تعلیم کا تہذیبی نظریہ

کائنات میں انسان کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا جو نظام اللہ تبارک وتعالیٰ نے قائم کیا ہے اس میں علم کے حصول اور سمع و بصرکے ذریعے انفس و آفاق کی دونوں دنیائوں سے الہامی ہدایت کے ذریعے اس علم اور ان صلاحیتوں کا صحیح صحیح استعمال شامل ہے۔ انبیائے کرام انسانیت کو اسی نمونے کی تعلیم دینے کی خدمت انجام دیتے رہے، جس کا کامل ترین اسوہ خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اور فرمایا کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان اور ادارے وجود میں آتے ہیں جو زندگی کے پورے نظام کی اسلامی اقدار اور مقاصد کے مطابق صورت گری کرتے ہیں۔ اس لیے امتِ مسلمہ کی ترقی اور زوال اور محکومی کا سارا انحصار تعلیم اور نظامِ تعلیم پر ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تعلیم کا تہذیبی نظریہ‘‘ تحریک ِاسلامی کے ایک سرخیل اور ادبِ اسلامی کے شہسوار، ’’محسنِ انسانیتؐ‘‘جیسی سیرت ساز کتاب کے مصنف محترم جناب نعیم صدیقی صاحب کے تعلیم کے موضوع پر تحریر کردہ قیمتی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان مضامین میں اسلام کے تصورِ علم کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے سے تعلیم کے تعلق کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، تعلیم کے جاہلی تصور پر بھرپور جرح کی گئی ہے، مسلمانوں کی تعلیمی روایت کی صحیح صحیح عکاسی کی گئی ہے اور جدید تعلیمی نظام کی اس سے دوری پر کڑا احتساب کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے اپنے تعلیمی نظام میں جو خامیاں اور کمزوریاں ہیں ان کی نشان دہی کی گئی ہے، اور سب سے بڑھ کر اسلام کے تصورِ علم کو بیان کیا گیا ہے، نیز تعلیم کی اسلامی تشکیلِ جدید کے لیے فکری اور عملی سطح پر جو کچھ کرنا ضروری ہے اس کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

نعیم صدیقی صاحب بہ یک وقت شاعر، افسانہ نگار، نقاد، مضمون نگار، مدیر، صحافی اور مبلغ تھے۔ انہوں نے ادب کی تقریباً ہر صنف میں لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ آپ بیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جن میں’’ محسنِ انسانیتؐ‘‘ کے علاوہ ’’تحریکی شعور‘‘، ’’تحریکِ اسلامی دوسری اجتماعی تحریکوں کے مقابل میں‘‘، ’’اقبال کا شعلہ نوا‘‘، ’’عورت معرضِ کش مکش میں‘‘، ’’معرکۂ دین و سیاست‘‘، ’’تحریکِ اسلامی کا خاکہ‘‘، ’’تحریک کا قیام کیوں‘‘، ’’تحریکِ اسلامی کو کیسے نوجوان درکار ہیں‘‘، ’’کمیونزم یا اسلام‘‘، ’’ہندوستان کے فسادات اور ان کا علاج‘‘، ’’نور کی ندیاں رواں‘‘،’’ پھر ایک کارواں لٹا‘‘، ’’افشاں‘‘ (مجموعہ انتخابِ کلام) اور ’’نغمہ احساس‘‘ شامل ہیں۔ تاہم آپ کی جس کتاب کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ سیرتِ رسولؐ پر آپ کی تصنیف ’’محسنِ انسانیتؐ‘‘ ہے۔

نعیم صدیقی صاحب نے حرکت و عمل سے بھرپور ایک طویل اور انتہائی سادہ اور کفایت شعار زندگی گزاری۔ یقیناً نعیم صدیقی کی جہد و عمل سے بھرپور زندگی تحریکِ اسلامی کے نوجوانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور بدلتے زمانے اور حالات میں اسلام کی معنویت، حقانیت اور ضرورت کو عام کریں۔ آج ہمیں فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ہمارا مقصد محض اسلامیات پڑھانے سے پورا نہیں ہوسکتا، خواہ اسے ہر مضمون میں شامل کردیا جائے، بلکہ اسلامی تعلیم میں وہ ہوگا جو غیر اسلامی اور مادہ پرستانہ تہذیبوں کے افکار و نظریات کے خلاف نوجوانوں کو ایمانی جہاد لڑنے کے قابل بناسکے اور انہیں اسلام کے کامل تہذیبی شعور سے مسلح کرسکے۔ نعیم صدیقی نے اس کتاب میں ان بکھرے ہوئے موتیوں کو نہایت محنت اور قابلیت سے ایک حسین مالا میں جوڑ دیا ہے جس سے اس کتاب نے ایک چراغِ راہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ طالبانِ علم کے لیے یہ کتاب روشنی کا مینار اور نظامِ تعلیم کی اصلاح کرنے والوں کے لیے مشعل راہ کا کردار ادا کرے گی۔

’’تعلیم کا تہذیبی نظریہ‘‘ ابتداً ایک تقریر تھی، تاہم پھر مصنف نے اپنے ذہنِ رسا سے تعلیم سے متعلق افادات کے مجوزہ مجموعے کے مسودے کو اس نام سے موسوم کردیا، چنانچہ اس اہم کام کو سنوارنے کی ذمہ داری نوید اسلام صدیقی نے انجام دی اور پھر اسے خوب نبھایا۔ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرمائے، آئین!