عقیدۂ ختم نبوت عدالتِ عظمٰی کاتاریخی فیصلہ

علماء کے اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے متنازع پیرا گراف حذف کر دیے گئے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی کیس کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے بعد وفاق اور پنجاب حکومت کی جانب سے دائر کی گئی درخواستیں منظور کرتے ہوئے اس کے متنازع پیراگراف حذف کردیے ہیں۔ یہ تاریخی فیصلہ ہے جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بات کا اظہار کیا کہ غلطی کسی سے بھی سرزد ہوسکتی ہے، جس کا ازالہ بہرحال ضروری ہے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ملک میں بے چینی کا باعث بنا ہوا تھا، جو پارلیمان میں بھی زیربحث آیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف تک پہنچا۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سابقہ فیصلے کا پیراگراف 7 اور 42حذف کرنے کا حکم دیا۔

اس سارے معاملے کی ابتدا پانچ برس قبل چنیوٹ میں ایک کمیونٹی کے چند اراکین کی جانب سے اُن کے مذہبی لٹریچر کی تقسیم سے ہوئی تھی۔ اس کے تین سال بعد 2022ء میں اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور 7 جنوری کو مبارک ثانی کی گرفتاری عمل میں آئی، جس کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج لاہور اور لاہور ہائی کورٹ نے اپیل مسترد کردی تھی، تاہم 6 فروری 2024ء کو سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست متنازع فیصلے کا باعث بنی، جس کی روشنی میں یکے بعد دیگرے پنجاب اور وفاقی حکومت نے اس کیس پر نظرثانی کی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کیں۔ اس دوران قومی اسمبلی میں یہ معاملہ زیربحث آیا اور قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے توسط سے عدالتِ عظمیٰ تک پہنچا۔ کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے متفقہ طور پر قانونی پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے اس میں علمائے کرام کی آرا شامل کرنے کا فیصلہ کیا، اور جمعرات کے روز فاضل عدالت نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر عدالت میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مفتی شیرمحمد خان، مولانا محمد طیب قریشی، صاحب زادہ ابوالخیر محمد زبیر اور مولانا ڈاکٹر عطاالرحمان نے ذاتی طور پر پیش ہوکر دلائل دیے۔ مفتی منیب الرحمان، حافظ نعیم الرحمان، پروفیسر ساجد میر اور مولانا اعجاز مصطفیٰ کی بوجوہ نمائندگی کرتے ہوئے مفتی سید حبیب الحق شاہ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ اور مفتی عبدالرشید نے دلائل دیے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے ترکیہ سے، اور سید جواد علی نقوی لاہور سے وڈیو لنک پر دلائل دینے کے لیے پیش ہوئے۔ عدالت کے حتمی فیصلے کے مطابق علمائے کرام نے متنازع فیصلے کے متعدد اقتباسات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور انھیں حذف کرنے کے لیے تفصیلی دلائل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بھی ملحوظ رکھنے پر زور دیا۔ اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان نے مؤقف اختیار کیا کہ توہینِ مذہب سے متعلق اس معاملے میں علمائے کرام کے دلائل جاننا لازمی ہے۔ کارروائی کے دوران فاضل چیف جسٹس نے اپنی نماز میں مانگی جانے والی دعائوں کا حوالہ دیا کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے۔ انھوں نے کھلے دل سے اس بات کا اظہار کیا کہ مبارک ثانی کیس کے فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراضات ہیں ان کی آپ نشاندہی کریں، اگر ہمیں کوئی بات سمجھ نہ آئی تو ہم آپ سے سوال کریں گے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو علمائے کرام بجا طور پرتاریخی قرار دے رہے ہیں، جس نے پارلیمان کے 1974ء کے فیصلے کی یاد تازہ کردی ہے، جس میں قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ ملک گیر سطح پر تمام اسلامی مکاتبِ فکر کی جانب سے اس پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بے شک قرآن و حدیث کی روشنی میں کیے جانے والے فیصلے اسلام کے راہنما اصولوں کے ترجمان ہوتے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے سے پورے ملک کی فضا بہتر ہوئی، پورا ملک یکجان ہوکر عقیدۂ تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے ایک پیج پر نظرآیا تھا۔ کچھ یوٹیوبر دانشور اس پر معترض بھی دکھائی دیے، لیکن یہ سارے احباب شاید اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ عقیدۂ ختمِ نبوت اسلام کی اساس ہے، اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد جو لشکر سب سے پہلے روانہ کیا گیا وہ جھوٹے مدعیِ نبوت مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے تھا۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کو دستورِ پاکستان کا تحفظ بھی حاصل ہے، کیونکہ دستور کے آرٹیکل 1 کے مطابق یہ اسلامی مملکت ہوگی، جبکہ آرٹیکل 2 میں درج ہے کہ یہاں کا کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگا۔ اسی طرح دستور کی شق 227(1) کے تحت پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کرے۔ اس عقیدے کے تحفظ کے لیے 1954ء میں مسلمانوں نے اپنا خون بہایا۔29 مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پیش آنے والے واقعے کے نتیجے میں ایک بڑی تحریک چلی۔ پھر یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آیا۔ طویل مباحثے اور سوال و جواب کے بعد 7ستمبر 1974ء کو پارلیمان نے قانون سازی کے ذریعے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ 26 اپریل 1984ء کو اُس وقت کی وفاقی حکومت نے امتناعِ قادیانیت کا آرڈیننس جاری کیا۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس وفاقی شرعی عدالت سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں آیا جہاں پر جسٹس محمد افضل ظلہ، جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ، جسٹس شفیع الرحمان، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور جسٹس تقی عثمانی پر مشتمل بینچ نے ایک فیصلے کے ذریعے یہ آرڈیننس پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق قرار دیا۔ اس کے علاوہ متعدد فیصلے بھی ریکارڈ پر ہیں۔

1988ء میں قادیانیوں نے پہلی مرتبہ کسی عالمی فورم پر یہ مسئلہ اٹھایا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا، جس کے دفاع کے لیے ریاست پاکستان کی جانب سے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری جنیوا تشریف لے گئے جہاں انہوں نے دلائل کی طاقت سے پاکستانی مؤقف بیان کیا، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے حوالے دیے۔ اس قانونی جنگ کے نتیجے میں 30 اگست 1988ء کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے قادیانیوں کی درخواست کو مسترد کردیا۔ عالمی فورم پر اس کاری ضرب کے بعد طویل عرصے تک قادیانی خاموش رہے، یہاں تک کہ 2019ء میں قادیانیوں کی طرف سے لٹریچر کی تقسیم سے ایک تنازع شروع ہوا۔ 2022ء میں مقدمہ درج ہوا، اس مقدمے میں نامزد ملزم مبارک ثانی کی ضمانت کے لیے سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ نے اپیل مسترد کی، تاہم 6فروری 2024ء اور 24 جولائی 2024ء کو سپریم کورٹ میں اس پر متنازع فیصلہ پورے ملک میں بے چینی کا باعث بنا۔

اس کیس کا پس منظر اور اس سے جڑے حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں 2017ء میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے مطابق قادیانیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 91 ہزار 737 تھی، جب کہ چھے برس بعد ہونے والی 2023ء کی مردم شماری میں قادیانیوںکی آبادی ایک لاکھ 62 ہزار 684 رہ گئی ہے۔ مگر اتنی کم تعداد ہونے کے باوجود قادیانی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں اور قومی اداروں پر ان کا دبائو رہتا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں مسائل جنم لیتے ہیں۔ 7 مارچ 2019ء کو مدرسہ الحفظ عائشہ اکیڈمی و مدرسہ کی سالانہ تقریب نصرت کالج فار ویمن کے گرائونڈ میں منعقد ہوئی جس میں قادیانیوں کی ممنوعہ کتاب ’’تفسیرصغیر‘‘ و دیگرکتابیں تقسیم کی جارہی تھیں، جس کے خلاف حسنین معاویہ پولیس کو درخواست دی گئی۔ اس واقعے کے تقریباً تین سال بعد 6 دسمبر 2022ء کو چنیوٹ کے علاقے چناب نگر میں قانون کی تین شقوں کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010/11 ہے۔ اس قانون کے مطابق اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے۔ اس کی سزا عمر قید ہے۔298 سی کا تعلق قادیانیوں سے ہے اور اس کے تحت قادیانی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کرسکتے۔ اس کی سزا تین برس قید ہے۔ اس کے بعد 7 جنوری 2023ء کو پولیس نے مبارک احمد ثانی کو گرفتار کرلیا، ابتدائی ایف آئی آر میں اس کا نام شامل نہیں تھا۔ مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی، جو پہلے16نومبرکو ایڈیشنل سیشن جج اور پھر27 نومبر2023ء کو لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کردی، جس کے خلاف ملزم نے سپریم کورٹ میں درخواست نمبر1054 of 2023۔L دائرکی جس پرسماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ٰ6فروری 2024ء کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کرلی۔ بس یہیں سے فساد شروع ہوا، اس فیصلے پراعتراضات اٹھنا شروع ہوئے، ان میں سے چند پیرا گراف 6۔ 7۔ 8۔ 9۔ 10۔ 16 پرتھے کہ جن میں قرآن پاک کی آیات کاحوالہ دیاگیا اس کافیصلے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، اور خلطِ مبحث کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ فیصلے میں قادیانیوں اور دیگر اقلیتوں میں فرق نہیں کیا گیا۔ عدالت نے ملزم مبارک ثانی سے دفعہ 298C اور 295B بھی ختم کردی، حالانکہ ملزم نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں کسی جگہ ان دفعات کو خارج کرنے کا مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ عدالت کی جانب سے مبارک ثانی کیس میں نظرثانی کی اپیل پر فیصلے کے پیراگراف نمبر 7 میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر میں ملزم پر مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 295B کا تو ذکر کیا گیا، لیکن کسی قانونی شق کا صرف ذکر کرنا ملزم کو اس دفعہ کے تحت جرم کا ذمہ دار ٹھیرانے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ ایف آئی آر کے مندرجات میں توہینِ قرآن کا الزام نہ تو بلاواسطہ اور نہ ہی بالواسطہ لگایا گیا تھا، اور چونکہ مذکورہ ادارہ جہاں ایف آئی آر کے مطابق ممنوعہ کتاب تقسیم کی گئی تھی احمدیوں کا ادارہ تھا، اس لیے اس فعل پر مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 298C کا اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔ درخواست گزار نے فوجداری درخواست نمبر 1344/2023-L کے ذریعے ضمانت پر رہائی کی درخواست دائر کی تھی۔ عدالتِ ہذا کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ملزم قید میں 13 مہینے گزار چکا ہے، جبکہ ممنوعہ کتاب کی تقسیم کا جرم ثابت ہونے پر اسے جس قانون کے تحت سزا سنائی جا سکتی ہے وہ فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ 5 ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ 6 مہینے تک کی سزائے قید دی جا سکتی ہے۔ اب یہ پیراگراف حذف کردیا گیا ہے۔

اس فیصلے پر جب علماء اورمذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا تو اس کے بعد چیف جسٹس نے 26 فروری 2024ء کو دینی اداروں اورعلماء سے معاونت طلب کی جس میں دس سے زائد اداروں اور شخصیات نے معاونت فراہم کی۔ علماء کے اعتراضاف اور احتجاج کے بعد پہلے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی فوجداری پٹیشن نمبرof 2024:2 دائر ہوئی، 29مئی کو مختلف مذہبی اداروں اورشخصیات نے پہلے فیصلے پرتفصیلی اعتراضات جمع کروائے،24 جولائی 2024ء کو نظرثانی پٹیشن کافیصلہ سنایاگیا،مگردینی حلقوں کااضطراب دورنہ ہوسکابلکہ پہلے سے بھی بڑھ گیا۔ سپریم کورٹ نے نظرثانی فیصلہ اردو میں جاری کرتے ہوئے پچاس پیراگراف تحریرکیے، مگر پھر باریک واردات ڈالی گئی۔ نظر ثانی فیصلے کے پیراگراف 42 میں لکھاکہ: ’’آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے، نہ عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے، تاہم اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر انہیں قانون کے تحت مقرر کردہ ’’معقول قیود کے اندر‘‘ گھر کی خلوت کا حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے 22اگست کے فیصلے میں یہ پیراگراف بھی حذف کردیا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے نظرثانی فیصلے میں پیراگراف نمبر 49 سی میں کہا گیا تھا کہ خودکو احمدی کہنے والوں کے مذہبی حقوق کے مسئلے پر ’’مجیب الرحمان بنام حکومت پاکستان‘‘ کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور ظہیرالدین بنام ریاست کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کولازمی نظیروں کی حیثیت حاصل ہے، اور عدالتِ ہذا نے اپنے حکم نامہ 6 فروری 2024ء میں ان نظیروں سے انحراف نہیں کیا۔ اب سپریم کورٹ نے اپنے 22 اگست کے فیصلے میں یہ پیراگراف بھی حذف کردیا ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام نے مؤقف اختیارکیا تھا کہ نظرثانی فیصلے کے پیراگراف 42 کا مذکورہ بالا حصہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298C سے صراحتاً متصادم ہے، کیوں کہ جس طرح سرعام قتل کرنا، عقیدۂ ختم نبوت عدالتِ عظمٰی منشیات بیچنا جرم ہے، اسی طرح یہ چاردیواری کے اندر بھی جرم ہے، قادیانیوں کو جس طرح سرعام عبادت کی اجازت نہیں اسی طرح چاردیواری کے اندر بھی اپنے مذہب کے پرچارکی اجازت نہیں۔ جبکہ پیراگراف 49 سی سپریم کورٹ کے اپنے سابقہ فیصلوں ظہیر الدین بنام ریاست مقدمے میں جسٹس سلیم اختر کے اضافی نوٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے بعنوان ’’مجیب الرحمان‘‘ کے بھی خلاف تھا۔ عدالت نے پہلے فیصلے کے حوالے سے جن حلقوں سے آرا طلب کی تھیں ان کو اہمیت ہی نہیں دی گئی بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ اس کے علاوہ ٹرائل کورٹ میں ابھی شہادتیں پیش کی جارہی تھیں، ملزم کا نہ بیان ریکارڈ ہوا تھا اور نہ اس پر جرح ہوئی تھی اور یہ بحث بھی باقی تھی کہ شہادتوں کی روشنی میں 298C کا جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں، کہ ٹرائل کورٹ سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے ملزم کے حق میں فیصلہ کردیا۔نظرثانی فیصلے کے پیراگراف 6 میں ایک بار پھر یہ بحث چھیڑی گئی کہ جب مجرم نے جرم کیااُس وقت وہ قانون ہی موجودنہیں تھا، حیرت ہے کہ اسے پڑھے اور سمجھے بغیر نظرثانی فیصلے میں دوسری بار اسی غلطی کا اعادہ کردیا گیا کہ 2019ء کے قانون میں قابلِ اعتراض کتاب کے طابع، ناشر یا ریکارڈ رکھنے والے اور مرتب کو مجرم قرار دیا گیا تھا،حالانکہ توہینِ قرآن کا قانون 2011ء سے موجود ہے جبکہ2021ء کے قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے تقسیم کنندہ (Disseminator) کو بھی مجرم قرار دے دیا گیا تھا۔ دوسرے فیصلے کو بھی علمائے کرام نے مستردکرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔ یہ فیصلہ قومی اسمبلی میں بھی زیر بحث آیا جس کے بعد اسپیکر نے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے سپرد کردیا۔ 15 اگست کو اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس نے اپنی سفارت اسپیکرکوپیش کیں، جس کے بعد18 اگست کو سپریم کورٹ میں مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلے میں سے بعض حصوں کو خارج کرنے کی وفاقی اور پنجاب حکومتوںکی درخواستیں دائر ہوئیں جو 22 اگست کو سماعت کے لیے مقرر ہوئیں، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے 22اگست کو دیے گئے فیصلے میں کہاکہ عدالت اپنے 6 فروری اور 24 جولائی 2024ء کے فیصلے میں تصحیح کرتی ہے، عدالت اپنے دونوں فیصلوں سے معترضہ پیراگرافس حذف کرتی ہے، ان حذف شدہ پیراگرافس کو نظیر کے طور پر پیش یا استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹرائل کورٹ ان پیراگرافس سے متاثر ہوئے بغیر مذکورہ مقدمے کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔ اس مختصر حکم نامے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔