انسدادِ دہشت گردی… قوم کو متحد اور یکسو کیا جائے

دہشت گردی، تخریب کاری اور فتنہ گری کا ناسور ’’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘‘ کے مثل مسلسل پھیلتا چلا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کے ادارے سالہا سال سے اس عفریت سے قوم کو نجات دلانے کے لیے ایک کے بعد دوسرا آپریشن کررہے ہیں مگر دہشت گردی کے اس فتنے پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا، بلکہ تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کی تعداد، حجم اور شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک واردات کے زخم مندمل نہیں ہوپاتے کہ امن دشمنوں کی کسی نئی کارروائی کی اطلاع آجاتی ہے۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بلوچستان میں دہشت گردوں کی تازہ کارروائیوں نے تو پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ صرف اس ایک رات کے دوران مستونگ، قلات، پسنی، سبی، پنجگور، تربت، گوادر، موسیٰ خیل، لسبیلہ اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں کی گئیں۔ ان تخریبی کارروائیوں کا ہدف بھی زیادہ تر معصوم اور بے گناہ شہریوں کو بنایا گیا ہے۔ موسیٰ خیل میں سب سے بڑی اور المناک ترین دہشت گردانہ کارروائی میں تو ظلم و جور کی تمام حدیں پار کردی گئیں اور بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے اور اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے مزدوری کرنے والے محنت کشوں کو خصوصی ہدف بنا کر سفاکی کی انتہا کردی گئی۔ یہاں دہشت گردوں نے باقاعدہ ناکہ لگاکر بسوں، ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرکے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 21 افراد سمیت 23 افراد کو شہید کردیا، جن میں پاک فوج کے 4 اہلکار بھی شامل تھے۔ مسلح تخریب کاروں نے 17 ٹرکوں، 2 مسافر وینوں اور 4 پک اپ گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کردیا۔ تخریب کاری کے ایک اور واقعے میں اُسی شب ضلع قلات کے علاقے میں دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے پولیس اور لیویز کے اہلکاروں سمیت 11 افراد کو قتل اور 6 کو زخمی کردیا۔ زخمیوں میں اسسٹنٹ کمشنر قلات بھی شامل ہیں۔ مستونگ کے بائی پاس کے قریب پاکستان اور ایران کو ملانے والی ریلوے لائن کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ پسنی میں تھانے پر حملہ کرکے اہلکاروں کو زدوکوب کیا گیا، اور تھانے میں کھڑی تین گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو جلا دیا گیا۔ گوادر کے ساحلی قصبے سلنتر میں بھی دہشت گردوں نے ایک تھانے کو نشانہ بنایا اور تھانے میں توڑ پھوڑ کے بعد سرکاری اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔ لیویز کے تھانہ کھڈ کوچہ پر حملہ کرکے وہاں موجود اہلکاروں کو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا۔ قلات میں مسلح افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ نوشکی ایف سی ہیڈ کوارٹر کے قریب راکٹ فائر ہونے سے زوردار دھماکہ ہوا اور فائرنگ سے ایک بچی سمیت چار راہ گیر زخمی ہوگئے۔ قلات میں ایک قبائلی شخص کے ہوٹل اور گھر پر حملہ کیا گیا جس سے ایک شخص جاں بحق ہوا۔ ضلع بولان میں بھی 6 افراد کی لاشیں ملیں جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ بولان ہی کے علاقے دوزان میں بم دھماکے سے ایک قدیم ریلوے پل کو اڑا دیا گیا جس سے اندرون ملک پنجاب اور سندھ کے لیے ریل سروس معطل ہوگئی۔ اسی دوران شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن رزمک بازار میں بھی بم دھماکہ کیا گیا جس میں 4 افراد جاں بحق اور پندرہ کے قریب زخمی ہوگئے۔

ان واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گردی اور تخریب کاری میں ملوث گروہ کس قدر منظم ہیں، وہ کتنے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں اور ملک بھر میں، خصوصاً صوبہ خیبر اور بلوچستان میں قومی سلامتی اور امن و امان کے قیام کے ذمے دار اداروں کے لیے کتنا بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ دہشت گردوں اور تخریب کاروں سے جو جدید اسلحہ اور دوسرے آلاتِ حرب برآمد ہوئے ہیں ان سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہیں بیرونی دشمنوں کی بھرپور پشت پناہی اور سرپرستی حاصل ہے جو پاکستان کو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دفاعی لحاظ سے عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتے ہیں اور ملک میں ترقیاتی سرگرمیوں خصوصاً چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو ہر صورت سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ اس لیے حکومتِ پاکستان اور خصوصاً ہمارے دفاعی اداروں پر لازم ہے کہ وہ ان بیرونی دشمنوں کو بھی واضح پیغام اور ایسا منہ توڑ جواب دیں کہ وہ پاکستان میں کسی کارروائی سے قبل اس کے ردعمل کے خوف سے سو بار سوچنے پر مجبور ہوں۔ محض یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ دہشت گردوں کو بیرونِ ملک دشمنوں کی سرپرستی حاصل ہے، یا اُن کے ٹھکانے ہمسایہ ممالک میں ہیں۔ ہمارے اداروں کو ان دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے اور عوام کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے بہرحال اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔

یہاں یہ تذکرہ بھی نامناسب نہیں ہوگا کہ کچے کا علاقہ تو سرحد پر واقع ہے، نہ اس کے مکین بیرونِ ملک ٹھکانوں میں پناہ گزین ہیں، مگر یہاں سے آئے روز جس لاقانونیت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور جس شدید نوعیت کی تخریبی سرگرمیاں یہاں سے وقوع پذیر ہوتی ہیں، کیا وہ ہمارے حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کھلا چیلنج نہیں؟ سالہاسال سے یہ علاقہ جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، حال ہی میں یہاں جس طرح ایک درجن سے زائد پولیس اہلکاروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اس کے بعد ہمارے حکام اور حکمران اس علاقے میں فیصلہ کن کارروائی سے گریزاں کیوں ہیں؟ کیا صرف خطرناک مجرموں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے تک بڑھا دینے سے ان کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس پورے علاقے کو عوام کے لیے محفوظ بنانے اور مجرموں اور اُن کے سرپرستوں کو نشانِ عبرت بنانے تک حکام اور حکمران اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔

اندرونی اور بیرونی دہشت گردوں اور دشمنوں سے نمٹنے کے لیے حالات کا تقاضا ہے کہ پوری قوم اور عوام کو اس معاملے پر متحد اور یکسو کیا جائے۔ وزیراعظم نے کچھ ہفتے قبل ’’آپریشن عزم استحکام‘‘پر کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا عندیہ دیا تھا مگر معلوم نہیں کن وجوہ کی بناء پر بعد ازاں اس تجویز کو سرد خانے میں ڈال کر طاقِ نسیاں کی زینت بنادیا گیا۔ اب ایک بار پھر حالات شدت سے اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو حقائق سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا جائے، سب کو اعتماد میں لے کر مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے جس کی روشنی میں بھرپور کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے (حامد ریاض ڈوگر)