برطانیہ میں فسادات کا خاتمہ ہوگیا اور اب فساد کرنے اور پھیلانے والوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن جاری ہے۔ تادمِ تحریر حکومتی ذرائع کے مطابق 1100 سے زائد افراد کو ان فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا جاچکا ہے، جبکہ تقریباً 600 افراد کے خلاف چارج فریم کرکے مقدمہ عدالت کے سامنے ہے یا پھر عدالت نے ان کو سزا سنادی ہے۔ پہلے مرحلے میں مظاہروں کی آڑ میں مساجد، ہوٹلوں اور کاروبار پر حملہ کرنے والوں کو سزا سنائی گئی، جبکہ دوسرے مرحلے میں آن لائن یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال کرکے نفرت پھیلانے والوں یا غلط خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے ان کو بھی سزائیں دینے کا عمل جاری ہے۔ ان فسادات کا بنیادی سبب ہی غلط خبریں بنی تھیں کہ جب شہر ساؤتھ پورٹ میں نوعمر بچیوں پر چاقو سے حملہ کرنے والے جنونی کے بارے میں یہ غلط خبر پھیلائی گئی کہ وہ مسلمان ہے۔ اس ضمن میں سب سے بنیادی کردار سابقہ ٹویٹر اور موجودہ ایکس نے ادا کیا کہ اُس کے ذریعے اس قسم کی انتہائی ناقص معلومات کروڑوں لوگوں تک پہنچائی گئیں۔ اس ضمن میں ایکس کا کردار ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔ نہ صرف ایکس بلکہ اس کے مالک ایلون مسک بھی اس نفرت کو پھیلانے میں پیش پیش رہے۔ ایلون مسک نے ٹویٹر پلیٹ فارم خریدنے کے ساتھ ہی برطانیہ کے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے اکاؤنٹ جو کہ سابقہ انتظامیہ کی جانب سے نفرت پھیلانے کے باعث معطل کردیے گئے تھے، دوبارہ بحال کردیے، ان میں سے ایک نسل پرست گروہ کا بانی اور برطانوی عدالت سے سزا یافتہ مجرم Stephen Yaxley-Lennon بھی ہے جس کو Tommy Robinson کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹومی روبنسن نہ صرف غلط خبریں پھیلانے کے لیے ٹویٹر کا بلا دریغ استعمال کرتا رہا بلکہ ایلون مسک اس کی ٹویٹ کو آگے بڑھاتا رہا۔ ایک موقع پر فسادات کی وڈیوز پر ایلون مسک نے لکھا “civil war is inevitable” (خانہ جنگی ناگزیر ہے)۔
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی 5 اگست 2024ء کی وڈیو پوسٹ جو کہ کوبرا میٹنگ کے بعد فیصلوں کے اعلان کے حوالے سے تھی، جس میں کہا گیا کہ ”مسلمانوں و مساجد پر برطانیہ میں حملے ناقابلِ قبول ہیں اور حملہ آور عناصر سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا“، کے جواب میں ایلون مسک نے لکھا کہ
“Shouldn’t you be concerned about attacks on all communities?”
(کیا آپ کو تمام کمیونٹیز پر ہونے والے حملوں کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے؟)
اس کے علاوہ بھی ایلون مسک ان فسادات کے حوالے سے بہت سرگرم رہے اور فسادات پر قابو پانے کے لیے پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کو یک طرفہ کارروائی قرار دیتے رہے۔ ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ساری جھوٹی خبروں اور نفرت آمیز مواد کو پوسٹ کرنے کی مکمل طور پر آزادی رہی۔ یہ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا کہ حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ فسادات کے ساتھ سوشل میڈیا کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو بھی ان ہی الزامات کے تحت چارج کیا جائے گا۔
اب جھوٹی خبروں کو نہ صرف ایکس بلکہ ایلون مسک خود بھی پھیلاتے رہے۔ مسک نے برطانوی وزیراعظم کو خاص ہدف بنایا کیونکہ انہوں نے ان فسادات سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کیا تھا۔ مسک نے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو TwotierKier اور منافق قرار دیا اور اس کا ٹرینڈ ایکس پر بھی جاری ہوگیا، جس کے سبب برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ بیرونِ ملک بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے فساد پھیلانے والوں کو برطانوی قانون کے تحت نہ صرف چارج کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف ان کے ممالک میں، اور وہاں سے برطانیہ لاکر کارروائی بھی کی جائے گی۔
اس پورے تناظر کو سمجھنے کے لیے برطانیہ میں 2016ء میں ہونے والے ریفرنڈم پر جانا ہوگا کہ جہاں سوال یہ تھا کہ آیا یورپی یونین کے ساتھ رہا جائے یا اس سے علیحدگی اختیار کی جائے؟ اس کا پس منظر بھی موجودہ فسادات سے ملتا جلتا ہے کہ جہاں نسل پرست عناصر نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یورپی آکر ہمارے وسائل پر قابض ہورہے ہیں۔ جس کے بعد یورپی یونین سے علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی جس کا انجام ریفرنڈم پر ہوا کہ جہاں محض ایک فیصد کی اکثریت سے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ ہوا۔ اس ریفرنڈم کے حوالے سے برطانوی تھنک ٹینک کیمبرج انائیٹکس نے اس کی مہم کو بیرونی مداخلت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ عوام کی ذہن سازی کرنے کے لیے برطانیہ مخالف قوتوں نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرکے عوام کو گمراہ کن حقائق دیے اور ایسی خبریں دیں جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اس میں بار بار روس کا نام لیا جاتا رہا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم میں بھی ٹومی روبنسن پیش پیش تھے اور اب بھی پیش پیش ہیں۔
یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ ایک عرصے سے معیشت شدید بحران کا شکار ہے اور مہنگائی کا طوفان ہے۔ یورپی یونین سے اخراج کے بعد مبینہ طور پر جو غیر ملکی وسائل اور ملازمتوں پر قابض تھے وہ واپس چلے گئے تو برطانیہ کی اتنی تباہی ہوئی کہ وہ دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں سے بھی باہر نکل گیا، اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ خود برطانیہ میں اچھا کھانے کمانے والا اس ملک سے باہر نکل رہا ہے۔
موجودہ فسادات کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہونا تھا، لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کرکے ان فسادات پر قابو پانے کی وجہ سے اب وہ طبقہ جو فساد پھیلانا چاہتا تھا، سخت مایوس و پریشان ہے۔ برطانوی معیشت کی دو بڑی طاقتیں ہیں: ایک سرمایہ داری اور دوسری تعلیم۔ سرمایہ داری کا حال یہ ہے کہ برطانیہ کا مشہور ہیتھرو ائیرپورٹ بھی اب برطانوی حکومت کی ملکیت میں نہیں رہا، اس کے 37 فیصد شیئر اب سعودی حکومت کے پاس ہیں۔ اسی طرح فٹ بال کلب سے لے کر برطانیہ کی بڑی بڑی عمارتیں اور اسٹورز کی چین بھی مسلمانوں یا مہاجرین کے پاس ہے۔ تعلیم کے شعبے میں برطانیہ صرف فیس کی مد میں تقریباً 86 ارب پاؤنڈ زرمبادلہ کماتا ہے، وہ بھی سب بین الاقوامی طالب علموں کی بدولت۔ اگر برطانیہ میں یہ فسادات زیادہ زور پکڑتے تو ستمبر سے شروع ہونے والے سیشن میں بین الاقوامی طالب علموں کی تعداد متاثر ہونے کا خدشہ تھااس وقت پاکستانی میڈیا میں ایک طوفان ہے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ برطانیہ میں فسادات کا سبب بننے والی خبر پاکستان سے شائع ہوئی تھی۔ اس پر اتنا شور ہوا کہ برطانوی میڈیا بھی ٹویٹر/ ایکس کی شرانگیزی بھول کر پاکستان کے پیچھے پڑ گیا، یا دانستہ طور پر ٹویٹر/ ایکس کی شرانگیزی کو پسِ پشت ڈالنے کے لیے ایک خبر کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جبکہ اس کی حقیقت محض یہ تھی کہ اس جھوٹی خبر کی اشاعت میں یہ ویب سائٹ بھی دانستہ یا نادانستہ استعمال ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ویب سائٹ کی کوئی حیثیت برطانیہ میں نہیں کہ جو فسادات کا باعث بنتی۔ تاہم پاکستان میں بیٹھے مغرب کے غلاموں نے اس موقع پر شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری نبھائی۔ یہ وفاداری اصل میں برطانیہ کی حکومت کی بھی نہیں بلکہ اُن کی ہے جو غزہ کی نسل کُشی میں ملوث ہیں۔ یہ طاقتیں میڈیا کے محاذ پر جب ناکام ہوئیں تو انہوں نے فسادات کو بھڑکانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بھی ناکام ہوا تو خود مسلمانوں کو مسلمانوں پر مظالم کی وجہ بتانے پر اپنی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا پر جھوٹ نہ صرف مغرب بلکہ اب پاکستان کا بھی مسئلہ ہے اور سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے۔
ہم بطور پاکستانی قوم جس خود مذمتی کا شکار ہیں اس کی وجہ سے دنیا میں ساری خرابیوں کی جڑ ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا میں فساد پھیلانے والے بے نقاب ہورہے ہیں۔ نسل کُشی کی تاریخ قدیم ہے لیکن غزہ کی نسل کُشی ہٹلر کی نسل کُشی کو بھی شرما رہی ہے۔ مغرب میں حقیقت خود لوگوں کے سامنے آشکار ہے۔ اب کوشش یہ ہے کہ مسلمانانِ عالم کو خودمذمتی کا ہی شکار کردیا جائے۔ میڈیا کے محاذ پر جھوٹ کا ابلاغ اب ایک بڑا چیلنج ہے، لہٰذا مسلمانانِ عالم کو اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔