پاکستان کا ریاستی، حکومتی، انتظامی، معاشی اور قانونی نظام عوام میں اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے اور لوگوں میں اس نظام کے بارے میں خاصی مایوسی اور اعتمادکی کمی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ جیسے اس نظام کو چلایا جارہا ہے اس سے ملک کے طاقت ور طبقات کے مفادات کو تو فائدہ پہنچتا ہے، مگر کمزور طبقات کو کچھ نہیں مل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان مختلف نوعیت کی خلیج پیدا ہورہی ہے جو نظام کی مضبوطی کے تناظر میں خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو کھیل اسلام آباد میں طاقت کے مراکز کے مابین کھیلا جارہا ہے وہ کسی بھی طور پر عام آدمی کے مفاد میں نہیں ہے۔ لڑائی اور مفادات کا یہ کھیل طاقت کے مراکز کے درمیان ہے، اور اس لڑائی میں جو بھی جیتے یا ہارے، اس کا فائدہ یا نقصان طاقت کے مراکز تک ہی محدود رہے گا۔ پاکستانی عوام کو بڑی توقعات ہوتی ہیں کہ اسلام آباد یا پنڈی میں جاری سیاسی کشمکش یا لڑائی میں ہمارے مفاد کو کوئی فائدہ پہنچ سکے گا، مگر ہر بار ان کو سوائے ناکامی اور محرومی کے کچھ نہیں ملتا۔ لڑائی کے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ ہو، حکومت ہو، حزبِ اختلاف ہو، میڈیا ہو، عدلیہ ہو یا سول سوسائٹی… سب کا اپنا اپنا مفاد ہے اور اسی مفاد کو بنیاد بناکر سبھی اپنا اپنا دائرہ کھینچ رہے ہیں۔ اس کھیل میں عوام کی حیثیت تماشائی سے زیادہ نہیں، جن کا کام محض زندہ باد یا مُردہ باد کے نعرے لگانے تک ہی محدود ہے۔
پاکستان کے جو بڑے بڑے چیلنجز ہیں جن میں سیاست و جمہوری نظام کی تشکیل، مضبوط معیشت، معاشی بدحالی سے نجات، حکمرانی کا بحران، عوامی مشکلات، عدالتی کشمکش، سیاسی تقسیم، سیکورٹی سے جڑے مسائل، اداروں کی بے توقیری کے مناظر یا عام آدمی سے جڑے مسائل جن میں آمدنی اور اخراجات کا عدم توازن اور بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی، طاقت کا استعمال اور علاقائی و عالمی صورتِ حال میں پاکستان کا مقدمہ… یہ سب باتیں ریاست و حکومت کے نظام میں کہیں کھو کر رہ گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی و حکومتی ترجیحات میں یہ مسائل ہیں ہی نہیں، اور یہ جو حکومت اور عوام کی ترجیحات کے درمیان خلیج یا ٹکرائو نظر آتا ہے وہ اس نظام کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔ لیکن ریاست و حکومت کو ان بڑے مسائل کا کوئی ادراک نہیں، اور سبھی اپنے اپنے مفادات کے تابع بن کر سیاست یا ریاست کا نظام چلا رہے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جس انداز سے اس ملک میں ریاست اور حکومت کا نظام بگاڑ کا شکار ہے اس میں عوام کی مزاحمت کدھر ہے؟ کیونکہ جو کچھ عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے اس پر عوام کا کوئی بڑا ردعمل کسی بھی سیاسی تحریک کی صورت میں نظر نہیں آرہا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ لوگ باہر نہیں نکل رہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے ان کی مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں، اور جن لوگوں نے مزاحمت کی انہیں جس ریاستی و حکومتی جبر کا سامنا کرنا پڑا، اور بالخصوص عورتوں کو، وہ واقعی قابلِ مذمت ہے۔ عوامی مزاحمت نظر نہ آنے کی دوسری بڑی وجہ سیاسی جماعتو ں اور اُن کی قیادتوں کے بارے میں عوام کی بداعتمادی ہے۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو تو عوامی مسائل پر کوئی دکھ ہی نہیں، اور ان کے بقول سب اچھا ہے۔ حزبِ اختلاف میں موجود مولانا فضل الرحمٰن یا عوامی نیشنل پارٹی کا مسئلہ عوامی مسائل نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ ان مسائل کی بنیاد پر سڑکوں پر نکلنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے، ماسوائے جماعت اسلامی کے مضبوط احتجاج کے ہمیں کچھ اور نظر نہیں آیا، اور جو وعدے جماعت اسلامی کے دھرنے کے خاتمے کے لیے حکومت نے ان سے کیے تھے ان پر بھی عمل درآمد کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ اسی بنیاد پرجماعت اسلامی نے دوبارہ احتجاج کی کال دی ہے۔ البتہ نوازشریف اور مریم نواز کی پنجاب کی حد تک دو ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کی حکمتِ عملی پر نہ صرف شدید تنقید ہورہی ہے بلکہ اس میں صوبائی سیاست کا کارڈ بھی کھیلا گیا ہے۔ اگرچہ عوام سڑکوں پر نہیں نکل رہے، مگر اس کے باوجود وہ موجودہ نظام اور اس کے چلانے کے طریقِ کار پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ خود حکومت کو بھی احساس ہے کہ اس کے خلاف عوام میں شدید ردعمل اور غصہ پایا جاتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نظام اس انداز سے چل نہیں پارہا جیسے عوام چاہتے ہیں۔ حکومت کی طاقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اسے لگتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اگر اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہے تو ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی حکومت کو ایسے اشارے ملتے ہیں کہ پی ٹی آئی، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے ہوئے ہیں تو حکومت کی پریشانی میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض وفاقی وزرا اس بات پر گلہ بھی کررہے ہیں اور ان کو شک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان پسِ پردہ کوئی نہ کوئی کھیل چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے حالیہ جلسے کو عمران خان نے آخری لمحات میں ملتوی کیا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جلسہ ملتوی کرنے کی درخواست حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر کی ہے، اور عمران خان سے حتمی فیصلہ کروانے کے لیے باقاعدہ وزیراعلیٰ کے پی کے اور اعظم سواتی کو سہولت کاری دی گئی، اور صبح صبح عمران خان اور اعظم سواتی کی ملاقات کا اہتمام کرنا کسی نہ کسی کھیل کا حصہ لگتاہے، اور اس عمل نے حکومتی پریشانی میں اضافہ کیا ہے۔ اب عمران خان نے جلسے کی نئی تاریخ 8 ستمبر دی ہے، دیکھنا ہوگا کہ اس دن بھی جلسہ ہوتا ہے یا کوئی نیا سیاسی یوٹرن دیکھنے کو ملے گا۔ حکومتی حلقوں میں یہ بحث عام ہے کہ ان کی حکومت سے اسٹیبلشمنٹ نالاں ہے اور اس ناراضی کو دور کرنے کے لیے وزیراعظم شہبازشریف آرمی چیف کی چاپلوسی میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں اور اُن کو یہ بھی کہنا پڑا کہ اُن کی حکومت آرمی چیف کی مرہونِ منت ہے۔
دوسری طرف یہ خبریں بھی عام ہیں کہ حکومت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک قانونی ترمیم کی مدد سے مدت ملازمت میں توسیع دینا چاہتی ہے، جس کا اظہار بعض وفاقی وزرا بھی کرچکے ہیں۔ اگرچہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہہ چکے ہیں کہ وہ توسیع نہیں چاہتے لیکن اسلام آباد کے حلقوں میں اُن کی توسیع کے حوالے سے کھچڑی پک رہی ہے۔ اگرچہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود نہیں، لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس کی حمایت میں راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر پہلے ہی خاصا دبائو ہے اور موجودہ ججوں میں بھی اُن کے حوالے سے تحفظات دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت واقعی چیف جسٹس کی توسیع کا کارڈ کھیلتی ہے تو اس سے چیف جسٹس کی پوزیشن بہت متاثر ہوگی اور انہیں عدلیہ کے اندر سے خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ فیصلہ ہوتا ہے تو پھر عمران خان کا یہ مؤقف درست ثابت ہوگا کہ چیف جسٹس متنازع شخصیت ہیں اور پی ٹی آئی کے بارے میں وہ جانب دار ہیں۔ اس سے پہلے عمران خان کہہ چکے ہیں کہ چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر اور اسٹیبلشمنٹ لندن پلان کے تحت ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف ہیں، اور آج جو کچھ بھی عمران خان کے خلاف ہورہا ہے اس سے طاقت کے مراکز کے سیاسی عزائم کھل کر سامنے آجائیں گے جس کا مزید سیاسی فائدہ عمران خان کو حاصل ہوگا اور حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ کو خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر امریکہ سمیت کئی ممالک سوالات اٹھا رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت 26.04 ارب ڈالر کا قرض ادائیگیوں سے مشروط تھا۔ البتہ وزیر خزانہ کے بقول آئی ایم ایف سے معاملات جلد طے ہوجائیں گے اورہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے متبادل راستوں پرکام شروع کردیا ہے اور وزیر خزانہ نے 4 ارب ڈالر قرض کے لیے مشرق وسطیٰ کے بنکوں سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تمام تر کوشش کے باوجود حکومت کو معاشی میدان میں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل رہی، اور یہی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا حکومت پر اعتماد کمزورکرنے کا سبب بن رہی ہے، اور حکومت تمام تر دعووںکے باوجود مشکل حالات کا شکار ہے۔ حکومت آئی پی پی کے معاملات سے باہر نکلنا چاہتی ہے مگر کوشش کے باوجود نکل نہیں پارہی، اور لوگ ہر سطح پر حکومتی ساکھ پر سوالات اٹھارہے ہیں۔وزیر توانائی کے بقول ہم آئی پی پیز سے معاہدہ ختم نہیں کرسکتے البتہ ہماری کوشش ہے کہ ان کو نئی شرائط پر آمادہ کریں۔ان کے بقول یہ تاثر غلط ہے کہ مہنگی بجلی کی وجہ آئی پی پی معاہدے ہیں، بلکہ یہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ حکومت یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے کہ لاکھوں لوگوں کا ملک چھوڑ کر جانااور چھوٹی بڑی صنعتوںکاملک میں بند ہونا ظاہر کرتا ہے کہ معاشی حالات پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے اور چیزیں اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔پورے ملک کے تاجر اور صنعت کار ہڑتالوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ان کے بقول آئی پی پیز اور پاکستان موجودہ معاہدوں کی صورت میں اکٹھے نہیں چل سکتے،اب آئی پی پیز کو چلانا ہے یاملک کو چلانا ہے یہ فیصلہ ریاست اور حکومت کو فوری طور پر کرنا ہوگا،کیونکہ اتنی مہنگی بجلی پر صنعتوں کاچلنا ممکن نہیں۔پہلے ہی فائر وال کے کھیل میں ہم نے ملک کی فری لانس معیشت کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اربوں روپے کے نقصان سمیت نوجوان اپنی کمپنیاں دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ملک کے ریاستی اور حکومتی نظام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ملک اور ملک میں رہنے والے عوام کے مفاد میں نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں کو ان حالات کا ادراک نہیں ہے، اور وہ خود جو کچھ کررہے ہیں اس میں سیاسی دشمنی، سیاسی انتقام اور بدلے کی سیاست کے سوا کچھ بھی نہیںہے۔ آئین، قانون، سیاست اورجمہوری اصولوں کے بجائے ذاتیات پر مبنی سیاست اور اس سے جڑے فیصلے ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس لیے اب مسئلہ محض حکومت کی تبدیلی کا نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی میں ایک بڑی سیاسی جنگ کا ہے، اور اس جنگ کو جیتے بغیر ہم ملک میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں بناسکیں گے، کیونکہ ملک میں مافیاز کا گٹھ جوڑ مضبوط بنیادوں پر تسلط قائم کرچکا ہے، اس لیے اسے توڑے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ طاقت کے مراکز ہوں یا بڑ ی سیاسی جماعتیں… سب نے ہی خود کو محض اقتدار اور طاقت کے کھیل تک محدودکرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں اگر تبدیلی لانی ہے تو یہ عمل کسی روایتی اور فرسودہ طریقے، یا پرانے خیالات اور سوچ سے ممکن نہیں۔ ہمیں اس نظام میں ایک بڑی سرجری درکار ہے، اور اگر یہ سرجر ی آئینی، قانونی یا جمہوری طریقے سے ہوجائے تو اس میں ملک کا مفاد ہے، وگرنہ دوسری صورت میں تبدیلی کے نام پر سوائے انتشار، محاذآرائی، تنائو اور ٹکرائوکی سیاست کے، کچھ نہیں ہوگا۔ اس لیے گیند اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوںکے کورٹ میںہے کہ وہ روایتی اورفرسودہ طور طریقوں سے ملک کا نظام چلانا چاہتے ہیں یا جدیدیت کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیلِ نوکرنا چاہتے ہیں۔اسی طرح عوام کو بھی سمجھنا ہوگاکہ حالات کی تبدیلی ہر سطح پر ایک بڑی مزاحمت کا تقاضا کرتی ہے، اور اس جدوجہد کے بغیر کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔