کیا پاکستان اولمپکس میں ایک اور تمغہ اپنے نام کرسکتا تھا؟

’’کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تو ویٹ لفٹنگ فیڈریشن نے کہا کہ ہر ٹی وی انٹرویو میں ہمیں کریڈٹ دو، لیکن ساری محنت میرے والد کی تھی سو میں نے اُن کو کریڈٹ دیا، اسی لیے فیڈریشن نے مجھے اولمپکس کے کوالیفائنگ رائونڈ میں شرکت نہیں کروائی تاکہ میں اولمپکس میں حصہ لے سکوں اور نہ ہی پاکستان کے لیے کوئی تمغا جیت سکوں۔‘‘ یہ کہنا تھا پاکستان کے معروف قومی ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ کا، جنہوں نے 2022ء کے کامن ویلتھ گیمز میں نہ صرف گولڈ میڈل جیتا بلکہ ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔ انہوں نے مجموعی طور پر405کلو گرام وزن اٹھاکر کامن ویلتھ کا نیا ریکارڈ بنایا تھا۔ کامن ویلتھ گیمز2022ء میں پاکستان نے دو گولڈ میڈل جیتے تھے، ایک جولین تھرو میں ارشد ندیم نے، دوسرا ویٹ لفٹنگ میں نوح دستگیر بٹ نے۔ اس جیت سے دونوں قومی کھلاڑیوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جب کامن ویلتھ گیمز میں دونوں قومی کھلاڑیوں نے گولڈ میڈل جیتا تھا تو پاکستان اسپورٹس بورڈ کو ان دونوں کھلاڑیوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تھی، تاکہ دو برس بعد 2024ء کے اولمپکس میں وہ پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیت سکیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ پیرس اولمپکس 2024ء میں پاکستانی کھلاڑی ملک کی نمائندگی کرنے گئے تو اُن میں ارشد ندیم تو شامل تھے لیکن نوح دستگیر بٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔ جب اس معاملے پر غور کیا گیا کہ دو برس پہلے جس قومی ویٹ لفٹرنے کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا اب وہ کہاں ہے؟ تو خبر ملی کہ ان کے ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے ساتھ اختلافات چل رہے ہیں۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ اولمپکس میں شرکت کے لیے نوح دستگیر بٹ کو پانچ اولمپکس کوالیفائنگ رائونڈ کھیلنے تھے لیکن فیڈریشن نے یہ کوالیفائنگ رائونڈ کھیلنے میں ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ فیڈریشن اور نوح دستگیر بٹ کے درمیان اختلافات کا آغاز اُس وقت سے ہی ہوگیا تھا جب نوح دستگیر بٹ نے کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ نوح بٹ کے مطابق جب انہوں نے کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تو انھیں سابق ویٹ لفٹر کھلاڑیوں نے مبارک باد دینے کے لیے دعوت پر بلایا ہوا تھا اور انہیں اور ارشد ندیم کو ایک اعزازی شیلڈ بھی دی گئی تھی جس کے بعد ویٹ لفٹنگ فیڈریشن نے ان پر یہ الزام لگایا کہ وہ ان سابق ویٹ لفٹرز کے ساتھ منسلک ہیں اور ایک ویٹ لفٹنگ باڈی کا حصہ ہیں۔

نوح بٹ کا کہنا تھا کہ وہ ایک پاکستانی کھلاڑی ہیں، اگر کوئی سیاسی بندہ یا سابق ویٹ لفٹر انہیں حوصلہ افزائی کے لیے گھر یا کسی بھی مقام پر بلائے گا تو وہ ضرور جائیں گے اور وہ اس کا جواب فیڈریشن کو دینے کے پابند نہیں ہیں کیونکہ وہ عوام کی پراپرٹی ہیں۔ اس کے علاوہ نوح بٹ نے کہا کہ یہ فیڈریشن اور سابق ویٹ لفٹر کا آپس کا معاملہ ہے، مجھے اس میں شامل نہ کیا جائے اور مجھے اپنا کھیل کھیلنے دیا جائے کیونکہ میں اس کھیل کی بنیاد پر اپنا اور ملک کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں۔ ویٹ لفٹنگ فیڈریشن نے نہ صرف نوح دستگیر بٹ کی اولمپکس میں جانے کے لیے کوئی مدد نہیں کی بلکہ اولمپکس کمیٹی نے نوح بٹ کو تیس لاکھ کی جو رقم اسکالرشپ کے طور پر دی تھی، وہ بھی نہیں دے رہے ہیں۔ نوح بٹ نے کہا ہے کہ میرے پاس اپنی اسکالرشپ کی دستاویزات بھی موجود ہیں اور میں نے اولمپکس کمیٹی سے مدد کی درخواست بھی کی لیکن ان کا کوئی جواب یا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس طرح ارشد ندیم نے تو پیرس اولمپکس میں سب کو حیران کردیا لیکن پاکستانی ویٹ لفٹر نوح بٹ قومی سطح پر ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کی سیاست کا شکار ہوگئے۔ جب نوح بٹ سے یہ پوچھا گیا کہ کیوں ویٹ لفٹنگ فیڈریشن سارا کریڈٹ خود لینا چاہتی تھی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فیڈریشن پر پابندی کے سائے منڈلا رہے ہیں، فیڈریشن پر پابندی کے مسائل کامن ویلتھ گیمز میں جانے سے پہلے ہی شروع ہوگئے تھے جب پاکستانی ویٹ لفٹر طلحہ طالب کا ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آگیا تھا۔ طلحہ طالب پاکستان کے وہ ویٹ لفٹر ہیں جو ملک کی اولمپکس میں نمائندگی کرچکے تھے۔وہ 2020ء کے ٹوکیو اولمپکس میں پانچویں نمبر پر آئے تھے اور صرف دو کلو وزن کے فرق سے میڈل لانے میں ناکام رہے تھے۔ لیکن جب 2022ء میں طلحہ طالب کا ٹیسٹ مثبت آیا اور پھر باقی کھلاڑیوں کا ٹیسٹ کیاگیا تو 6 کھلاڑیوں کے ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آگئے تھے۔ اس طرح طلحہ طالب کو تو 2022ء کے کامن ویلتھ گیمزاور پیرس اولمپکس2024ء سے باہر کردیا گیا تھا اور قومی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن پر عالمی پابندی کے مسائل کا آغاز ہوگیا تھا۔ نوح بٹ کا کہنا ہے کہ ان پابندیوںکے مسائل کی وجہ سے فیڈریشن کا مطالبہ تھا کہ میں ہر انٹرویو میں اُن کو کریڈٹ دوں، جبکہ مجھ پر ساری محنت میرے والد نے کی تھی۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ساراکریڈٹ ان کو دے دوں تاکہ ان پر پابندی کا دبائو کم یا ختم ہوجائے۔ ڈوپنگ ٹیسٹ ویٹ لفٹنگ گیمز کے آغاز میں ہوتا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ کسی کھلاڑی نے کسی قسم کی منشیات کا تو استعمال نہیں کیا تاکہ وہ اپنی کارکردگی میںنشے کی بنیاد پر بہتری لاسکے۔ ا گر کسی فیڈریشن کے 3 کھلاڑیوں کے ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آجائیں تو عالمی اصولوں کے مطابق اس فیڈریشن کو چار برس کی پابندی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اسے5لاکھ ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوتاہے۔ پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کی نااہلی اور بدنیتی کی بنیاد پر نوح دستگیر بٹ کے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی اور اب ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور فیڈریشن کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔

اصل میں ہمارے کھیلوں پر جو زوال آیا ہے اس کی ایک بڑی وجہ فیڈریشنوں میں سیاسی بھرتیاں اور نااہلی جیسے امور ہیں، اور سب سے بڑھ کر جب کسی بھی سطح پر فیڈریشن کا احتساب ہی نہیں ہوگا تو کھیل کا نظام کیسے درست ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ نوح بٹ جیسے کئی قومی کھلاڑی کھیلوں میں موجود سیاست کی وجہ سے نہ تو آگے آتے ہیں اور نہ ہی ان کو آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔