ایران مخالف مسلح تنظیم جیش العدل کی دہشت گردی
جمعہ 16 اگست کو بلوچستان کے ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین شہر میں علی الصبح لوگوں نے بجلی کے کھمبوں سے لٹکتی 5 نعشیں دیکھیں۔ پولیس کو خبر دی گئی جس نے دیگر فورسز کے ہمراہ پہنچ کر نعشیں دالبندین کے سرکاری اسپتال منتقل کردیں۔ ان افراد کو گولیاں ماری گئی تھیں، بعد ازاں ان کے گلے میں رسیاں ڈال کر لٹکایا گیا۔ اس سے دالبندین کے باسیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اس اندوہناک واقعے کا بھید کھلنا مشکل نہ رہا کیوں کہ قاتلوں نے مقتولین کی وڈیو اور تصاویر جاری کی تھیں جن میں ان کے نام اور جائے سکونت بھی بتائی گئی تھی۔ سو، اس واقعے میں ایران مخالف سنی العقیدہ مسلح گروہ جیش العدل ملوث ہے۔ اس گروہ نے مقتولین کی اعترافی وڈیو بھی بہت مہارت سے بنائی ہے۔
ان سطور میں لکھا جاچکا ہے کہ 16 جنوری 2024ء کو ایرانی فورسز نے پاکستانی ضلع پنجگور میں سبز کوہ کے مقام پر میزائل داغے تھے، جس میں جیش العدل کے ٹھکانے اور اہم افراد کو نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ سامنے آیا تھا۔ پاکستان کے محکمہ خارجہ نے ایرانی دعوے کو مسترد کردیا تھا اور اسے الزام قرار دیا تھا۔ ایرانی حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ماحول کشیدہ ہوگیا۔ دونوں جانب سے سرحدی فورسز ہائی الرٹ کردی گئیں، اور پھر یوں ہوا کہ 17 اور 18 جنوری کی شب پاکستان نے سرحد سے متصل ایرانی علاقے سراوان پر گولے برسائے جن سے گاؤں کے چند گھروں کو نقصان پہنچا، ہلاکتیں بھی ہوئیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ بلوچ تنظیم بلوچ نیشنل موومنٹ نے کہا کہ حملوں میں پاکستان سے ایران ہجرت کرنے والے خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں تنظیم کے ایک رکن دوستا محمود اور اس کے خاندان کے افراد کی موت ہوئی۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ ایران کے اندر کالعدم بلوچ مسلح گروہوں کے افراد پناہ لیے ہوئے ہیں جو ایران کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ نیز پاکستان کو ایران سے درپردہ یہ بھی شکایت اور اندیشہ ہے کہ ایران پاکستان کے اندرسیاسی اور مذہبی اثر رسوخ کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
ایران جیش العدل اور اس کی ماضی کی مختلف شناختوں کے بارے میں دعویٰ کرتا رہا ہے کہ یہ ایران سے متصل پاکستانی علاقوں میں موجود ہے۔ جیش العدل باور کراتی ہے کہ اس کی سیاسی اور عسکری سرگرمیاں ایران کے اندر جاری ہیں اور وہ ایرانی بلوچستان کے لوگوں پر مشتمل ہے جو ایران میں قومی اور مذہبی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اس گروہ کو عبدالمالک ریکی نے متحرک کیاتھا۔ تنظیم کی داغ بیل 2002ء میں ڈالی گئی تھی، جس کا نام جنداللہ رکھا گیا تھا اور یہ کئی بڑے حملے کرنے میں کامیاب ہوئی، یہاں تک کہ دسمبر 2005ء میں اُس وقت کے ایرانی صدر احمدی نژاد کے قافلے پر بھی حملہ کیا، مختلف اوقات میں خودکش دھماکے بھی کیے۔ ایران نے عبدالمالک ریکی کو 2010ء میں ہوائی سفر کے دوران اپنی حدود میں مسافر جہاز اتار کر گرفتار کرلیا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ پیش ازیں عبدالمالک ریکی کے بھائی عبدالحمید ریکی کو پاکستان نے گرفتار کرکے ایرانی حکومت کے حوالے کردیا تھا۔ عبدالمالک ریکی کی موت کے بعد جنداللہ، جیش العدل میں بدل دی گئی۔ اب پاکستان کے علاقے دالبندین میں جیش العدل کا بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ عدالت لگاکر پانچ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا ثابت کرتا ہے کہ اُس کے لوگ پاکستان کے علاقوں میں موجود ہیں جس سے ایران کی حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کے دعووں کو بھی تقویت ملتی ہے۔ چناں چہ ضروری ہے کہ پاکستان اس گروہ کی سرگرمیوں اور ٹھکانوں پر خصوصی نظر رکھے۔
یہ پانچ افراد اس لیے مارے گئے ہیں کہ انہوں نے دالبندین کے رہائشی مراد نوتیزئی کو جس کا مستعار نام حاجی طارق تھا، چند ماہ قبل دالبندین میں گھر میں گھس کر قتل کردیا تھا۔ مقتولین چاغی سے متصل افغانستان کے صوبہ ہلمند میں لشکر گاہ کے علاقے کے رہائشی تھے اور پشتون تھے۔ ایک مقامی شخص عامر شیر زئی بدستور قاتلوں کی تحویل میں ہے۔ قاتلوں نے مقتولین کو دالبندین سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر دور نوکنڈی کے علاقے میں حاجی عبدالنبی شیر زئی نامی شخص کے گھر سے تحویل میں لیا تھا۔ مغوی عامر شیر زئی عبدالنبی شیر زئی کا بیٹا ہے۔ عامر شیر زئی نے اعترافی وڈیو میں بتایا کہ اسے ایران میں بیٹھے ممتاز نامی شخص نے مراد نوتیزئی عرف طارق کو مارنے کے لیے رقم دی تھی جو تین قسطوں میں وصول کرلی تھی۔ اس تنظیم نے اسی کیس میں دالبندین سے کچھ اور افراد کو بھی اٹھایا ہے جن میں بااثر شخصیات کے رشتے دار بھی شامل ہیں۔ جیش العدل کی جانب سے 2 اگست کو جاری کی گئی وڈیو میں افغان مقتولین کے نام اور اُن کے اعترافی بیان دکھائے گئے۔ مقتولین نے بتایا کہ وہ اشرف غنی کے دورِ حکومت میں افغان فورسز کا حصہ تھے۔ ان کی شناخت سردار ولید ولد گلاب خان اسحاق زئی، رحمت اللہ ولد عبدالحمید نورزئی، روزی خان ولد نور محمد نورزئی، آغا ولی ولد محمد ولی نورزئی، سمیع اللہ ولد عبدالولی پوپلزئی سے ہوئی ہے۔ نعشیں دالبندین سے کوئٹہ کے سول اسپتال منتقل کردی گئی ہیں تاکہ ورثاء کے حوالے کردی جائیں۔
یہ سنگین نوعیت کا واقعہ ہے۔ ماضی میں ایرانی انٹیلی جنس چاغی، ماشکیل اور کوئٹہ کے اندر بھی کارروائیاں کرچکی ہے۔ اسی طرح جیش العدل بھی پاکستان کے اندر مختلف تخریبی اور انتقامی کارروائیاں کرتی رہتی ہے۔ اس نے چند ماہ قبل چاغی کے پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں خالد مینگل نامی ایک شخص کے گھر پر حملہ کیا جس میں خالد مینگل سمیت اُس کے بھی تین ارکان مارے گئے۔ اس کے گھر سے ایک شخص کو اغوا کیا گیا۔ دالبندین کے اسی علاقے میں چند سال قبل ایک شخص کو قتل کرنے کے بعد لاش کو کھمبے پر لٹکایا گیا تھا۔
حالیہ واقعہ اگر جیش العدل کی سرگرمیوں کا پتا دیتا ہے تو ساتھ ایرانی سرگرمیوں کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ پاکستان کے اندر یہ مارا ماری اور امن کی خراب صورتِ حال حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور عمل داری کی نشاندہی کرتی ہے۔
نعشیں دالبندین سے کوئٹہ کے سول اسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔ جسے کوئٹہ میں متعین افغان قونصل جنرل نے وصول کر لیں اور نیز پاکستان کو ایران سے درپردہ یہ بھی شکایت اور اندیشہ ہے کہ ایران پاکستان کے اندر سیاسی اورمذہبی اثر رسوخ کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ افغانستان میں لواحقین کے حوالے کردیں ۔