چھبیسویں قسط
پولیس فورس مسلح ہوکر یونیورسٹی کے گیٹوں پر کھڑی تھی کہ ہم جلوس نہ نکال سکیں۔ اس صورتِ حال میں طے شدہ حکمتِ عملی کے مطابق ہم سب یونیورسٹی لائبریری اور سینٹ ہال کی جانب سے ایک ایک کرکے مختلف گیٹوں سے داخل ہوکر جمع ہوئے تھے۔ میری دعوت پر سابق ناظم لاہور جناب حمیداللہ خان نے جو اب ڈیموکریٹک یوتھ فورس کے ممبر تھے، اسد شہید کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پہلے تذکرہ ہوچکا ہے کہ حمید اللہ خان مجھ سے قبل لاہور جمعیت کے ناظم تھے، مگر بعض ذاتی وجوہات سے نظامت اور رکنیت سے استعفیٰ دے کر الگ ہوگئے تھے، تاہم ڈیموکریٹک یوتھ فورس میں سرگرم کارکن تھے اور ہمارے ساتھ اس دور میں بھرپور تعاون کیا کرتے تھے۔ انھوں نے ایک تنظیم ’’العقاب‘‘ بھی بنائی تھی جو زیادہ دیر چل نہ سکی۔
غائبانہ نمازِ جنازہ کے بعد میں نے تقریر کی، جس کے دوران طلبہ نے بڑے پُرجوش نعرے لگائے۔ پولیس فورس باہر دانت پیس رہی تھی، مگر اُس وقت کرفیو میں وقفہ تھا اور ہم جامعہ پنجاب کے کیمپس کے اندر تھے۔ کرفیو کا وقفہ تیزی سے ختم ہورہا تھا، اس لیے میں نے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ جلدی سے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ اس دوران یونیورسٹی کے قریبی گیٹ کے باہر کھڑے پرانی انارکلی تھانے کے ڈی ایس پی سردار ذوالفقار نے کہا کہ وہ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں، میں نے اندر ہی کھڑے کھڑے ان سے کہا کہ ’’آپ بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بڑے حزم ووثوق سے کہا کہ ’’نہیںخدا گواہ ہے میں صرف آپ سے بات ہی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
مجھے سو فیصد یقین تھا کہ گرفتار کرلیا جائوں گا، لیکن اس وقت کے حالات میں اور اعلانِ تاشقند کے وقت کی صورتِ حال میں جب کہ میری پہلی گرفتاری عمل میں آئی تھی، زمین آسمان کا فرق تھا۔ اب تو میرے لیے گرفتاری پیش کرنا قطعی طور پر کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ میں نے اپنے دوستوں کو اشارہ کیا کہ پچھلی جانب کچہری روڈ کی طرف سے نکل جائیں، اور ڈی ایس پی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ’’جناب! مجھے آپ کے عزائم کا پتا ہے لیکن میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ آگے بڑھ کر گرفتاری پیش کروں بجائے اس کے کہ آپ پیچھے بھاگ کر مجھے گرفتار کریں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے، مگر جان لیجیے کہ مجھے بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے جس سے بھاگنا ممکن نہیں۔‘‘
اکثر طلبہ اس گفتگو کے دوران کچہری روڈ کی طرف جا چکے تھے۔ مگر جمعیت کے جو ارکان پروگرام میں پہنچ سکے تھے ابھی تک وہیں کھڑے تھے اور یہ بات چیت سن رہے تھے۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ اِدھر اُدھر ہونے کے بجائے گرفتاری پیش کردوں۔ چناں چہ میں گیٹ کے باہر آیا اور سردار جی نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ مجھے گرفتار کرلیں۔ وہ منظر بڑا عجیب تھا، سپاہی میری جانب جھپٹے تو میں نے انھیں ڈانٹ کر کہا ’’صبر اور نظم و ضبط سے کام لو، جو شخص خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہے وہ کہیں بھاگ نہیں جائے گا۔‘‘ سپاہی اور خود سردار جی بھی کھسیانے ہوکر رہ گئے۔ قارئین محترم! دراصل سردار ذوالفقار، سردار صاحب تھے اور مجھے اُن کے ساتھ صاحب ہی کا لاحقہ لگانا چاہیے تھا، مگر ان کا ایک پُرامن تنظیم اور اس کے ناظم کے ساتھ جو شاطرانہ رویہ تھا، اس کی وجہ سے میرے قلم سے بے ساختہ ’’سردار جی‘‘ لکھا گیا۔
میری گرفتاری کے وقت محمد رمضان عادل، زاہد بخاری، عبدالوحید سلیمانی، نسیم انصاری اور منیر راحت (ارکان جمعیت) اور عباس رانا، فضل الرحمٰن خان، رضا شاہ (رفقاء) گیٹ کے قریب ہی موجود تھے۔ عبدالوحید سلیمانی اُس وقت میرے ساتھ لاہور جمعیت کے معتمد تھے۔ ارکان نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ (سلیمانی صاحب) بھی ناظم صاحب کے ساتھ گرفتاری پیش کریں۔ چناں چہ سلیمانی صاحب بھی گرفتاری کے لیے گیٹ سے باہر نکل آئے۔ رمضان عادل صاحب جو ہم سب میں عمر میں بڑے اور سب سے پرانے، دبنگ، تجربہ کار اور سینئر رکن تھے، پیچھے نہ رہ سکے اور آگے بڑھ کر گرفتاری کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ رفیقِ جمعیت عباس رانا جو سابق ناظم لاہور عبدالحئی احمد رانا کے چھوٹے بھائی تھے، راج گڑھ میں رہتے تھے۔ وہ گھر جانے کے لیے پچھلی جانب کچہری روڈ کی طرف جانے کے بجائے اس جانب سے باہر نکلے اور گرفتار کرلیے گئے۔ ہم چاروں ساتھی پرانی انارکلی تھانے کی حوالات میں بند کردیے گئے تھے۔
اس دوران پولیس کی مخصوص نفری سعید منزل کے گرد و نواح میں گھومتی رہی۔ جمعیت کے رفیق، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے ناظم اور صدر کالج یونین محمد انور گوندل صاحب جونہی دفتر سے نیچے اترے پولیس نے انھیں پکڑ لیا۔ گوندل صاحب اس دور میں ابھی نوعمر اور جمعیت میں آنے والے نئے ساتھی تھے اور یہ ان کی پہلی گرفتاری تھی، اس لیے قدرتی طور پر وہ گھبرائے ہوئے تھے، مگر جونہی ہم سے آکر ملے ان کی ساری گھبراہٹ دور ہوگئی۔ یہ تو آغاز تھا، بعد میں تو گوندل صاحب بھی اس وادی میں بار بار گھومتے پھرتے رہے کہ اس قافلے کے لیے یہ امر لازمی ہے۔ تحریک کے اکثر ساتھیوں کی زبانوں پر اُس زمانے میں اور اب تک بھی مولانا عامر عثمانیؒ (مدیر ماہنامہ تجلی، دہلی) کا ایک شعر ماحول میں گونج پیدا کردیتا اور جذبوں کو بیداری بخشتا ہے ؎
وہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
گوندل صاحب کو دیکھ کر ہماری زبانوں پر بے ساختہ یہ شعر آ گیا۔
اس مختصر سے جلسے اور گرفتاری پر اخبارات نے اپنی خبروں کی رپورٹنگ اور ادارتی صفحات کے مضامین میں خوب لکھا اور جمعیت کے کارکنان اور نظم کی قانون پسندی، جرأت اور ڈسپلن کی بہت تحسین کی گئی۔ تھانے میں ہمیں ایک آدھ اخبار دستیاب ہوجاتا تھا۔ ہم اگلے دن شام کو شاہی قلعہ کی جانب لے جائے گئے۔ اُس وقت بھی شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ زندہ دلانِ لاہور کے شہر میں ہو کا عالم تھا۔ غالباً ہمیں ہراساں کرنے کے لیے پولیس وین میں چونامنڈی تھانے میں بھی ہمیں لے جایا گیا۔ شاہی قلعہ کا تذکرہ بھی پولیس کارندوں کی زبانوں سے سنا۔ ہم سب اللہ کے فضل سے بالکل مطمئن اور بے خوف تھے، اور کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے ذہناً تیار تھے، مگر وہاں کسی کے حوالے کرنے کے بجائے ہمیں مزید ایک رات انارکلی تھانے میں رکھنے کے بعد اگلے روز کیمپ جیل حوالات میں بھیجا گیا۔ پتا نہیں یہ سارا ڈرامہ کیا تھا اور کیوں تھا؟ ہمیں ہراساں کرنے کی ایک کوشش ہی معلوم ہوتی تھی، مگر ہم سب بالکل بے فکر اور مطمئن تھے۔
گرفتاری کے بعد کیمپ جیل میں حراست کے یہ پندرہ سولہ دن بڑے مزے سے گزرے، دوست احباب باہر سے ہر روز ملاقاتوں کے لیے آتے جن میں جوان بھی ہوتے اور بزرگ بھی، اور بڑے تحفے تحائف ہماری خدمت میں پیش کرتے۔ جیل میں، میں نے دوبار جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز بھی پڑھائی۔ قیدیوں اور حوالاتیوں سے ہم بہت بے تکلف ہوگئے۔ ہمارے سب ساتھی ان سے خوب گپ شپ لگاتے تھے۔ نمازیں باجماعت ادا کرنے کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا، درسِ قرآن بھی ہوتا تھا اور رات کو رمضان بھائی بڑے سوز سے علامہ اقبال کا کلام سناتے تھے۔ اندلس کے بارے میں علامہ مرحوم کی غزلیں رات کی ان خاموشیوں میں عجیب لطف دیا کرتی تھیں۔
رمضان صاحب بہت اچھے صحافی اور اردو، انگریزی دونوں زبانوں میں رپورٹنگ کرتے تھے، ساتھ تعلیم بھی جاری تھی۔ بڑے مرنجاں مرنج قسم کے آدمی اور بڑی خوبیوں کے مالک تھے، مگر ان کی یہ خوبی کہ بڑے خوش الحان غزل خواں ہیں، جیل جانے سے پہلے راز ہی رہی۔ (اللہ مرحوم بھائی کے درجات بلند فرمائے!)
علامہ اقبال مرحوم نے اسپین کی سیر کی اور اس دوران مختلف یادگار تاریخی مقامات پر انتہائی پُرسوز اشعار لکھے۔ آپ کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ تو اتنی طویل ہے کہ اس میں 128مصرعے یعنی 64اشعار ہیں۔ رمضان صاحب ان اشعار کو پڑھتے تو ہم سب پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوجاتی۔ اپنے آبا واجداد کی تاریخی وراثت اور عسکری و علمی کارناموں کے ساتھ ان کی عظیم الشان تعمیرات کا تصور کرکے علامہ اقبالؒ نے روتے ہوئے جو اشعار سینۂ قرطاس پر منتقل کیے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلسل ان کے دل پر القا ہورہے تھے۔ اس عروج کو جو کبھی نصف النہار پر تھا، زوال کی گہرائیوں میں گرا ہوا دیکھ کر ہر بندۂ مومن کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ انھی جذبات میں ڈوبے ہوئے اسیرِ راہِ حق رمضان بھائی جب اشعار پڑھتے تو کچھ نہ پوچھیے کہ دل پر کیا گزرتی ؎
تُو ہو اگر کم عیار، مَیں ہُوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہُنر
کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں بے ثبات!
اقبالؒ اسرار و رموز کے واقف اور عشقِ حقیقی سے سرشار تھے۔ اس موضوع پر مسجد قرطبہ میں بیٹھ کر یہ اشعار زبان سے نوکِ قلم پر آئے ؎
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رُسول، عشق خدا کا کلام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
جذبات و کیفیاتِ قلب و جگر کو سینۂ قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے بے ساختہ اپنا تعارف کرواتے ہیں اور پھر اپنے نظریات کے ساتھ وابستگی کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ اسی سلسلے میں مسجد قرطبہ، اس کی عظمت اور شاندار ماضی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ اس کے میناروں اور معماروں کو یاد کر کے بچشمِ نم لکھتے ہیں ؎
کافرِ ہندی ہُوں مَیں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوٰۃ و دُرود، لب پہ صلوٰۃ و دُرود
شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ اللہ ہُو میرے رَگ و پَے میں ہے
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
تیری بِنا پائدار، تیرے سُتوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہُجومِ نخیل
عظیم اسلامی خلافت کی شان و شوکت، اس میں شامل تاریخی علاقے اور خوب صورت مناظر بھی قلب و نظر کو خیرہ کرتے ہیں۔ مسجد کے در و بام کو دیکھتے ہیں، پھر میناروں کی طرف نظر جاتی ہے اور قلم رواں ہو جاتا ہے ؎
تیرے در و بام پر وادیِ اَیمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
مِٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
بندۂ مومن جس نے تاریخ میں ہمیشہ اعلیٰ اخلاق و کردار اور جرأت و استقلال کے نمونے پیش کیے ہیں، ہسپانیہ کی سرزمین پر جگہ جگہ اس کے نقوشِ پا نظر آتے ہیں۔ وہ تاریخ کا حصہ بن چکا، مگر وقت گزرنے کے باوجود اس کی صفاتِ عالیہ زندہ و تابندہ ہیں ؎
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز
نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
یہ چند چیدہ چیدہ اشعار ان یادداشتوں میں قلم بند کردیے ہیں۔ جیل کے ساتھیوں میں سے بیشتر اپنا سفر پورا کرکے منزل سے ہم کنار ہوچکے ہیں، ہم کمر باندھے تیار بیٹھے ہیں، کب اللہ تعالیٰ ان سے ہمیں ملائے گا، وہی جانتا ہے۔ اللہ جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اسلام پر ثابت قدمی کے ساتھ چلتے رہنے اور اسی پر آخری سانس لینے کی سعادت بخشے۔
غالباً پندرہ سولہ روز بعد لاہور ہائی کورٹ میں ہماری دوسری پیشی ہوئی۔ ہائی کورٹ کے معروف جج جسٹس عطا اللہ سجاد نے ہمارا کیس سنا۔ ہائی کورٹ بار کے سارے معروف وکلا ہماری جانب سے پیش ہوئے۔ ہائی کورٹ کا احاطہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ بڑی دلچسپ بحث کے بعد جسٹس عطا اللہ نے پولیس پراسیکیوٹر کو سخت ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ ان طلبہ نے قانون کی کس دفعہ کی خلاف ورزی کی؟ ذرا اپنے دلائل میں کوئی قانونی ثبوت بھی تو دیں؟ استغاثہ کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ اس موقع پر جسٹس موصوف نے ہماری رہائی کا حکم صادر کیا۔ ہماری رہائی پر لوگوں نے ہمیں پھولوں کے ہاروں سے لاد دیا۔ دراصل پچھلی پیشی پر ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ کیس میں کوئی جان نہیں اور ہماری باعزت رہائی یقینی ہے۔ اخبارات میں اگلے روز ہماری رہائی کی خبریں اور تصاویر چھپیں تو ملک بھر میں جمعیت کے ساتھی، تحریکی حلقوں کے قائدین و کارکنان اور ہم سب کے اہلِ خانہ بہت خوش ہوئے۔ (جاری ہے)