یومِ آزادی کے موقع پر پوری قوم آزادیِ اظہار ڈھونڈ رہی تھی جسے فائر وال دبوچ چکی ہے
مصلحت اندیشی، عافیت طلبی… یہ دو کیفیتیں جس حکمران بھی ہوں گی اُس کے ہاتھوں کوئی انقلابی کام نہیں ہوسکتا۔ راولپنڈی سازش کے ’’فیض‘‘ سے لے کر ٹاپ سٹی کے ’’فیض‘‘ تک، ہمیں تاریخ میں یہی عافیت طلبی ملتی ہے۔ اب اگر کوئی اس میں انقلابی فیصلے تلاش کرنے پر بضد ہے تو اس کی مرضی۔ تاریخ کی گواہی ہمیں ملتی ہے کہ ایوب خان نے بھی اصلاحات کا بیڑہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ ہماری افسر شاہی ہمیشہ حکمرانوں کی نبض شناس رہی ہے، جب ایوب خان نے اصلاحات کا نعرہ لگایا تو اُس وقت کی افسر شاہی اسے انقلابی فیصلہ سمجھنے لگی اور کمیشن اور کمیٹیاں بنائی گئیں۔ لیکن کمیشن اور کمیٹیوں کی رپورٹیں سنہری غلاف میں لپیٹ کر ایوب خان کو پیش تو کی گئیں مگر ان کے دور میں عمل درآمد نہیں ہوا۔ شہباز حکومت بھی پی آئی اے سمیت متعدد سرکاری اداروں کی نج کاری چاہتی ہے، اور متعدد وزارتیں اور ڈویژن بھی تحلیل کیے جارہے ہیں، لیکن حکومت کو مزاحمت مل رہی ہے اور مزاحمت بھی اتحادیوں کی جانب سے مل رہی ہے۔
ہم اس وقت اگست کے مہینے سے گزر رہے ہیں، اور گزشتہ ہفتے ہی قوم نے 78 واں یوم آزادی منایا ہے۔ یہ یومِ آزادی سست رفتار انٹرنیٹ کے ساتھ منایاگیا۔ حکومت کی جانب سے فائر وال لگائی جارہی ہے۔ یومِ آزادی کے موقع پر پوری قوم آزادیِ اظہار ڈھونڈ رہی تھی جسے فائر وال دبوچ چکی ہے۔ آزادیِ اظہار یا دیگر بنیادی حقوق؟ ملازمت کے مواقع؟ انصاف تک رسائی؟ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی؟ سیاست میں اخلاقیات؟ مہنگی بجلی، ملک میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی؟ اور سب سے بڑھ کر مسلسل گرتی ہوئی معیشت اور ہمارا پاسپورٹ کئی سوال چھوڑ رہا ہے۔ پی ٹی اے ملک میں ویب مینجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کررہی ہے تو اس وجہ سے ملکی معیشت کو 950 بلین ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست روی، مانیٹرنگ اور سرویلنس ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے مکمل شفافیت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کاروبار میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے اس مسئلے نے لاکھوں پاکستانی صارفین کو متاثر کیا ہے اور ملک بھر میں شکایات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ حکام نے کہا ہے کہ ایک ناقص زیرِ آب کیبل کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہوئی ہے۔ ملک کی تقریباً نصف آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں 110 ملین انٹرنیٹ صارفین ہیں اور اس کی 40 فیصد تک سست رفتار سے ملک کی 241 ملین آبادی کا تقریباً نصف متاثر ہوا ہے۔ یہ حکومت کی کارگزاری ہے جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سوال اٹھا دیا ہے۔ حکومت یا حکومتوں کی نالائقی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ 2700 ارب روپے مالیت کے ٹیکس مقدمات عدالتوں میں کئی سال سے زیر التوا ہیں۔ اس کی ذمہ دار عدلیہ ہے یا حکومت؟ اس سے بھی بڑھ کر معاملہ یہ ہے کہ سرکاری اخراجات کا سالانہ بجٹ گزشتہ مالی سال میں ہونے والے 36.6فیصد اضافے کے بعد 13682ارب روپے کی انتہائی تشویش ناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس سرمائے کا بڑا حصہ لا حاصل ہے، جبکہ وسائل نہ ہونے کے باعث حکومتِ پاکستان کو آئی ایم ایف سمیت دوسرے بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں سے بھاری قرضے لے کر انھیں پورا کرنا پڑرہا ہے جس سے حالیہ دنوں میں معیشت پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 87 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے جسے چکانے کے لیے حکومت کے پاس نئے قرضے لینے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ یہ صورتِ حال ملک کو دیوالیہ پن کی سطح تک پہنچا چکی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کو قرض پر اب تک 2439 ملین ڈالر سود ادا کردیاگیا، 6.3 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض تین سے پانچ سال میں واپس کرنا ہے۔
سینیٹ کی اقتصادی امور کمیٹی میں رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلا پروگرام 1958ء میں کیا گیا، اب تک آئی ایم ایف سے 21260ملین ایس ڈی آر قرض لیا گیا، اسے واپس کرنے والا قرض 6369 ملین ایس ڈی آر رہ گیا ہے، 6.3 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض تین سے پانچ سال میں واپس کرنا ہے۔ حکام وزارتِ خزانہ نے کہا کہ اب تک آئی ایم ایف کو قرض پر کُل 2439ملین سود ادا کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کُل 28پروگرام کیے گئے ہیں، 24فل ٹائم اور چار ون ٹائم۔ اسٹیٹ بنک حکام نے بتایا کہ 2008ء اور 2010ء کے پروگرام کا مکمل قرض واپس کردیا گیا ہے، ان دونوں پروگراموں پر آئی ایم ایف کو 1.58فیصد سود دیا گیا، 2023ء کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر 5.09فیصد سود ہے۔ 2008ء سے 2023ء کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ 6پروگرام کیے گئے۔ یہ سب کچھ ایک المیے سے کم نہیں ہے۔
ریاست پر اشرافیہ کا قبضہ اور قومی معاملات پر اس کے کنٹرول کا عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی قیمت پر ہوا ہے۔ وہ اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جس نے طویل عرصے سے سیاست پر قبضہ کررکھا ہے اور ملک کی معیشت کو کنٹرول کیا ہے۔ اس طاقت ور اشرافیہ نے اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے اور اپنی مراعات کے تحفظ دینے کو ترجیح دی ہے، جس کے نتیجے میں حکمرانی کے چیلنجز شدت کے ساتھ کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور ملک مستقل عدم استحکام اور عدم تحفظ کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ اس طاقتور اشرافیہ نے اصلاحات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی چاہے زمینی اصلاحات ہوں، اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات یا طرز حکمرانی میں اصلاحات۔ مطلب یہ کہ ہر وہ اصلاح جس سے ان کے سیاسی یا معاشی مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔ اس اشرافیہ نے دولت کی منتقلی اور بغیر کمائے آمدن کے ذرائع حاصل کرنے کے لیے ریاستی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرکاری دفتر تک رسائی کا استعمال سیکھ لیا ہے۔ اس معاملے میں سویلین اور فوجی اشرافیہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی سیاسی قیادت نے کبھی بھی اشرافیہ کو اس بات پر آمادہ نہیں کیا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کا خیال رکھتے ہوئے ہی لوگوں کے مطالبات کا بامعنی جواب دیں۔ عوام کو ہمیشہ سے ہی اہمیت نہیں دی گئی، جس کے نتائج بھیانک نکلے ہیں۔ پاکستان کو ایک معاشی بحران سے دوسرے معاشی بحران کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس ملک میں سویلین، فوجی یا ہائبرڈ حکومتوں نے اپنے وسائل سے باہر نکلنے، داخلی وسائل کو اکٹھا کرنے اور معاشی اصلاحات کے لیے تیار نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بار بار مالیاتی بحران میں پھنس گیا، جس کے نتیجے میں پچھلی کئی دہائیوں میں تقریباً ہر حکومت نے اپنے جانشینوں کے لیے معیشت کو بدتر حالت میں چھوڑا۔ سیاسی حکومتوں نے بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن کے دہرے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملک اور بیرون ملک سے بہت زیادہ قرضے لینے کی ایک جیسی پالیسی اپنائی جس نے آج ملک کو ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بے مثال بوجھ سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان اپنے24ویں آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے جو اس مایوس کن معاشی ریکارڈ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ دوسری جانب طویل لوڈشیڈنگ اور آئے دن بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ان برسوں میں جتنی بھی حکومتیں آئیں، ان میں سے کوئی بھی سستی اور پائیدار سطح پر بجلی کی فراہمی یقینی نہ بناسکی۔ یہ نظام اندر ہی اندرمعیشت کو گھن کی کھارہا ہے۔ اس کے لیے بدعنوان عناصر کا کڑا احتساب ضروری ہے،جس کی بدولت لوٹی گئی دولت قومی خزانے میں جمع ہونے سے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے۔ یہ ہے ہماری بیوروکریسی کی استعداد اور صلاحیت کی کہانی۔ تاریخ میں ہمیں ایک نیرو بھی ملتا ہے۔کیا ہم آج اسی کیفیت میں نہیں رہ رہے؟ ہماری بھی آج یہی کیفیت ہے کہ ملک کی معیشت کو آگ لگی ہوئی ہے، ملک میں سیاسی بے یقینی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔