ’’سائیں میرے لیے کیا حکم ہے‘‘۔ مخدوم زادہ نے کہا۔ ’’آپ صوبائی اسمبلی سے استعفیٰ دے دو‘‘۔ پیر صاحب کے اس ایک جملے نے اُن کے وزیراعلیٰ بننے کے خواب کو چکناچور کردیا تھا۔ وہ ’’جی سائیں‘‘ کہہ کر باہر چلے گئے۔

آئندہ شمارے میں

وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے پیرپگارا نے کس کی حمایت کی؟

جماعت اسلامی اور پیرپگارا کے درمیان بلدیاتی اتحاد کیسے قائم ہوا؟

مولانا مودودیؒ سے ملاقات کیسے ہوئی؟

مفتی ولی حسن کے دفتر میں مولانا مودودیؒ کے خلاف فتویٰ لینے والا کون تھا؟

(جاری ہے)