سندھ تباہ حال انفرا اسٹرکچر:مون سون بارش کے بعد تباہی

سندھ میں حالیہ مون سون کی متواتر کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی تباہ کن بارشوں کے سلسلے نے ایک مرتبہ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نام نہاد ترقی اور کارکردگی کی قلعی بہت برے طریقے سے کھول کر رکھ دی۔ سندھ میں حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے دو درجن کے قریب افراد مختلف واقعات میں جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ سندھ کے شہروں اور قصبات کا انفرا اسٹرکچر جو پہلے ہی محض برائے نام تھا، گزشتہ دنوں لگاتار ہونے والی بارش کی وجہ سے اب یکسر تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ گویا کہ ان سخت بارشوں نے اہلِ سندھ کے لیے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ شدید بارشوں کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر محیط تیار فصلیں بھی برباد ہوگئی ہیں، اور ایسے میں اب بے چارے ہاری، کسان اور آبادگار اپنے سروں کو دونوں ہاتھوں میں دیے عالمِ بے بسی میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے قرض ادھار لے کر اپنی اپنی زمین پر بڑی محنت کے ساتھ جو فصل کاشت کی تھی، ادھار کی اس رقم کی واپسی موجودہ خراب صورتِ حال میں کس طرح سے ممکن ہوسکے گی اور ان کے اہلِ خانہ کے نانِ شبینہ کا انتظام کس طرح سے ہوپائے گا؟

حالیہ بارشوں کی وجہ سے سندھ کے تمام اضلاع کے شہروں میں جابجا راستوں پر گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہوا ہے جس کو نکالنے کا مقامی انتظامیہ اور متعلقہ سرکاری اداروں کو کوئی احساس ہے اور نہ ہی وقت۔ بے چارے لوگ اپنے طور پر اپنے ہاں کے روڈ پر کھڑے ہوکر پانی نکالنے کی کوشش میں جتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

سکھر میں 274 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے مرکزی راستے اور روڈ بھی تالاب بن گئے ہیں، اور سندھ کا تیسرا بڑا شہر، شہرِ ناپرساں کا منظر پیش کررہا ہے۔ جیکب آباد، سکھر، کندھ کوٹ، کشمور، ٹھل، نوشہرو فیروز، نواب شاہ سمیت سارے علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور عوام کے معمولاتِ زندگی بری طرح سے متاثر ہیں۔ اور تو اور پی پی پی کے سیاسی گڑھ لاڑکانہ میں بھی جابجا پانی ہی پانی کھڑا ہے۔ اسی طرح سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے آبائی ضلع دادو، صدر آصف زرداری کے آبائی ضلع شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ) اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے ضلع خیرپور میرس میں بھی حالیہ بارشوں نے بڑے پیمانے پر ناقابلِ بیان تباہی مچائی ہے۔

یہ ایک بہت بڑا المیہ ہی کہلائے گا کہ صوبہ سندھ پر گزشتہ کئی برس سے مسلسل پی پی پی کی حکومت ہونے کے باوجود اُس نے اپنے ہاں کے عوام کے لیے ایسا قابلِ ذکر اور یادگار کام نہیں کیا ہے جسے سراہا جا سکے۔ پی پی پی کے منتخب عوامی نمائندے اور بلدیاتی ذمہ داران ہوں یا پھر سندھ حکومت کے وزرا اور مشیر… ان کا کام صرف اور صرف نوکر شاہی کے افسران کے ساتھ مل کر کرپشن اور مال بنانا ہی رہ گیا ہے، ورنہ اگر ان کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کی 50 فیصد ہی درست طور پر ادائی کردی جاتی تو آج اہل سندھ ہر سال کی طرح امسال بھی حالیہ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے اس برے طریقے سے متاثر نہ ہوتے اور ان کی زندگی یوں عذاب نہ بن جاتی۔

اہلِ سندھ جو پہلے ہی سے بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری سمیت دیگر بہت سارے مسائل کا سامنا کررہے ہیں، ان پر مون سون کی حالیہ شدید بارشوں نے اور زیادہ برے اثرات مرتب کرکے انہیں انتہائی پریشانی اور بدحالی سے دوچار کر ڈالا ہے۔

اردو کے پہلے عوامی شاعر سید ولی محمد المعروف نظیر اکبر آبادی نے تقریباً دو سو برس قبل اپنی مشہور نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘ میں اپنے دور میں ہونے والی بارش کی وجہ سے عوام کو درپیش جن مسائل کا تذکرہ بڑی عمدگی سے کیا ہے، لگتا ہے کہ ہم اپنے نااہل اور نالائق بدعنوان حکمرانوں کی بدحکومتی کی وجہ سے عرصہ دو سو برس گزرنے کے بعد بھی بجائے ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے اور زیاہ ان کی گرفت میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ان گمبھیر اور پریشان کن مسائل کے خاتمے کا بظاہر تو دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے مختلف اضلاع کی نہروں کے پشتوں میں پڑنے والے شگافوں کی وجہ سے سیکڑوں دیہات اور لاکھوں ایکڑ زمین بھی زیرِ آب آگئی ہے اور بیچارے متاثرہ لوگ پناہ گاہوں کی تلاش میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ دربدر مارے مارے پھرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جن کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے، اس پر مستزاد اس بری خبر نے عوام کی جان کو مزید ایک طرح سے حلق میں ڈال دیا ہے کہ آئندہ آنے والے مون سون کے نئے اسپیل میں جو 25 یا 26 اگست کو شروع ہوگا، ضلع جیکب آباد، قنبر شہداد کوٹ، خیرپور میرس، سکھر، کندھ کوٹ، کشمور میں اربن فلڈ کا خطرہ ہے۔ اس صورتِ حال میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں بارش کی تباہی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ حکومتِ سندھ کی نااہلی پر پردہ ڈالنے کا ایک بھونڈا جواز ہے۔

دریں اثناء امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ محمد حسین محنتی نے اپنے ایک بیان میں شدید بارشوں سے قیمتی جانوں اور املاک کو پہنچنے والے نقصان پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے حکومتِ سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سندھ میں حالیہ طوفانی بارشوں کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اور متاثرہ افراد کی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے فی الفور مؤثر اقدامات کرے۔