مسائل بہت زیادہ بھی ہیں اور انتہائی پیچیدہ بھی، اس لیے زندگی الجھتی ہی جارہی ہے
تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جن لوگوں کی تنخواہ کم ہوتی ہے اُن پر غیر معمولی ذہنی دباؤ مرتب ہوتا رہتا ہے۔ یہ مستقل نوعیت کا معاملہ ہے یعنی یہ دباؤ کبھی کم ہونے کا نام نہیں لیتا، بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
کیا اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی بھی طرح کی تحقیق کی ضرورت ہے کہ انسان کم کماتا ہو تو اُس کے ذہن کو ہر وقت ایک خاص قسم کا دباؤ جکڑے رہتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کم آمدنی سے ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کو سمجھنے کے لیے کسی بھی قسم کی تحقیق کی بنیادی طور پر کوئی ضرورت نہیں۔
ہر دور کے انسان کو صرف ایک مسئلے نے شدید نوعیت کی ذہنی الجھنوں سے دوچار رکھا ہے۔ یہ مسئلہ ہے کم وسائل کا، کم آمدنی کا اور کمتر معیارِ زندگی کا۔ ہر عہد کے انسان نے زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش کی ہے۔ جتنا ایک عام آدمی کو ڈھنگ سے گزارے کے لیے درکار ہوتا ہے اُس سے کہیں زیادہ کی طلب رہتی ہے، اور کیوں نہ ہو؟ یہ بالکل فطری معاملہ ہے۔
ہر عہد کی زندگی ایسی ہی تھی اور ہر آنے والے عہد کی زندگی بھی ایسی ہی رہے گی۔ سوال صرف ذہنی دباؤ کا نہیں۔ معاملہ اِس سے کہیں آگے کا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں مسائل بہت زیادہ ہیں اور وسائل بہت کم۔ انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے والی چیزیں بہت زیادہ ہیں مگر اُنہیں حاصل کرنے کی مالی سکت کم کم ہے۔ بازار میں بہت کچھ دستیاب ہے مگر ہم سب کچھ تو نہیں خرید سکتے۔ ہمیں کچھ بھی خریدتے یا حاصل کرتے وقت اپنی مالی سکت کو ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے۔
تازہ ترین تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ کم آمدنی انسان کو محض شدید ذہنی دباؤ تک محدود نہیں رکھتی بلکہ اختلاجِ قلب میں مبتلا کرکے دم لیتی ہے۔ کم آمدنی والے افراد کے لیے اپنی اور اہلِ خانہ کی تمام ضرورتیں پوری کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر کنبہ تھوڑا سا بڑا ہو یعنی زیادہ بچے ہوں تو اُن کی ضرورتیں پوری کرنے میں انسان کو غیر معمولی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غیر معمولی ذہنی دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلاجِ قلب سے نپٹنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے ایک طرف تو بھرپور قوتِ ارادی کی ضرورت پڑتی ہے اور دوسری طرف صحت کا معیار بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی بھی نوع کی صورتِ حال کو ہنستے ہوئے جھیل جاتے ہیں کیونکہ اُنہیں اِس کی تربیت فراہم کی گئی ہوتی ہے۔ اگر گھر کا ماحول معقول اور متوازن ہو تو انسان کسی بھی صورتِ حال کا سامنا ہنستے ہوئے کرسکتا ہے۔
گوناگوں مسائل کو خندہ پیشانی سے جھیلنے کا ہنر راتوں رات نہیں آتا۔ بہت سے گھرانے اپنے بچوں کو زندگی بھر کے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے خاصی محنت سے تیار کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے انسان کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، بہت کچھ اپنانا اور بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔
پاکستانی معاشرے پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے زندگی آسان نہیں۔ مسائل بہت زیادہ بھی ہیں اور انتہائی پیچیدہ بھی۔ اس لیے زندگی الجھتی ہی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر صحتِ عامہ کا معیار نہ گرے تو اور کیا ہو؟
اگر ذرا سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں گھرانے کے کفیل افراد کو کام بھی زیادہ کرنا پڑا ہے اور ذہنی دباؤ بھی زیادہ جھیلنا پڑا ہے۔ کسی بھی گھر کو چلانے کی ذمہ داری آسان نہیں ہوا کرتی۔ ہر گھر یا گھرانہ بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کمانا ہر دور میں ایک بڑا دردِ سر رہا ہے۔ ہاں، گزرے ہوئے زمانوں میں زندگی زیادہ الجھی ہوئی نہیں تھی اس لیے مسائل بھی کم تھے اور اُن کے ہاتھوں زندگی کا تیا پانچا بھی نہیں ہوتا تھا۔ جب فطری علوم و فنون نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی تب ہماری زندگی میں ٹیکنالوجی کے شاہکار بھی کم کم تھے اور سب کے لیے نہیں تھے۔ ڈھائی تین سو سال پہلے زندگی بہت سادہ اور آسان تھی۔ فطری علوم و فنون نے جب ترقی کا سفر تیز رفتاری سے شروع کیا تب زندگی کے لیے جتنی آسانیاں پیدا ہوئیں اُس سے کہیں زیادہ مشکلات بھی ابھرنے لگیں۔ جس طور گلاب کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں بالکل اُسی طور ترقی کے مراحل میں الجھنوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مغربی دنیا میں معاشی سرگرمیوں سے دل و دماغ پر مرتب ہونے والے شدید منفی اثرات کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق کی گئی ہے اور اس تحقیق کی روشنی میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشی سرگرمیوں کے دوران انسان کے ذہن پر دباؤ کم سے کم رہے تاکہ وہ اپنی محنت اور کمائی سے کماحقہ محظوظ بھی ہو۔ کسی بھی انسان کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ گزر بسر کے لیے جو بھی جدوجہد کرے اُس کے دوران زندگی سے بیزار نہ ہو، ہر قدم پر اپنی محنت اور محنت کی کمائی سے لطف اندوز بھی ہو۔
کیا ہمارے ہاں ایسا سوچا جاتا ہے؟ سوچنا تو دور کی بات رہی، ہمارے ہاں تو ابھی تک اس بات کو تسلیم کرنے کا رویہ بھی پیدا نہیں ہوا کہ کسی بھی انسان کو اپنی معاشی سرگرمیوں کے دوران دباؤ سے دور رکھنے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آمدنی کا فرق ہر معاشرے میں ہوتا ہے۔ یہ صرف ترقی پذیر یا پس ماندہ معاشروں کا مسئلہ نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی آمدنی کا فرق مسائل پیدا کرتا ہے، ذہنوں پر دباؤ مرتب ہوتا ہے اور اُس دباؤ سے نپٹنے کے لیے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔
آمدنی کم ہو تو انسان بہت سے معاملات میں الجھتا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ مرحلہ فطری ہے۔ جب انسان کے مالیاتی وسائل زیادہ نہیں ہوتے تو وہ الجھنوں کا شکار ہوتا ہی ہے۔ ہر معاشرے اور ہر گھرانے میں ایسا ہوتا ہے۔
جو لوگ کم کمانے کی صورت میں دل و دماغ پر شدید دباؤ محسوس کرتے ہیں اُنہیں ایسے گھرانوں کا جائزہ لینا چاہیے جن کی آمدنی بہت زیادہ ہے۔ جائزہ لینے پر یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ مسائل اُن کے لیے بھی کم نہیں جو بہت کماتے ہیں۔ اور عجیب حقیقت ہے کہ آمدنی بڑھنے سے مسائل کی تعداد ہی نہیں بڑھتی بلکہ اُن میں پیچیدگی بھی بڑھتی جاتی ہے۔
کم آمدنی کے نتیجے میں دل و دماغ پر مرتب ہونے والا دباؤ ہمارے لیے تحریک کا بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔ لازم تو نہیں کہ ہم ہر بُری کیفیت سے بددِل ہوں، بیزار ہوں، پریشانی محسوس کریں۔ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کوئی شدید پریشانی ہمارے لیے کسی حد تک آسانیوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ایسا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب ہم پریشانی کو دیکھنے والی نظر تبدیل کریں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے اپنی نگاہ کا زاویہ تبدیل کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ مشکلات اُتنی نہیں ہوتیں جتنی ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔
نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی ماحول میں کمتر درجے کی آمدنی ایک طرف تو زیادہ کمانے کی تحریک دیتی ہے اور دوسری طرف انسان کو اس بات پر بھی آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبدیل کرے، اپنی ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرے، اپنے آپ کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرے، اور اِس کے لیے سوچ کا بدلنا لازم ہے۔ جب انسان اپنی کم آمدنی کے ہاتھوں تحریک پاکر منصوبہ سازی کرتا ہے، زیادہ کمانے کے بارے میں سوچتا ہے اور اپنے اخراجات سے متعلق ترجیحات کا تعین کرتا ہے تو اُس کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یوں اُس کی زندگی میں وہ سب کچھ دکھائی دینے لگتا ہے جس کے بارے میں خود اُس نے بھی سوچا نہیں ہوتا۔
پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیجیے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ لوگ مستقبل کو بہتر اور تاب ناک بنانے کے خواہش مند ہیں اور دن رات اس حوالے سے سوچتے رہتے ہیں، مگر جو کچھ سوچنا اور کرنا چاہیے وہ نہیں کرتے۔ مستقبل کو بہتر یا تاب ناک بنانے کے لیے موجودہ زمانے کو سمجھنا لازم ہے۔ جب تک کوئی اپنی موجودہ پوزیشن یا حیثیت کو نہ سمجھے تب تک مستقبل کے بارے میں کسی بھی نوع کی منصوبہ سازی نہیں کرسکتا۔
آج کی دنیا بہت عجیب و غریب نفسی و عصبی مراحل سے گزر رہی ہے۔ گزرے ہوئے تمام زمانوں میں انسانوں کو جن مسائل کا سامنا نہیں تھا وہ آج ہمارے سامنے عفریت کی طرح منہ کھولے ہوئے کھڑے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ (اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحون پر) محدود وسائل کا ہے۔ ایسا کسی بھی دور میں نہیں ہوا تھا کہ فطری علوم و فنون کی عظیم الشان پیش رفت کی بنیاد پر زندگی کو انتہائی آسان بنانے والی چیزیں بھرپور تنوع کے ساتھ بازار میں دستیاب ہیں اور اُن کا حصول بھی کچھ دشوار نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کی حدود کو نظرانداز کرتے ہوئے بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ دنیا بھر کی اشیا و خدمات سے اُن کا گھر بھر جائے۔ لوگ ایسی بہت سی چیزوں کی تمنا کرتے ہیں اور اُنہیں پانے کی تگ و دو میں بھی مصروف رہتے ہیں جو اُن کے لیے نہیں ہوتیں کیونکہ اُن کے وسائل اِس کی اجازت ہی نہیں دیتے۔
بیشتر پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں انفرادی سطح کا المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کی سطح بھول کر کہیں بلند تر سطح کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ جب انسان بہت کچھ پانا چاہتا ہے مگر اپنی انتہائی کمتر مالی یا مالیاتی حیثیت کو دیکھتا ہے تو دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے، مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کیفیت کو دل و دماغ پر سوار ہونے دیا جائے۔ کم آمدنی کی صورت میں انسان زیادہ اشیا و خدمات حاصل نہیں کر پاتا، یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ مگر یہ کہاں کی دانش ہے کہ دل برداشتہ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کی جائے اور ایک ایک لمحہ الجھے ہوئے ذہن اور دباؤ میں جکڑے ہوئے دل کے ساتھ بسر کیا جائے!
نفسی امور کے ماہرین کا اخلاص سے پُر مشورہ یہ ہے کہ جس کی آمدنی کم ہو وہ اپنی حدود کا خیال رکھے، اپنی قوتِ خرید کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اخراجات ترتیب دے، اور ساتھ ہی ساتھ مزید یا اضافی آمدنی کے ذرائع تلاش کرنے پر بھی متوجہ ہو۔
محدود آمدنی انسان کو بہت سے معاملات میں دل پر جبر کرنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ بات بات پر دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ جو کچھ دل کو اچھا لگ رہا ہو وہ نہ مل پائے تو دل دُکھتا ہی ہے، مگر اس منزل میں پھنس کر نہیں رہ جانا چاہیے۔ لازم ہے کہ انسان اپنے معاملات کو درست کرنے پر متوجہ ہو۔ اس کے لیے تھوڑی سی تحریک کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس حوالے سے بہت سی کتب بھی موجود ہیں اور آن لائن کورس بھی دستیاب ہیں۔ انسان چاہے تو آن لائن ماہرینِ نفسیات سے مفت مشورے بھی لے سکتا ہے۔ یوٹیوب اور دیگر ویب پورٹلز پر اس حوالے سے اچھا خاصا مواد موجود ہے۔ یہ سارا مواد انسان کو بہتر طور پر جینا سِکھانے کے لیے ہی تو ہے۔ محدود آمدنی کی صورت میں اپنے آپ کو مزید الجھنوں سے دوچار کرنے کے بجائے ذہن کو سُلجھانے والی چیزیں پڑھ کر، دیکھ کر بہت کچھ سیکھنا چاہیے تاکہ زندگی میں توازن پیدا ہو اور دل و دماغ پر مرتب ہونے والے شدید دباؤ میں کمی واقع ہو۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آمدنی کا فرق قدم قدم پر ہے اور رہے گا۔ یہ ہر معاشرے، ہر طبقے، ہر نسل اور ہر گھرانے کی کہانی ہے، اِس لیے اِسے زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کیا جانا چاہیے تاکہ زندگی کو متوازن اور معقول بنانے کی راہ ہموار ہو۔ کم آمدنی مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ ہے آمدنی میں اضافے کی تگ و دَو سے گریز۔ جب ہم مسائل کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں تب ہمارے وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے، مسائل کی تعداد بھی بڑھتی ہے اور اُن کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔